تمل ناڈو: منووادی نظام پر سوالات کی بوچھاڑ
(دعوت نیوز نیٹ ورک)
’ہم ہندوؤں کے دشمن نہیں بلکہ وہ خود اپنے آپ کے دشمن ہیں‘
ڈی ایم کے لیڈر اے راجا کے بیان سے برہمنوں میں کھلبلی۔سڑکوں سے پارلیمنٹ تک احتجاج
بھارت میں ذات پات کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں سال سے چلی آرہی ذات پات کی بیماری کے علاج میں ابھی صدیاں لگیں گی۔ یوں تو دلتوں، آدیواسیوں اور درج ذیل قبائلوں کو برہمنوں کے ہاتھوں آئے دن ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن جب وہ اس ظلم کے خلاف کبھی کچھ بول دیتے ہیں تو برہمنوں کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ چنانچہ حال ہی میں جب تمل ناڈو میں حکمراں جماعت ڈی ایم کے، کے رکن پارلیمنٹ اور سابق مرکزی وزیر اے راجا نے منوسمرتی پر سوال اٹھایا تو ریاست میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ دراصل اے راجا نے ایک پروگرام میں منوسمرتی کا حوالہ دیتے ہوئے تفصیلی گفتگو کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سماج کے ایک طبقے کو برابری، تعلیم، روزگار اور مندروں میں داخلے سے محروم رکھا گیا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ اگر کوئی عیسائی مسلمان یا پارسی نہیں ہے تو وہ ہندو ہے۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے جہاں اس طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہوں؟ اے راجا نے سوال کیا کہ آخر ہندو کون ہے؟ کیا ہم ہندو بننا چاہتے ہیں؟ آخر آپ مجھے ہندو کیوں سمجھ رہے ہیں؟ اے راجا نے برملا کہا کہ ’’جب تک آپ ہندو رہیں گے آپ شودر رہیں گے۔ اور جب تک آپ شودر رہیں گے گویا کہ تم ایک طوائف کے بیٹے ہو۔ جب تک آپ ہندو ہیں تب تک آپ پنچمن (دلت) ہیں۔ آپ ہندو رہنے تک اچھوت ہیں۔ آپ میں سے کتنے ہیں جو طوائفوں کی اولاد بن کر رہنا چاہتے ہیں؟ آپ میں سے کتنے ہیں جو اچھوت بنے کر رہنا چاہتے ہیں؟ اگر ہم اس طرح کے سوالات بار بار اٹھائیں گے تو ایک دن سناتن دھرم کے ٹوٹ جانے میں یہ عمل اہم ثابت ہو گا‘‘۔
اس بیان کے بعد بی جے پی سڑک سے لے کر پارلیمنٹ تک سرپا احتجاج ہوگئی۔ لوک سبھا اسپیکر سے شکایت کی گئی جس میں اے راجا کے بیان کو غیر اخلاقی اور ہندوؤں کے خلاف نفرت پھیلانے والا قرار دیا گیا، وہیں کئی مقامات پر بند بھی منایا گیا اور اے راجا کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس دوران اے راجا اور ڈی ایم کے کارکنوں کے خلاف قابل اعتراضات بیان دیے گیے جس کے نتیجے میں بی جے پی کے ضلعی صدر اُتم راما سوامی کو گرفتار کیا گیا۔
پولیس کے مطابق ہندو منانی کی طرف سے منعقدہ ایک میٹنگ میں راما سوامی نے سماجی مصلح ’پیر یار‘ ای وی راماسوامی کے خلاف توہین آمیز ریمارکس کیے تھے اور اس کے علاوہ اے راجا کے لیے بھی نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے۔ اُتم راماسوامی کو گرفتاری کے بعد پندرہ دنوں کے لیے عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق اے راجا نے اپنے بیان پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا، انہوں نے کہا کہ ’’سنگھی اب کہہ رہے ہیں کہ اے راجا کو معافی مانگنی چاہیے، کیوں کہ اس نے ہندوؤں کو نقصان پہنچایا ہے؟ معافی مانگنا کوئی بڑی بات نہیں۔ یہ تو ایک انسانی خاصیت ہے۔ اگر کوئی کہے کہ وہ کبھی معافی نہیں مانگے گا تو اس سے بڑا احمق کوئی نہیں ہے۔ اگر کسی سے غلطی ہوئی ہے تو اسے معافی مانگنی چاہیے جبکہ میں نے کوئی غلطی ہی نہیں کی ہے‘‘
