تدریسی آگہی طلبائی ارتقاء سماجی تغیر

روشن مستقبل کے معمار تیارکرنے میں اساتذہ کا ناقابل فراموش کردار

عتیق احمد اصلاحی

تعلیم گاہوں سے دولت کمانے کی مشینیں نہیں بلکہ بہترین انسان نکلنے چاہئیں
فرد کی نشو ونما میں اور قوموں کی تعمیر میں تعلیم و تربیت ہمیشہ اہم رول ادا کرتی رہی ہے۔ وہی قوم عروج پاتی ہے جو تعلیم یافتہ ہوتی ہے۔ زمانہ کا مقابلہ اور دوسری قوموں پر غلبہ و فتح انہیں کو حاصل ہوتا ہے جو میدان علم میں دوسروں پر سبقت لے جاتے ہیں اور اپنا علمی وقار کو ثابت کرتے ہیں۔
تمام مذاہب میں تعلیم کی اہمیت ہے مگر جتنی اہمیت اسلام نے دی ہے اتنی اہمیت کسی دوسرے مذہب نے نہیں دی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انسان آدم کو پیدا کیا تو انہیں چیزوں کا علم عطا فرمایا۔ اس علم کی بنیاد پر ان کو فرشتوں پر فوقیت عطا فرمائی۔ نبی اکرم (ﷺ) پر سب سے پہلی وحی اقرأ پڑھنے کے حکم سے نازل ہوئی۔ قرآن مجید میں 80 مقامات پر علم کا لفظ آیا ہے اور اس سے بننے والے دیگر الفاظ مثلاً یعلمون، تعلمون، افلا تعقلون، افلا تتفکرون، اولم ینظروا کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے جو غور و خوض اور دلائل کو حاصل کرنے پر متوجہ کرتے ہیں۔ بے شمار حدیثیں بھی علم کے سلسلے میں ہیں۔ اسلام ایمان و عمل کی بنیاد ہی علم پر رکھتا ہے، اسی لیے قول و عمل کی درستگی کے لیے علم کو شرط قرار دیاگیا  ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کو علم سے نوازا ہے چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے:
وَلُوْطًا اٰتَيْنَاهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا
اور لوط کو ہم نے حکم اور علم بخشا (سورہ انبیا:74)
وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٝٓ اٰتَيْنَاهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا
جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم عطا کیا
(سورہ یوسف:22)
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوُوْدَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا ۖ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِىْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِيْرٍ (سورہ نمل:15)
ہم نے داود و سلیمان کو علم عطا کیا اور انہوں نے کہا کہ ’’شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی۔
وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٝ وَاسْتَوٰٓى اٰتَيْنَاهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا (سورہ قصص:14)
جب موسیٰ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گیا اور اس کی نشو و نما مکمل ہوگئی تو ہم نے اسے حکم اور علم عطا کیا
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا(سورہ کہف:65)
اور وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔ اسی طرح طالوت کو بادشاہ بنانے کی وجہ بھی یہی بتائی گئی کہ وہ علم و جسم میں مضبوط تھے۔
اسلام نے علم کا مقصد معرفت رب بتایا ہے۔ ہر وہ علم جو انسان کو نفع پہنچائے اس کے حصول کے لیے ترغیب دی ہے۔ اسلام نے علم کی تقسیم نفع بخش اور غیر نفع بخش کی بنیاد پر کی ہے۔ نفع بخش علم کے حصول میں جو بھی علوم معاون ہوں یا نفع بخش علم کی ترسیل کے لیے جو بھی ذرائع اختیار کیے جائیں ان کو اپنانا لازمی و کار ثواب سمجھا گیا ہے۔
