استنبول کا دل : تقسیم اسکوائر و استقلال اسٹریٹ کی ایک سیر

ترک تہذیب و ثقافت کےروح پرور مناظر۔استنبول سے ہفت روزہ دعوت کے قارئین کو معلوماتی تحفہ

افروز عالم ساحل

میرے ٹھیک سامنےبڑی سی ڈیجیٹل اسکرین پر ترکی زبان کا ثقافتی پروگرام اور تقریریں چل رہی ہیں جسے سننے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں جمع ہیں۔ اچانک اسکرین پر ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان آتے ہیں۔ ان کے آتے ہی ہجوم کا جوش وخروش بڑھ جاتا ہے۔ لیکن میرے لیے افسوس کا مقام ہے کہ میری ترکی زبان سے زیادہ واقفیت نہیں ہے۔ یا یوں کہیے کہ اس دن میں اتنی ترکی زبان نہیں جانتا تھا جتنی آج جانتا ہوں۔ میں سوچتا رہا کہ کیا حقیقت میں طیب ایردوان یہاں موجود ہیں یا اسکرین پر ان کی یہ تقریر یونہی چلائی جا رہی ہے؟ آخر اس تقریر میں ایردوان صاحب کیا بول رہے ہیں؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ اگر وہ یہاں موجود ہیں تو یہ سب کچھ کیا چل رہا ہے؟

دراصل آج 29 اکتوبر 2021 کو ترکی کا یوم جمہوریہ ہے۔ جمہوریہ ترکی اپنے قیام کی 98ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ اور آج میں یوروپی ثقافت کے سب سے اہم ترین مرکز یعنی استنبول کی تقسیم اسکوائر کی شاہراہ پر کھڑا ہوں۔ آپ کو بتادوں کہ اس اسکوائر کے بیچوں بیچ جدید ترکی کے بانی اتاترک مصطفیٰ کمال کا مجسمہ ہے، جسے یہاں ترکی زبان میں جمہوریت انیتے یعنی 1923 میں ترک جمہوریہ کے قیام کی یادگار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس جمہوریہ یادگار کو مشہور اطالوی مجسمہ ساز پیئترو کانونیکا نے دو ترک نوجوان ہادی بے اور صبیحہ حانم کی مدد سے ڈیزائن کیا ہے، جس کا افتتاح 8 اگست 1928 کو ڈاکٹر ہکے شیناسی پاشا نے کیا تھا۔

تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے بنانے میں قریب ڈھائی سال لگے تھے اور خاص بات یہ ہے کہ اسے لوگوں کے چندے کی مدد سے تیار کیا گیا تھا۔ 84 ٹن کے اس مجسمے کو پانی کے جہاز کے ذریعے روم سے استبول لایا گیا تھا۔ یہ جگہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ یہاں قومی تعطیلات پر سرکاری تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ اور ہاں! استنبول جس طرح تاریخی و سیاحتی شہر کے لحاظ سے ترکی کے دل کی حیثیت رکھتا ہے، ٹھیک اسی طرح تقسیم اسکوائر کو استنبول کا دل مانا جاتا ہے جس طرح کناٹ پیلس دلی کا دل ہے۔

اس تقسیم اسکوائر کے ٹھیک سامنے ایک بے حد عالیشان وخوبصورت مسجد نظر آرہی ہے جس کا افتتاح 28 مئی 2021 کو رجب طیب ایردوان نے کیا تھا۔ اس تاریخ کا انتخاب بھی کافی اہم ہے کیونکہ سال 2013 میں اسی تاریخ کو اسی تقسیم اسکوائر پر ایردوان حکومت کے ذریعے اس مسجد کے تعمیر کے اعلان کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا تھا، جن پر پولیس نے سخت کارروائی کی تھی۔ وہیں یہ تاریخ سال 1453 میں عثمانیوں کے قسطنطنیہ فتح کرنے کی تاریخ سے ایک دن قبل کی تاریخ ہے۔ اس مسجد کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں صدر ایردوان نے کہا کہ ’یہ مسجد فتحِ استنبول کی 568 ویں سالگرہ کا تحفہ ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’مسجد کی تعمیر اس کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر فتح ہے جو تقسیم اسکوائر پر کسی بھی طرح کی مذہبی علامت پر اعتراض کرتے رہے ہیں۔‘

کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کا خواب صدر ایردوان نے آج سے 26 سال پہلے سن 1994 میں دیکھا تھا جب وہ استنبول کے مئیر تھے۔ حالانکہ اس مسجد کی تعمیر کے لیے انہیں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ عوامی مباحثوں کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں دائر مختلف مقدمات بھی حائل رہے۔ اس کے باوجود اس کی تعمیر کا آغاز 17 فروری 2017 کو ہوا اور محض چار سالوں کے بعد یہ مسجد بن کر تیار ہوئی ۔

تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ 1800ء کی دہائیوں میں یہاں آرتھوڈوکس چرچ کے قریب تعمیر کی گئی ٹاپو بیرکس کے اندر ایک چھوٹی سی ’تکسیم مسجد ‘موجود تھی۔ یہ مسجد 19ویں صدی کے آغاز میں ناقابل استعمال ہوچکی تھی۔ 1940ء میں اسے خستہ حالت کی وجہ سے مسمار کردیا گیا تھا۔ 1952ء کے اوائل میں وزیر اعظم عدنان میندریس نے اس مسجد کی تعمیر نو کا منصوبہ بنایا، لیکن پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے۔ 1955ء میں ڈیموکریٹ پارٹی نے قدم اٹھایا اور یہاں مسجد کی تعمیر کے لیے ’’تقسیم مسجد ٹرسٹ‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ملک میں 1960 کے مارشل لا نے اس منصوبے کو کالعدم قرار دے دیا۔ تاہم 1965 میں سلیمان دیمرل کی جسٹس پارٹی نے نئے سرے سے اس مسجد کی تعمیر کے لیے قدم اٹھایا، لیکن اس وقت کی سیکولر ریپبلکن پیپلز پارٹی کی استنبول بلدیہ نے اس منصوبے کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے منسوخ کردیا۔

1977 میں سلیمان دیمرل کے دوبارہ برسراقتدار آنے پر نئے سرے سے اس مسجد کا پلان تیار کرتے ہوئے منظوری کے لیے پیش کیا گیا لیکن ری پبلکن پیپلز پارٹی نے اپنی سیکولر پالیسی کی بنیاد پر اسے ایک بار پھر مسترد کر دیا۔ ستمبر 1980 میں ترکی میں دائیں بازو کی جماعتوں کے سیاسی اتحاد ’نیشنلسٹ فرنٹ‘ نے مشترکہ طور پر اس مسجد کی تعمیر کے حق میں مہم کی شروعات کی، لیکن 12 ستمبر 1980 کے مارشل لا نے مسجد کی تعمیر سے متعلق مہم پر پابندی عائد کردی۔ سن 1983ء میں مسجد کی تعمیر کے لیے عدلیہ سے رجوع کیا گیا، لیکن ترکی کی اعلیٰ عدلیہ’’ کونسل آف اسٹیٹ‘‘ نے مقدمے ہی کو خارج کر دیا۔ اس کے بعد 1994ء میں مئیر بننے سے قبل ایردوان نے اپنے ایجنڈے کا اظہار کیا جس میں مسجد کی تعمیر بھی شامل تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ تقسیم اسکوائر جہاں دنیا بھر سے لاکھوں لوگ آتے ہیں جن میں مسلمان کثیر تعداد میں ہوتے ہیں ان کے نماز پڑھنے کے لیے ایک مسجد ہونی چاہیے۔

سال 2002 میں پارلیمنٹ میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی حکومت نے ایک بار پھر اس مسجد کی تعمیر نو کی بات کی۔ وزیر اعظم رجب طیب ایردوان نے اس مسجد کی تعمیر اور گیزی پارک میں عثمانی دور کے آرٹلری بیرکس کی تعمیر کے منصوبے کو بیک وقت شروع کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن گیزی پارک میں درختوں کی کٹائی نے حالات کا رخ تبدیل کر دیا۔ لیکن ایردوان اپنے منصوبے پر ڈٹے رہے۔ مئی 2013ء میں تعمیراتی سامان پہنچنا شروع ہوا جس پر ترکی کے سیکولرز نے پرتشدد مظاہرے شروع کردیے جو پورے ملک میں پھیل گئے۔ اس احتجاجی تحریک کو پولیس کی مدد سے کچل دیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ مسجد بہرحال تعمیر کی جائے گی۔ 2016ء میں منصوبہ کو ریجنل بورڈ میں پیش کیا گیا اور 19 جنوری 2017ء کو اسے قبول کر لیا گیا۔

