کولکاتا میں مسلمانوں اور یہودیوں کے اتحاد کی انوکھی مثال

یہودی عبادت گاہوں اور ان کی دیگر املاک کے مسلمان محافظ

شبانہ جاوید ، کولکاتا

اسلام وعدہ وفائی کا حکم دیتا ہے۔ یہ بات  ثابت کر رہے ہیں یہاں کے مسلمان
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ پر جہاں دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف احتجاج دیکھنے کو مل رہا ہے وہیں کولکاتا میں  مسلمان، یہودی عبادت گاہوں کی حفاظت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ان کے مطابق جنگ کے بجائے آپسی اتحاد مسائل کے حل میں مدد گار ثابت ہوگا۔
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کو ایک مہینے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ان ایام میں دنیا نے تباہی کے ایسے مناظر دیکھے ہیں جس کا تصور بھی انسان کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ غزہ کھنڈر بن چکا ہے۔ حملے میں ہزاروں لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ مرنے والوں میں بزرگ، خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ پوری دنیا میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ پر آوازیں اٹھ رہی ہیں، لوگ سڑکوں پر اتر کر احتجاج کررہے ہیں اور فلسطینیوں پر مچائی جارہی اسرئیلی دہشت گردی کو روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن قائم ہو اور فلسطین کے لوگ پرامن زندگی گزار سکیں لیکن ان سب احتجاجی تحریکوں سے بے پروا اسرائیل کے فلسطین پر مسلسل حملے جاری ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم فلسطین کو کھنڈر بنانے کا بار بار اعلان کر رہے ہیں اور پوری دنیا کے سماجی کارکنان و عام لوگ اس تباہی پر بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس دوران ایسے بھی مسلمان سامنے آئے ہیں جو فلسطین کی موجودہ صورتحال پر افسردہ ہونے کے باوجود مذہبی رواداری، اعلی ظرفی اور انسانیت نوازی کا جو ثبوت پیش کر رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ غزہ اور اسرائیل جنگ کے دوران بنگال کے بعض مسلمانوں نے  یہودی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھائی ہوئی ہے اور یہ لوگ باقاعدگی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جی ہاں! یہ کولکاتا کے مسلمان ہیں جو یہودی عبادت گاہوں اور مقامی یہودی املاک کی حفاظت کر رہے ہیں۔ کولکاتا جو ریاست بنگال کا دارالحکومت ہے، اپنی تاریخی تہذیب کے لیے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ یہودی صرف اسرائیل میں رہتے ہیں لیکن ان کی آبادی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ بنگال سے لے کر کیرالا تک ان کی آبادی تھی۔ 1940 میں ان کی تعداد اچھی خاصی تھی لیکن بعد میں یہ تعداد گھٹنا شروع ہوئی اور آج ملک کی سب سے چھوٹی اقلیتی آبادی میں یہودیوں کا شمار بھی ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تین ہزار سال پہلے یہ لوگ کیرالا کے مالابار سے بھارت میں داخل ہوئے تھے جن کا مقصد تجارتی امور کی انجام دہی تھا جو یہاں سے ریشم اور مصالحے کے بدلے یہاں کے لوگوں کو سونا دیتے تھے۔ تجارت کے لیے آنے والے یہودی دھیرے دھیرے یہاں بسنا شروع ہوگئے اور یہاں کی تہذیب و ثقافت کو بھی اپنالیا۔ کولکاتا میں ان کی اچھی خاصی تعداد تھی۔ کہا جاتا ہے کہ 1940 میں جب آزادی کی جدوحہد تیز ہوئی تو اس وقت یہودیوں کے بڑی تعداد ملک چھوڑ کر امریکہ، کینیڈا اور اسرائیل چلی گئی لیکن کچھ تعداد ایسی بھی تھی جو یہیں رہ گئی۔ کولکاتا میں اسرائیلیوں نے کاروبار کے ساتھ ساتھ اپنی عبادت گاہیں بھی تعمیر کیں اور تعلیمی ادارے بھی قائم کیے۔ آج کولکاتا میں یہودیوں کی تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔ کولکاتہ کے عذرا اسٹیٹ میں ان کے کئی عمارتیں قائم ہیں جن کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری برسوں سے مسلم خاندان کرتا ہے۔ کولکاتا میں 1856 میں Megan David Synagogue بنائی گئی تھی جسے بغدادی یہودی برادری نے بنائی تھی۔ یہ کمیونٹی بھارت کی سب سے بڑی جیوش بزنس کمیونٹی میں سے ایک تھی۔ اس عبادت گاہ کو میگن ڈیوڈ، جوزف عذرا اور حسکیل یہودہ نے مالی تعاون فراہم کی تھی۔ اس علاقے کو عذرا اسٹریٹ کے نام سے جانا جاتا ہے جو گھنی مسلم آبادی والا علاقہ کہا جاتا ہے۔ جب یہودی بھارت آئے تھے تو انہوں نے کولکاتا کے مسلم آبادی والے علاقوں میں ہی رہائش اختیار کی تھی۔ شیخ شمیم جو اس عبادت گاہ کی دیکھ بھال کرتے ہیں کہتے ہیں کہ یہودی مسلمانوں کے قریب رہنا چاہتے تھے کیونکہ مسلمان بھی ایک اللہ کو مانتے ہیں۔ ان کے لیے مسلمانوں کے ساتھ رہنا زیادہ اہم تھا کیونکہ مسلمانوں اور یہودیوں میں بہت سی مماثلتیں ہیں کہ دونوں حلال گوشت کھاتے ہیں۔ وہ گزشتہ پچیس برسوں سے وہاں کام کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے ان کے والد یہاں کام کرتے تھے اور ان کا بچپن بھی اسی عبادت گاہ کے آس پاس ہی گزرا جس کی وجہ سے وہ یہودی خاندان کے بچوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور اب ان کے والد کے بعد اس پوری عبادت گاہ کی حفاظت کی ذمہ داری ان کے اوپر ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی بھی ان کے درمیان تعصب نہیں دیکھا وہ کہتے ہیں کہ ہفتے کے دن یہودیوں کی بڑی تعداد جن میں مرد خواتین اور بچے شامل ہوتے ہیں مختلف علاقوں سے یہاں جمع ہو کر عبادت کرتے ہیں۔ خواتین و بچے بالکونی میں عبادت کے امور انجام دیتے ہیں۔ شروع میں پوری عبادت گاہ بھری ہوئی ہوتی تھی مگر اب صرف چند لوگ ہی یہاں آتے ہیں اور اس کی دیکھ بھال کرنے والے مسلم یہاں باقاعدگی سے موم بتیاں جلاتے ہیں اس کی صفائی کرتے ہیں اور ان کی روایتوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہاں کام کرنے والے ربیع خان کہتے ہیں کہ وہ یہاں 2008 سے کام کر رہے ہیں۔ ان کے والد بھی یہاں کام کرتے تھے۔ وہ یہاں نماز پڑھتے ہیں اور یہاں رہنے والے یہودیوں سے گفتگو بھی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ باہر گھومنے بھی جاتے ہیں۔ ربیع خان کہتے ہیں کہ وہ اس عبادت گاہ میں جب نماز پڑھتے ہیں اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو اپنے فلسطین بھائیوں کے لیے بھی دعا کرتے ہیں۔ فلسطین کی موجودہ صورتحال پر ان کی آنکھوں سے آنسو بھی بہتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود یہودیوں کے ساتھ کیے گئے اپنے خاندان کے وعدوں کو بھی نبھاتے ہیں، اس امید پر کہ ان کی محنت کا صلہ فلسطینی مظلومین کے حق میں بہتر ثابت ہو، جبکہ یہاں رہنے والے Rabbi Robert David Rifkin ان کی عبادت گاہوں کے تئیں مسلمانوں کے احترام کو اہم مانتے ہیں۔ ان کے مطابق ہم یہاں دوستانہ ماحول میں رہتے ہیں اور ایسے وقت میں جبکہ فلسطین و اسرائیل کے درمیان حالات بد سے بد تر ہیں کولکاتا ہماری یکجہتی کی مثال پیش کر رہا ہے۔ صرف یہ عبادت گاہ نہیں ہے بلکہ کولکاتا کے جیوش گرلز اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والی مسلم لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد بھی ہے۔ یہاں تعلیم حاصل کرنے والی طالبہ عریبہ اسلام کہتی ہیں کہ میں چاہتی ہوں کہ جس طرح یہاں ہم پر امن ماحول میں رہتے ہیں فلسطین اور غزہ میں بھی ایسا ہی ماحول ہو۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ آپسی اتحاد اور بھائی چارہ ہی مسائل کو حل کرنے میں کارگر ثابت ہوتا ہے۔ کم از کم کولکاتا کے مسلمانوں اور یہودیوں نے تو ایسی ہی نظیر پیش کی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکم راں طبقہ بھی لوگوں کے دل کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرے اور ساری دنیا میں امن و امان کے قیام کی کوشش کرے، بالخصوص فلسطین کے مسلمان ہر لمحہ خوف وہراس کے ماحول میں جی رہے ہیں انہیں امن و شانتی کا ماحول مہیا کروایا جائے اور ظالموں کو ظلم کرنے سے باز رکھا جائے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2023