خبر ونظر

پرواز رحمانی

طے شدہ پالیسی سے فرار
فلسطین اور اسرائیل کشمکش کے بارے میں جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، اس کی سادہ سی پالیسی یہ ہونی چاہیے تھی کہ بھارت چونکہ ہمیشہ سے فلسطین کی آزادی کے حق میں رہا ہے، یاسر عرفات اور ان کی پی ایل او سے اس کے اچھے مراسم رہے ہیں، آج بھی فلسطین کے صدر محمود عباس سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لہٰذا ہم اسی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے۔ ہم اس پر قائم ہیں۔ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر جو حملہ کیا تھا اس کے پیچھے گزشتہ پون صدی سے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے بے انتہا اسرائیلی مظالم کی تاریخ ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے بجائے ہندوستان میں ایک بڑا حلقہ ایسا پیدا ہوگیا جس نے اسرائیل کی حمایت اور فلسطین کی مخالفت میں ماحول بنانا شروع کر دیا ہے، حالانکہ فلسطین اس لڑائی میں شامل نہیں ہے، وہاں سے اسرائیل پر کوئی حملہ بھی نہیں ہوا، وہ بس حماس کے تباہ شدہ علاقوں کے عوام کی مدد کر رہا ہے۔ اصل لڑائی حماس اور اسرائیل کے مابین ہے۔ لیکن لوگ اسرائیل کے مقابلے میں فلسطین کو کھڑا کرکے اس کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ لڑائی شروع ہوتے ہی حکومت نواز جرنلسٹوں کا ایک بڑا حلقہ اسرائیل پہنچ گیا اور وہاں کے لگژری ہوٹلوں میں بیٹھ کر من گھڑت خبریں بھیجنے لگا۔ گودی میڈیا کے یہ جرنلسٹ اگرچہ واپس آگئے ہیں اور اسرائیل کے حق میں ماحول بنا رہے ہیں۔ اس حلقے کا تعلق آر ایس ایس، بی جے پی اور اس کی حکومت سے ہے۔ اب دلی پولیس بھی میدان میں آگئی ہے اور حماس کے حق میں ہلکا پھلکا احتجاج کرنے والوں کو روک رہی ہے۔ 9؍ اکتوبر کی خبر ہے کہ دلی پولیس نے مساجد کے ائمہ کرام سے کہا ہے کہ اپنی تقریروں میں فلسطین کا نام نہ لیں اور نہ فلسطین کے حق میں دعا کریں۔ دلی کی پولیس لفٹننٹ گورنر یعنی مرکزی وزیر داخلہ کے تحت ہے اور وزیر داخلہ امیت شاہ ہیں۔
شر پسند عناصر سرگرم ہیں
دلی پولیس کا کہنا ہے کہ فلسطین کے حق میں مظاہرے کرنے، دعائیں کرنے اور حق میں بیاینات دینے سے ماحول خراب ہوسکتا ہے۔ پولیس کے اس طرز عمل پر مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم رہنماوں ڈاکٹر قاسم رسول الیاس، کنور دانش علی ایم پی ایم آر شمشاد ایڈوکیٹ وغیرہ نے سخت اعتراض کیا ہے اور کہا ہے یہ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں ہے۔ مساجد میں دعائیں کرنا احتجاج کا انتہائی پرامن طریقہ ہے۔ مسلمان مظلوموں کے حق میں صرف دعا کر رہے ہیں، بہت سے غیر مسلم بھی حماس کی حمایت کر رہے ہیں، پھر پولیس کو کیا اعتراض ہے؟ ائمہ نے بھی اس پر اعتراض کیا ہے۔ کسی نازک موقع پر اجتماعی دعا کا طریقہ مسلمانوں کا قدیم طریقہ ہے۔ 1965میں جب حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا کردار تبدیل کرنے کے لیے ایک آر ڈینینس جاری کیا تو مسلمانوں نے پرامن طریقے سے احتجاج کیا اور مسلم مجلس مشاورت کی اپیل پر ملک بھر کی مساجد میں جمعہ کی نماز کے بعد دعا کی۔ وہ جمعہ یوم دعا کے طور پر مشہور ہوا تھا۔ غرض یوم دعا بات پہنچانے کا مناسب ترین طریقہ ہے۔ دراصل شرق وسط پر ہندوستان میں طول پکڑنے کی وجہ وزیر اعظم کے بیان کی تاخیر ہے۔ وزیر اعظم نے لڑائی شروع ہونے کے فوراً بعد اسرائیل کے حق میں بیان دے دیا، بیان بھی بہت واضح تھا، یعنی کہ ’’اس موقع پر ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں‘‘ لیکن حماس کے مظلوموں پر کچھ نہیں بولے۔ ان سے پہلے وزارت خارجہ کے ایک ذمہ دار افسر نے یہ بیان دیا کہ ہم فلسطین کی آزادی کے حق میں رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ حالانکہ معاملہ فلسطین کی آزادی کا نہیں تھا۔ اسرائیل کے دیرینہ مظالم کا تھا، لیکن بہرحال اس بیان سے وزیر اعظم کے بیان کی قدر ے تلافی ہوئی۔ بعد میں وزیر اعظم نے فلسطین کے صدر محمود عباس سے بات بھی کی لیکن اس دوران شر پسند عناصر کی شرارتیں اپنا کام کر چکی تھیں اور ہنوز کر رہی ہیں۔
وزیر اعظم کا طریقہ
ہندوستانی وزیر اعظم کا طریقہ یہ ہے کہ کام تو وہ آر ایس ایس کے ایجنڈے کے مطابق ہی کرتے ہیں مگر ذہانت کے ساتھ۔ بہت سے کاموں میں خود سامنے نہیں آتے۔ وشوہندو پریشد، بجرنگ دل او رایسے سیکڑوں سنگٹھن اپنا کام کر رہے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم خاموش ہیں۔ 2014 میں بی جے پی حکومت کے قیام کے فوراً بعد کچھ سنگھٹنوں نے گوشت خوری کے خلاف پرتشدد مہم چلائی تھی۔ لوگوں کو سر عام مارا جانے لگا ان کے ٹفن دیکھے گئے، کون کیا کھار ہا ہے، اس کی جانچ ہونے لگی۔ پہلا بڑا واقعہ یو پی میں محمد اخلاق کے بہیمانہ قتل کا تھا مگر وزیر اعظم کی زبان نہیں کھلی۔ محمد اخلاق کے واقعے کے کئی دن بعد پہلا بیان آیا تو وہ مرکزی وزیر جیٹلی کی طرف سے تھا جو وزیر اعظم کی ایما پر دیا گیا تھا۔ گویا وزیر اعظم نے اس وقت بھی اپنی زبان استعمال کی۔ جب کئی واقعات رونما ہوگئے تو وزیر اعظم نے شر پسندوں کے خلاف ایک زور دار بیان دے دیا جو بظاہر وارننگ کے جیسا پر تھا، جس کا خود شر پسندوں اور بی جے کے حمایتیوں نے مذاق اڑایا۔ ان کے طرز عمل سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ وزیر اعظم کا سکھایا ہوا کام ہی کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ انہوں نے گجرات کے فسادات اور اس دوران پیش آنے والے واقعات سے سیکھا ہے اور اب حماس کے مظلومین اور فلسطین کے خلاف اور اسرائیل کی حمایت میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے بھی وزیر اعظم کی حمایت حاصل ہوگی۔ فلسطین کی آزادی کی حمایت میں اٹل بہاری واجپائی کا بیان سوشل میڈیا پر کئی بار سنایا جا چکا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم نے بھی اپنے پہلے بیان کے بعد جو اسرائیل کی حمایت میں تھا، دوسرے بیان میں فلسطین کی حمایت میں کچھ کہہ دیا ہے لیکن شر پسندوں کی حرکتیں وہی ہیں۔ ان پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ ویسے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے لیے جو قرارداد پیش کی گئی اس میں ہندوستان غیر جانب دار رہا جو شر پسندوں کے اطمینان کے لیے کافی تھا۔