جاننے والے بتاتے ہیں کہ اس مسجد کو جدید فن تعمیر کے طریقے ’ٹاپ ڈاؤن‘ پر بنایا گیا ہے۔ ترکی میں اس فن تعمیر پر بننے والی یہ پہلی مسجد ہے۔ اس مسجد میں ایک ثقافتی مرکز بھی بنایا گیا ہے جہاں نمائش وغیرہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مسجد میں کانفرنس ہال، لنگر خانہ اور ڈیجیٹل اسلام لائبریری بھی موجود ہے۔ میں اس مسجد میں لگی نمائش کو دیکھنا چاہتا تھا، لیکن میرے ساتھ گئے میرے ایک بھائی کے پاس ’ہیس کوڈ‘ نہیں تھا۔ آپ کو بتادوں کہ استنبول میں مخصوص جگہوں پر جانے کے لیے ’ہیس کوڈ‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ’ہیس کوڈ‘ ایک موبائل ایپ ہوتا ہے جس پر یہ سوال درج ہوتا ہے کہ آپ نے کوویڈ ویکسین لیا ہے یا نہیں؟

اب ہم مسجد کے اندر تھے۔ مسجد کے گنبد کے اندرونی حصے پر سورۃ اخلاص اور آیۃ الکرسی اور صدر دروازے پر سورۃ النساء کی 103ویں آیت کے آخری حصے اور استقلال دروازے پر سورۃ رعد کی 24ویں آیت کندہ ہے، وہیں مسجد کے اندرونی حصے پرﷲ، محمدؐ اور چاروں خلفائے راشدین کے نام جلی حروف میں دلکش انداز میں درج ہیں۔ مسجد کا اندرونی حصہ اتنا بڑا ہے کہ یہاں ایک ساتھ چار ہزار لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہاں کار پارکنگ کے لیے بھی جگہ مختص کی گئی ہے۔

استنبول کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کی زیادہ تر مسجدوں میں کار پارکنگ کی سہولت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کی طرح نمازی بیچ سڑک پر کار کھڑی نہیں کرتے۔ مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد اب ہم ایک بار پھر سے تقسیم اسکوائر پر تھے۔ اس اسکوائر سے آگے بڑھنے پر ایک استقلال اسٹریٹ ہے جبکہ اس سے لگی دوسری جانب کی سڑک سیراسیلویلار اسٹریٹ کہلاتی ہے۔ اسی سڑک پر کھانے کے لیے دہلی دربار، انڈیا گیٹ اور کراچی دربار کے نام سے تین مشہور ہوٹلیں ہیں جہاں ہندوستان اور پاکستان سے آنے والے سیاح کھانے کے لیے جاتے ہیں۔ یہ تینوں ہوٹلیں ترکی ہوٹلوں کے مقابلے میں قدرے مہنگی ہیں پھر بھی میں نے فیصلہ کیا کہ ہندوستانی کھانوں کا ذائقہ چکھا جائے۔ دہلی اور ممبئی میں دہلی دربار سے ہم کئی بار روبرو ہوچکے تھے، ایسے میں مَیں نے فیصلہ کیا کہ ہم ’انڈیا گیٹ‘ میں کھانا کھائیں گے۔

ہم نے یہاں اپنے لیے کھانا آرڈر کیا، کافی انتظار کے بعد ہمارا آرڈر کیا ہوا کھانا آیا۔ چکن تکہ مسالہ اور روٹی تو ٹھیک تھی لیکن بریانی ذائقہ دار نہیں تھی۔ ہمیں احساس ہوا کہ دلی کے جامعہ نگر کی گلیوں کی بریانی اس سے کافی بہتر ہوتی ہے۔ کھانے سے فارغ ہوکر ہم نے اس ہوٹل کے مالک سے بات کرنے کا ارادہ کیا۔ جب مالک سے میں نے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں؟ تو جواب تھا ’میں پاکستان سے ہوں۔‘ تو پھر آپ نے اس ہوٹل کا نام ’انڈیا گیٹ‘ کیوں رکھا، اس پر ان کا جواب تھا، ’ہمارے دوسرے پارٹنر انڈیا سے ہیں۔‘ انڈیا میں کہاں سے ہیں؟ جواب تھا، ’کشمیر سے‘ ہم نے پوچھا ’پی او کے سے؟‘ اس سوال پر وہ مسکرا دیے اور جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار کر لی۔ ان کی خاموشی نے مجھے جواب دے دیا تھا۔

اب ہم استنبول کی سب سے مشہور ’استقلال اسٹریٹ‘ پر تھے۔ بییوگلو کی یہ مشہور گلی ’استقلال‘ تقسیم اسکوائر کو گلاسترائے اور ٹنل اسکوائر سے ملاتی ہے۔ اس تاریخ ساز گلی میں 24 گھنٹے گہماگہمی رہتی ہے اور یہاں سڑک کے دونوں طرف تمام لوکل اور انٹرنیشنل برانڈز کی دکانیں موجود ہیں۔ اس ’استقلال اسٹریٹ‘ میں قدم رکھتے ہی ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہم یوروپ کے کسی بڑے اور ماڈرن بازار میں چل رہے ہیں۔