اے راجا نے دعویٰ کیا کہ یہ دراوڑ کزگم (Dravida Kazhagam)اور ڈی ایم کے ہی تھی جس نے پسماندہ طبقے کے 60 فیصد لوگوں کے ریزرویشن کے لیے جدوجہد کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے ہندوؤں کی ان تمام ذاتوں کو ریزرویشن دینے کا مطالبہ کیا جو پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن برہمنوں اور راجپوتوں سمیت دیگر اعلیٰ طبقے کے ہندووٗں نے اس کی مخالفت کی۔ ہم ہندوؤں کے دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ خود اپنے آپ کے دشمن ہیں‘‘
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی برہمنوں کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے کیوں کہ ملک میں جب بھی برہمنوں کے خلاف کوئی آواز اٹھتی ہے تو اسے دبانے کوشش کی جاتی ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کے والد نند کمار بگھیل کو برہمنوں کے خلاف بیان دینے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’میں ہندوستان کے تمام دیہاتیوں پر زور دے رہا ہوں کہ برہمنوں کو آپ اپنے گاؤں میں داخل نہ ہونے دیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا ’’میں ہر دوسری کمیونٹی سے بات کروں گا تاکہ ہم ان کا بائیکاٹ کر سکیں۔ انہیں واپس وولگا ندی کے کنارے بھیجنے کی ضرورت ہے‘‘ یعنی صرف دلت ہی کیوں اچھوت ہوں اب برہمنوں کی بھی باری ہے کہ انہیں بھی اچھوت سمجھا جائے۔ لیکن جب متنازع بیانات کے لیے مشہور بی جے پی کی لیڈر اور رکن پارلیمنٹ پرگیہ ٹھاکر ’شودر‘ کو نا سمجھ اور بے وقوف کہتی ہیں تو ان کے خلاف کوئی ہلکی آواز تک نہیں اٹھتی، وہیں ہاتھرس میں جب ایک دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی اور قتل کی واردات پیش آئی تو دنیا دیکھا کہ کس طرح سے اس جرم میں ملوث اعلیٰ ذات کے لوگوں کو بچانے کے لیے پولیس، انتظامیہ، یہاں تک کہ حکومت نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ برہمن واد کی بنیاد قبائلیوں سے نفرت پر رکھی گئی ہے جس کا اصول یہ گھڑ لیا گیا کہ خدا نے انسانوں کو برابر نہیں بنایا ہے۔ اسی اصول پر اس ملک میں باہر سے آنے والے آریوں نے ایک ایسے سماجی نظام کو ایجاد کیا جس میں انہوں نے خود کو سماجی اور مذہبی اعتبار سے اس ملک کے اصل باشندوں پر افضل بنا لیا اور وہ بیچارے جو بھارت کے اصل باشندے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے خود اپنے ہی ملک میں اچھوت ہو گئے۔ آج انہی اچھوتوں کو اس ملک میں دلت کہا جاتا ہے۔
***
***
’’ہم نے ہندوؤں کی ان تمام ذاتوں کو ریزرویشن دینے کا مطالبہ کیا جو پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن برہمنوں اور راجپوتوں سمیت دیگر اعلیٰ طبقے کے ہندووٗں نے اس کی مخالفت کی۔ ہم ہندوؤں کے دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ خود اپنے آپ کے دشمن ہیں‘‘
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 2 اکتوبر تا 8 اکتوبر 2022