حضرت زیدؓ بن ثابت فرماتے ہیں  مجھے رسول اللہ نے یہودیوں کی سریانی زبان میں لکھنا پڑھنا سیکھنے کا حکم دیا تو میں نے یہ زبان سیکھ لی۔ وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہود کو میرے کتابت سیکھنے پر یقین نہیں آرہا تھا مگر ابھی آدھا مہینہ نہیں گزرا تھا کہ میں نے یہ زبان اس قدر سیکھ لی کہ اس میں مہارت و پختگی حاصل کرلی۔ اس کے بعد میں ہی وہ مکتوب لکھا کرتا تھا جو آپؐ یہودیوں کے لیے لکھوایا کرتے تھے اور یہودیوں کی طرف سے آنے والے مکتوب بھی میں ہی آپ کو پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔
سلیمانؑ کو جانوروں کی بولیوں کا علم عطا کیا جانے کا ذکر قرآن میں ہے۔ داودؑ کے لیے لوہے کے استعمال کرنے، آدمؑ کو اشیا کا علم عطا کرنے کا ذکر بھی قرآن میں موجود ہے۔
غزوہ بدر میں کفار کے قیدیوں کا فدیہ پر طے کیا جانا کہ وہ دس مسلمان بچوں کو تعلیم دیں گے، ظاہر ہے کہ کفار نے مسلمان بچوں کو زبان پڑھنا لکھنا ہی سکھایا ہوگا۔ پہلے پتھر کا زمانہ تھا۔ پھر دھات کا زمانہ آیا۔ پھر پڑھنے لکھنے کا دور آیا۔ اب کمپیوٹر اور اب ڈیٹا کا زمانہ ہے۔ اللہ کے رسول کے زمانے میں بھی اعداد و شمار اور ڈیٹا کا علم تھا۔ حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں حضور (ﷺ) نے فرمایا کہ مجے لکھ کر دو کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے حذیفہؓ کہتے ہیں ہم نے آپؐ کو لکھ کر دیا کہ پندرہ سو آدمی ہیں۔
نظام تعلیم کے بنیادی ستون معلم، نصاب اور طلبا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر چیزوں کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ ان تینوں چیزوں کے بغیر تعلیمی نظام کا تصور محال ہے اور اس میں بھی استاد کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ تدریس ایک مقدس اور پاکیزہ کام ہے بلکہ یہ انبیائی مشن ہے۔ یہ ایک اہم ذمہ داری کا کام ہے۔ تدریس محض ایک پیشہ نہیں ہے جس کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے کیونکہ ایک معلم نئی نسل کی نشو ونما اور تعمیر و ترقی معاشرے کی اصلاح اور فلاح و بہبود میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہر قوم میں استاد کی قدر کی جاتی ہے۔ مگر اسلام نے جو اہمیت استاد کو عطا کی ہے اس کی مثال کسی مذہب میں نہیں ملتی۔
حضرت محمد (ﷺ) کی بعثت کا مقصد بھی یہی بتایا گیا ہے۔
•  تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں (بقرہ:151)
•  نبی اکرم (ﷺ) نے اپنے بارے میں فرمایا کہ میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔
•  عالم اور طالب علم دونوں اجر و ثواب میں شریک ہیں۔
•  معلمِ خیر کے لیے تمام چیزیں دعائے مغفرت کرتی ہیں۔
قرآن کی ان آیات و احادیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام نے استاد کو کتنی اہمیت دی ہے اور تدریس کا پیشہ کتنا اہم ہے۔ اسلام نے استاد کا ادب و احترام سکھایا اور اس کی توقیر و تعلیم کا بھی سبق دیا ہے۔ اسلام نے جہاں معلم کے مقام کو واضح کرتے ہوئے اہمیت دی ہے وہیں ذمہ داری کی عدم ادائیگی پر سخت وعید بھی ہے۔ بچے امانت ہیں۔ ان کی تعمیر اور ان کو اچھے اخلاق سے مزین کرنا۔ اہم ذمہ داری ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا ’’سنو تم میں سے ہر ایک اپنے ماتحتوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے ان کی بابت پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘
جو کوئی بھی مسلمانوں کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا پھر ان کے لیے ایسی خیر خواہی اور کوشش نہ کی جتنی و اپنی ذات کے لیے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو منہ کے بل جہنم میں ڈال دے گا۔