سچ پوچھیے تو یہ بازار استنبول کا ایک سماجی اور ثقافتی مرکز ہے، جہاں دنیا بھر کی ثقافتیں ایک ساتھ دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ اس سڑک پر جگہ جگہ لوگ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں، کہیں نوجوان گٹار بجاکر ترکی وانگریزی گانے گا رہے ہیں، تو کہیں ایک چھوٹی سی بچی وائلن بجاکر سب کا دل جیت رہی ہے۔ وہیں معمر حضرات بھی اس کام میں پیچھے نہیں ہیں۔ سڑک پر چلنے والے لوگ بھی ان کے فن کی عزت کرتے ہیں، گانے میں ان کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں اور ساتھ میں ان کے سامنے رکھی ٹوپی میں پیسے بھی ڈالتے جاتے ہیں۔ اب تک میں نے ایسا نظارہ ہالی ووڈ کی فلموں میں دیکھا تھا، آج یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔

اس سڑک کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں آکر سب خوش ہوتے ہیں اور خوشی سے سب جھومتے نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی ترکی زبان کا گانا گانے لگے تو سب اس کے ساتھ خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔ اس خوشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہم کھانا کھاکر ’انڈیا گیٹ‘ سے باہر نکلے تو ہمارے سامنے سے ایک نوجوان اپنی کار میں ایک ترکی گانا کافی زور سے بجاتے ہوئے جارہا تھا، جیسے ہی اس کی کار سگنل کی وجہ سے رکی تو آس پاس کے کاروں سے بھی لوگ نکل کر ناچنے لگے۔ سامنے کھڑے پولیس والے بھی ان کا ساتھ دیتے نظر آئے۔

اس سڑک کی ایک اور خاص بات ہے یہاں چلنے والی ٹرام۔ یہاں آکر پرانے ٹرام پر سوار ہونا یقیناً استنبول کی اس مرکزی شاپنگ اسٹریٹ کی خصوصیت ہے۔ یہ ٹرام استبنول میں چلنے والی دیگر ٹراموں سے الگ ہے۔ اس کی آواز ٹھیک ویسی ہی ہے جیسے انڈیا میں کولکاتا میں چلنے والی ٹرام کی آواز ہوتی ہے۔ لیکن یہ ٹرام کولکاتا کے ٹرام کے مقابلے زیادہ خوبصورت ہے، اور کافی رک رک کر چلتی ہے تاکہ سیاح اس کے سامنے اپنی تصویر نکال سکیں۔ اس سڑک کے بھیڑ میں اس کی اہمیت کافی دور سے ہی محسوس ہوتی ہے۔

تاریخ میں ہے کہ استنبول میں ٹرام سروس 1869 میں شروع ہوئی، تب یہ گھوڑوں سے چلتی تھی بعد میں اسے بجلی سے چلایا جانے لگا۔ اس طرح سے 1966 تک یہ چلتی رہی اور پھر بند ہو گئی۔ لیکن 1990 کے آخر میں اس استقلال اسٹریٹ کو پھر سے موٹر گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا اور نوسٹالجک ٹرام کو پھر سے شروع کیا گیا تاکہ دنیا کے مختلف ملکوں سے سیاحت کے لیے آئے ہوئے لوگوں کے ذہنوں میں ٹرام کی یادیں بسی رہیں۔

استنبول کی سب سے خاص بات میں نے جو محسوس کی وہ یہ ہے کہ یہاں کی حکومتیں اور عوام اپنی تاریخ کے ساتھ جیتے ہیں۔ جہاں جگہ جگہ میوزیم ہیں، وہیں آئے دن تاریخی تصاویر کی نمائش لگتی رہتی ہے۔ آج بھی اس استقلال اسٹریٹ پر اس اسٹریٹ کی پرانی تاریخ کی تصویروں کی نمائش لگائی گئی تھی۔ اس طرح استقلال اسٹریٹ اور اس کے آس پاس کی گلیاں ماضی کی اپنی کئی مثبت اور منفی خصوصیات کے ساتھ بغیر کسی استثنا کے ترکی کا سب سے زیادہ کاسموپولیٹن خطہ ہونے کی خصوصیت بھی رکھتا ہے۔ اسی استقلال اسٹریٹ پر جریمین چرچ، چرچ آف سنتا ماریہ دراپیریس، تیرا سینتے چرچ، سورپ یرورتوتیون کیتھولک چرچ، سنٹ انتھونی کیتھولک چرچ، آرمینیئن کیتھولک چرچ جیسے کئی اہم چرچوں کے ساتھ الہامبرا سینیما، امیک سینیما، الجازار سینیما، طارق ظفر کلچرل سنٹر، سویڈیش پیلیس، لیبون بیکری، کونسیلیٹ جنرل آف رسیئن فیڈریشن، یوروپین پیسیز، سیریئن پیسیز، فلاور پیسیز، اٹالیئن ایمبیسی بلڈنگ، ڈچ ایمبیسی بلڈنگ، بیووگلو اناتولیئن ہائی اسکول، گلاسترائے ہائی اسکول، گلاسترائے میوزیم، میڈم توساد استنبول، برٹش کونسیلیٹ جنرل بلڈنگ اور کونسلیٹ جنرل آف فرانس جیسی کئی اہم عمارتیں اور تاریخی ہوٹل اور بلڈنگیں موجود ہیں۔

بلکہ یوں کہیے کہ یہاں کھڑی ہر بلڈنگ اور گلی کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ یہاں کئی ایسی چیزیں موجود ہیں جن کے بارے میں الگ سے لکھے جانے کی ضرورت ہے۔ کوشش کروں گا کہ ان تمام تاریخی مقامات سے آپ سب کو واقف کراؤں۔

دیر رات میں واپس اپنے گھر لوٹ چکا تھا، لیکن بار بار یہ سوال ذہن میں تھا کہ کیا واقعی ایردوان یوم جمہوریہ کے موقع پر استنبول میں تھے؟ اگر تھے تو ان کی تقریر کس بارے میں تھی؟ انہی سوالوں کے ساتھ رات گزارنے کے بعد اگلے دن کی صبح یہاں کی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کو تلاش کرکے یہ سمجھنے کی کوشش کیا کہ آخر کل کا ماجرا کیا تھا؟

یہاں کے اخباروں میں شائع شدہ خبروں کے مطابق وہ یہاں جمہوریہ ترکی کے قیام کی 98 ویں سالگرہ پر ’اتاترک کلچرل سنٹر‘ کا افتتاح کررہے تھے۔ اس کلچرل سنٹر کی بے حد شاندار اور دلچسپ کہانی ہے۔ یہ نئی بلڈنگ ایک ’اتاترک کلچرل سنٹر‘ کی بلڈنگ کو مسمار کرکے بنائی گئی، جس پر ترکی کی سیاست کافی گرم رہی۔ مصطفیٰ کمال اتاترک کے نام سے منسوب اتاترک ثقافتی مرکز کی پرانی عمارات کو گرانے کے فیصلے پر حکمران جماعت کو پرتشدد مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے لیے ایردوان صاحب پر نہ صرف کئی سوال کھڑے ہوئے، بلکہ ان کے اقتدار کی کرسی بھی خطرے میں گھر گئی تھی اس کے باوجود انہوں نے تمام مخالفتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دس برسوں سے بند پڑی پرانی بوسیدہ ہوچکی عمارت کو مسمار کیا اور اس نئی عمارت کا افتتاح کیا۔ انشاء اللہ جلد ہی اس عمارت کی سیر کر کے اس کی تاریخ سے بھی آپ سب کو واقف کرانے کی کوشش کروں گا۔

استنبول کا یہ استقلال اسٹریٹ یا تقسیم اسکوائر ہمارے لیے ایک سبق کی طرح ہے کہ ایک ہی مقام پر مسجد، چرچ، کلچرل سنٹر، شاپنگ کمپلکس اور تمام طرح کی تاریخی عمارتیں ہیں جو اس بات کا مظہر ہیں کہ ترکی کے لوگ بالعموم استنبول کے باشندے بالخصوص مذہبی رواداری اور آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں آ کر اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ مذہب کے ساتھ ساتھ ترکی نے ہمیشہ سے اپنی تہذیب، ثقافت اور تجارت کو بہت اہمیت دی ہے۔ تاریخ کے مطابق تجارت کے لیے اس قوم نے تو باضابطہ طور پر ارطغرل اور عثمانی دور حکومت میں جنگیں بھی لڑی ہیں۔ ہم ہندوستانی مسلمان ترکی کے اس تاریخی مقام سے کافی کچھ سیکھ سکتے ہیں اور مذہب کے ساتھ تاریخ، تہذیب وثقافت اور تجارت میں بھی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 تا 11 دسمبر 2021