ایک استاد کی ذرا سی بھی غفلت  وکوتاہی طلبا کے کردار کو بگاڑ سکتی ہے۔ تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ حدیثیں مسلم اساتذہ کو متوجہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں سمجھیں اور اس میں کسی طرح کی کوتاہی نہ برتیں۔ ایک مسلم معلم، مربی، مزکی، رہنما، رہبر، صلاح کار اور مددگار ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے دیگر اساتذہ کے مقابلے میں ایک مسلم معلم کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ سماج کی تعمیر اور طلبا کی شخصیت کی تشکیل میں اس کا رول بہت اہم ہوجاتا ہے۔
معلم کی ذمہ داریاں
نظریاتی فکری پختگی۔ مسلم معلم کو اسلامی رویہ تعلیم اسلام کا فلسفہ حیات سے واقف کرنا نہایت ضروری ہے۔ ایک معلم کی ہر بات و عمل طلبا پر اثر انداز ہوتی ہے۔ طلبا کے لیے معلم کی ذات افکار و اقدار کا اعلیٰ معیار ہوتی ہے۔ ایک استادا پنے طلبا کے لیے بہترین اسوہ و نمونہ ہوتا ہے۔ طلبا بہت خاموشی سے اساتذہ کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں اس لیے معلم کو ہر لمحہ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ خواہ وہ درجہ میں ہو، اسکول، کھیل کے میدان، بازار، پروگرام ہال یا کہیں بھی ہو اس کو ہر جگہ اخلاق فاضلہ کا خوگر ہی ہونا چاہیے۔ وہ ہر لمحہ اپنی رفتار، گفتار، کردار میں معلم ہوتا ہے۔ نرم مزاجی رحم دلی، غم گساری خوش کلامی، موثر انداز بیان، صبر و تحمل، معاملہ فہمی، قوت فیصلہ، طلبا سے محبت وشفقت جیسے اوصاف سے اپنے کو متصف کرنا چاہیے۔ نبی اکرم کی ذات اقدس کو اپنانے کی کوشش کرے۔
مواد مضمون پر قدرت
ایک معلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مضمون پر قدرت رکھتا ہو۔ مضمون پر کامل قدرت و عبور اور گرفت کے بغیر ایک معلم موثر و کامیاب معلم ثابت نہیں ہوسکتا۔ اپنے مضمون میں علمی لیاقت اور مضمون کے مواد پر عبور حاصل کرنا ایک استاذ کے لیے نہایت ضروری ہے۔ معلم صاحبِ علم و فن ہو اور اپنے مضمون سے گہری آشنائی رکھتا ہو۔ مضمون پر گرفت ہو تو وہ نظام تعلیم کے دوسرے اجزا کی کمی کے باوجود وہ اپنے طلبا کو علم کے آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ بہتر تدریسی خدمات کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ معلم مسلسل اپنے مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھے۔ کتب بینی وہ مطالعہ معلم کے علم میں جلا بخشتا ہے تازگی عطا کرتا ہے اور درجے میں دوران تدریس خفت سے محفوظ رکھتا ہے۔ اور اس کو اپنے مواد کی ترسیل میں آسانی ہوتی ہے اس لیے ایک معلم کو طالب علمانہ مزاج اختیار کرنا چاہیے۔
حدیث میں حکم دیا گیا ہے
علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاو
قرآن مجید میں نبی (ﷺ) کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے علم کے اضافہ کے لیے اللہ سے دعا کیا کریں
تدریس کو بہتر طور سے انجام دینے کے لیے تدریسی مہارتوں سے واقف ہونا اور ان کا  استعمال کرنا ایک معلم کے لیے بہت ضروری ہے، ان کے ذریعہ تدریسی عمل کو دلچسپ بنایا جا سکتا ہے۔ درجے میں مختلف صلاحیتوں و استعدادکے طلبا ہوتے ہیں ان کے گھریلو حالات بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ ایک معلم کو مختلف طریقے ہائے تعلیم سے بھی واقفیت ضروری ہے۔ یہ تمام چیزیں ایک معلم کی تدریس کو خوبصورت دل پذیر بنا دیتی ہیں اور طلبا کے سیکھنے کے عمل میں آسانی ہوجاتی ہے۔
طلبا کی کردار سازی
ایک معلم اپنے طلبا کی اچھی تعلیم و تربیت کے ذریعہ قوم کے مستقبل کی تعمیر کرتا ہے۔ معلم کا کام محض چند معلومات منتقل کرنا، کچھ مضامین پڑھا دینا یا کورس میں موجود مشقوں کو یاد کرادینا کافی نہیں ہے۔ تعلیم کا مقصد معرفتِ الہی، خود آگاہی و خود شناسی ہے۔ اس کے بغیر علم بے فیض ہے۔ ایک معلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے طلبا کی کردار سازی کے تعلق سے ہمیشہ فکر مند رہے۔ ایمان کی پختگی، خوف الٰہی، محبتِ رسول اور اطاعتِ رسول کے جذبات سے طلبا کے دلوں کو بھر دے۔ آخرت کی جواب دہی، حشر نشر کا استحضار پیدا کرنا۔ طلبا کو نظریاتی و فکری طور سے مضبوط کرنا ہے۔ طلبا کے اندر قوت فیصلہ، استدلال و تجزیاتی انداز سے سوچنے کی اہلیت، مقصد حیات سے واقفیت اور اس کے حصول کی دلچسپی پیدا کرنا، اچھی عادتوں اور محنت کا خوگر بنانا، دنیا سے بے نیازی مادہ پرستی، فیشن پرستی اور اباحیت سے دور رکھنے کی کوشش کرنا، استاذ کی اہم ذمہ داری  ہوتی ہے۔
ایک معلم چراغ کی مانند ہوتا ہے جو خود جلتا ہے مگر اطراف و اکناف کے ماحول کو روشن کر دیتا ہے۔ اسی طرح ایک معلم اپنے علم کی شمع سے کئی دماغوں کو روشن کر دیتا ہے۔ معلم ایک باغبان کے مثل ہے جو ہر لمحہ پودوں کی نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔ ایک معلم اپنے طلبا کی کردار سازی کے لیے ہر لمحہ فکر مند رہتا ہے۔ معلم ایک کمہار کی طرح ہے جو کچی مٹی کو گوند کر برتن بناتا ہے جس کو لوگ استعمال کرتے ہیں۔ معلم بر وقت اپنے طلبا کی صلاحیت میں اضافہ اور سلیقہ مندی سکھانے میں لگا رہتا ہے۔ معلم ایک سنہار کی طرح ہے جو خام سونے کو پگھلا کر زیورات تیار کرتا ہے جس کو لوگ اپنی زینت کا ذریعہ بناتے ہیں۔ معلم ایک آرٹسٹ  کا فریضہ انجام دیتا ہے، جس طرح ایک مصور بے رنگ تصویروں میں رنگ بھر کر اس میں گویا جان ڈال دیتا ہے اسی طرح معلم اپنے طلبا کو اچھی اخلاقی صفات سے متصف کرکے سماج کے لیے فائدہ مند بنا دیتا ہے جس سے سماج فیض یاب ہوتا ہے۔
ایک معلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ادارہ کا ماحول ایسا بنائے جس میں تعلیم کے مقاصد کو حاصل کرنا آسان ہوسکے۔ آج کے دور میں ادارے اپنے اصل مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ اداروں سے پروفیسر، ڈاکٹرس، سیاست داں، انجینئرس، ٹیچرس، تجار، قانون داں، فلاسفر تو نکل رہے ہیں مگر اچھے شہری، اچھے انسان اور اچھے مسلمان بن کر نہیں نکل رہے ہیں۔ یہ اس دور کا بڑا چیلنج ہے۔ مادیت اور دنیا پرستی اتنی غالب ہوگئی ہے کہ اداروں سے فارغین روپے کمانے کی مشین بن  کر نکل رہے ہیں لیکن انسانیت ان کے اندر ناپید ہے۔ جب کہ فرد کی کامیابی اور سماج کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ اداروں سے ایسے افراد فارغ ہوں جن میں انسانیت ہو ہمدردی ہو اور جذبہ خیر خواہی ہو۔ ایسے حالات میں ایک معلم کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ طلبا اور تعلیمی اداروں کا ماحول ایسا بنائیں جو مادہ پرستی کی ذہنیت سے آزاد ہو۔

 

***

 ایک معلم چراغ کی مانند ہوتا ہے جو خود جلتا ہے مگر اطراف و اکناف کے ماحول کو روشن کر دیتا ہے۔ اسی طرح ایک معلم اپنے علم کی شمع سے کئی دماغوں کو روشن کر دیتا ہے۔ معلم ایک باغبان کے مثل ہے جو ہر لمحہ پودوں کی نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔ ایک معلم اپنے طلبا کی کردار سازی کے لیے ہر لمحہ فکر مند رہتا ہے۔ معلم ایک کمہار کی طرح ہے جو کچی مٹی کو گوند کر برتن بناتا ہے جس کو لوگ استعمال کرتے ہیں۔ معلم بر وقت اپنے طلبا کی صلاحیت میں اضافہ اور سلیقہ مندی سکھانے میں لگا رہتا ہے۔ معلم ایک سنہار کی طرح ہے جو خام سونے کو پگھلا کر زیورات تیار کرتا ہے جس کو لوگ اپنی زینت کا ذریعہ بناتے ہیں۔ معلم ایک آرٹسٹ  کا فریضہ انجام دیتا ہے، جس طرح ایک مصور بے رنگ تصویروں میں رنگ بھر کر اس میں گویا جان ڈال دیتا ہے اسی طرح معلم اپنے طلبا کو اچھی اخلاقی صفات سے متصف کرکے سماج کے لیے فائدہ مند بنا دیتا ہے جس سے سماج فیض یاب ہوتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2023