بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

کامیاب مستقبل کے لیے منصوبہ بندی اور کفایت شعاری لازمی

ڈاکٹر شکیل احمد خان، جالنہ
8308219804  

مالی طور پر پسماندہ اور متوسط گھرانوں کو چاہیے کہ آمدنی اور خرچ میں توازن برقرار رکھیں
دو ہزار سال قبل مسیح کی ایک اہم صبح سورج مصر کے شاہی محل کے عقب سے نمو دار ہو چکی ہے۔ اندر حاکمِ وقت بے چینی سے ٹہل رہا ہے، سارے دربار پر خاموشی طاری ہے۔کوئی عالم، نجومی یا کاہن اس عجیب و غریب خواب کی تعبیر بتانے سے قاصر ہے جو اس نے گزشتہ رات دیکھا تھا۔ اچانک ایک مشیر کو کوئی بات یاد آتی ہے اور وہ جیل میں بند ایک قیدی کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ یقینا اس خواب کی تعبیر بتا سکتا ہے۔ قیدی کے سامنے حاکم اپنا خواب بیان کرتا ہے کہ سات دبلی گائیں ہیں جو اپنے سے بہت بھاری سات موٹی تازہ گائیوں کو کھا رہی ہیں اور سارا گوشت کھا جانے کے بعد بھی دبلی کی دبلی ہیں۔ اور دوسرا منظر یہ ہے کہ سات سوکھی بالیں ہیں جو سات ہری بھری اور سر سبز بالیوں کے اوپر لپٹ گئی اور انہیں بھی سوکھا بنا دیا۔ قیدی اس کی تعبیر یہ بتاتا ہے کہ یہاں سے آگے سات سال خوب اچھی بارش ہو گی اور بھر پور فصل حاصل ہوگی۔ یعنی بالیں سرسبز ہوں گی اور گائیں موٹی تازہ۔ لیکن اس کے بعد آنے والے سات سال نہایت شدید قحط پڑے گا، یعنی بالیں سوکھی ہوں گی اور گائیں دبلی۔ اور اس صورتِ حال کا تقاضا یہ ہے کہ ابتدائی خوشحال سات سالوں میں جو گندم پیدا ہو اس میں سے صرف بنیادی ضرورت کے لیے درکار مقدار کا ہی استعمال کیا جائے اور باقی گندم کو آئندہ کے قحط والے سات سالوں کے لیے محفوظ رکھا جائے۔ اس طرح قحط کے سات برسوں میں ابتدائی سات سالوں میں پس انداز کی گئی گندم کو کھایا جائے، یعنی قحط کے سات سال (دبلی گائیں) تمہارے پس انداز ذخیرے (موٹی گایوں) کو کھا کر ختم کریں گے۔ لہٰذا بھوک اور قحط کے ہاتھوں مرنے سے بچنا ہو تو مسلسل چودہ سالوں تک منظم طریقے سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ پھر اس کے بعد آنے والے سال میں خاطر خواہ بارش ہوگی اور خوب فصل اور پھل حاصل ہوں گے۔ یہ روشن ضمیر قیدی کوئی اور نہیں بلکہ اللہ کے نبی حضرت یوسف (علیہ السلام) تھے جن کے بارے میں قرآنِ حکیم میں پوری ایک سورت موجود ہے۔
اِس واقعے میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ کلامِ پاک میں اس واقعے کے ذریعے اللہ تعالی نے جہاں دیگر اہم امور کو بیان کیا ہے وہیں راست طور پر انسانوں کو ہمیشہ کے لیے ایک سنہری اصول بھی سمجھا دیا ہے۔ در اصل آج کے حالات میں قوم کے لیے اس اصول کے اعادے کی شدید ضرورت ہے۔ اللہ تعالی کے اذن سے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے نہ صرف خواب کی تعبیر بتائی بلکہ اس سے نبرد آزما ہونے کا نسخہ بھی بتا دیا۔ اسی نسخہ کی آج قوم کو ضرورت ہے۔ وہ نسخہ اور وہ سنہری اصول ہے دور بینی و دور اندیشی سے مستقبل میں پیش آنے والی صورت حال اور اقتصادی ضروریات کے لیے متواتر منصوبہ بندی سے کام کرتے رہنا۔ اِس بات کو تسلیم کرنے سے کسے انکار ہو سکتا ہے کہ ہر قوم کی زندگی میں اتار چڑھاؤ، آسمانی و سلطانی مصیبتوں اور ناگہانی و غیر متوقع واقعات و حادثات کا ظہور پذیر ہوتے رہنا ایک فطری اور ثابت شدہ حقیقت ہے، اور ان سے دانش مندانہ منصوبہ بندی کرنے والے ہی ابھر سکتے ہیں۔ جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے 14سالہ اقتصادی منصوبہ بندی سے اپنی قوم کو بربادی سے بچا لیا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے بارے میں قرآن کا نقطہ نظر صوفیانہ مذاہب سے کس قدر مختلف ہے۔ یوں تو زندگی کے ہر پہلو کی منصوبہ بندی ضروری ہے لیکن باعزت اور پر سکون زندگی کے لیے اقتصادی و مالی منصوبہ بندی بھی لازمی ہوتی ہے۔ اسی سے دیگر تمام پہلو جڑے ہوتے ہیں۔ اقتصادی منصوبہ بندی کی خاندانی و ازدواجی زندگی میں وہی اہمیت ہوتی ہے جو انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اور خصوصاً نچلے اور بیشتر متوسط گھرانوں میں بھی مالی منصوبہ بندی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ حالانکہ ان کو ہی اِس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ آج حالات اتنے ناگفتہ بہ ہیں کہ کبھی کورونا جیسی کوئی وبا پھوٹ پڑتی ہے تو کبھی فساد برپا ہو جاتا ہے۔ کبھی سیلاب اور زلزلوں کا سامنا ہوتا ہے تو کبھی کوئی سنگین  بیماری کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن اِن چیزوں سے نمٹنے کے لیے قوم کے بیشتر افراد کے پاس کوئی بیک اپ، بچت یا ریزرو فنڈ نہیں ہوتا۔لہٰذا وہ خود تو خوار ہوتے ہی ہیں، ان کی عدم منصوبہ بندی کا پورا بوجھ ان کے رشتہ داروں اور ملت کی فلاح و بہبود کا کام کرنے والی تنظیموں کے سر پر آن پڑتا ہے۔ رشتہ داروں اور ملی تنظیموں کو قوم کی بنیادی ترقی کے لیے استعمال ہونے والے وسائل ان لوگوں کی داد رسی پر صرف کر دینا پڑتے ہیں۔ یعنی جو رقم بے گناہ نوجوانوں کی قید سے رہائی، ذہین محنتی طلبا کی اسکالر شپ، بے روزگاروں کو چھوٹے موٹے کاروبار کے لیے مدد اور مظلوموں کی ریلیف کے لیے استعمال ہونی تھی وہ ایسے لوگوں کو راشن کٹ فراہم کرنے میں صرف ہو جاتی ہے۔ یہ تو ہوا ناگہانی صورتِ حال کا بیان۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ان اخراجات کے بارے میں بھی بیشتر لوگ کوئی منصوبہ بندی اور بچت نہیں کرتے جو برسوں پہلے سے واضح طور پر معلوم ہوتے ہیں، مثلاً بیٹیوں کی شادی کے لیے انتظام۔ اب یہ بات سمجھنا کوئی راکٹ سائنس تو ہے نہیں کہ لڑکی پیدا ہوئی ہے تو بیس سال بعد اس کی شادی کرنا ہوگی۔ لیکن اکثر لوگ ساری زندگی الٹے سیدھے اخراجات، خریداریاں اور شوق پورے کرتے رہتے ہیں یا کاہلی و سستی میں گزار دیتے ہیں۔ کیونکہ بچیوں کی شادی کے لیے رشتہ دار اور قوم ہے نا! مدد مانگنے والوں میں اکثریت بیٹی کی شادی کے نام پر رقم مانگنے والوں کی ہوتی ہے۔ یہاں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ لوگ واقعی مستحق ہوتے ہیں، اپنی پوری کوشش کے باوجود مسائل کے بھنور سے نکل نہیں پاتے۔ وسائل اور بچت اچانک ناگہانی حادثے میں صرف ہو جاتی ہے۔ آمدنی محدود یا بند ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو ہم یہاں اس بحث سے الگ رکھتے ہیں۔ لیکن مشکلات میں قوم سے مدد کے طلب گاروں سے یہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ وہ خود قوم کے لیے کتنے مدد گار بنتے ہیں۔ اگر وہ منصوبہ بندی، سلیقہ شعاری، کفایت شعاری اور محنت ومشقت سے خود اپنا گھر بھی سنبھال لیں تو بھی یہ قوم کی مدد ہوگی۔ کیونکہ ایسی صورت میں قوم کے وسائل اصل مستحقین تک پہنچ پائیں گے۔ مڈل کلاس کے اکثر افراد کو مانگنے کی تو ضرورت نہیں پڑتی لیکن اِس رویہ کے باعث وہ خاطر خواہ ترقی نہیں کر پاتے، بچوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلا پاتے اور نہ ہی قوم کی بھلائی میں کوئی ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ ان کی قوم سے ہمدردی صرف سوشل میڈیا پر ویڈیوز شیئر کرنے تک محدود رہتی ہے۔ ایسے لوگ بلا سوچے سمجھے فضول خرچی کرتے رہتے ہیں جیسے ابتداء میں چھوٹے بچوں کو اپنی آمدنی و استعداد سے بہت بڑھ کر کپڑے پہناتے ہیں، برتھ ڈے مناتے ہیں اور جب اچھے اسکول میں داخلہ کروانا ہو، اعلی تعلیم دلوانا ہو تو تہی دست ہو جاتے ہیں۔ ایسی غیر منصوبہ بندی والی محبت دراصل اپنے بچوں سے دشمنی کے مترادف ہے۔ کیونکہ کپڑے تو چند دنوں بعد بے کار ہو جائیں گے لیکن اعلیٰ تعلیم کے بغیر آپ کے بچے زندگی بھر محتاج رہیں گے۔ توجہ دلانے پر ایسے لوگ منصوبہ سازی کی جکڑ بندی سے بچنے اور خواہشوں کی تکمیل کے لیے بڑی بے نیازی سے ’’اللہ مالک ہے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ بے شک اللہ مالک ہے  لیکن یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ وہی مالک عمل اور منصوبہ بندی کی تاکید بھی کرتا ہے جیسا کی حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہی مالک قرآن پاک میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیتا ہے۔ اسی مالک کی شریعت پہلے اونٹ کو رسی سے باندھنے اور پھر توکل کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اپنی موجودہ مالی استعداد سے بڑھ کر طرزِ زندگی اپنانا اور مستقبل کی منصوبہ بندی کو نظر انداز کرنا اونٹ کی رسی باندھے بغیر توکل کرنے کے مانند ہے۔ لہٰذا کاغذ کے ایک طرف اپنی ماہانہ و سالانہ آمدنی کا اندراج کیجیے اور دوسری طرف ماہانہ و سالانہ اخرجات کی فہرست بنائیے۔ یاد رہے کہ آپ کسی بھی کلاس سے تعلق رکھتے ہوں، آپ کے اخرجات کا دائرہ آمدنی کے دائرے کے اندر ہی ہونا چاہیے۔ اگر نہیں ہے تو سوچیے کہ کن چیزوں پر خرچ بند کر دینا ہے اور کن پر کٹوتی کرنا ہے۔ اخرجات کی فہرست میں مستقبل کی ضروریات (بچوں کی تعلیم، شادی) اور ناگہانی واقعات کے لیے بچت ضرور شامل رکھیے۔ کیونکہ بقول ساحر لدھیانوی، ’’کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج‘‘ ۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اخرجات کا دائرہ مہنگائی کے باعث خود بخود بڑھتا رہتا ہے۔ جب کہ آمدنی کے دائرے کو قائم رکھنے یا بڑھانے کے لیے مسلسل کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچت کے ذریعہ مستقل آمدنی کے ذرائع پیدا کرتے جائیں، بچوں میں بھی اقتصادی خواندگی Financial Literacy پیدا کریں۔ کیا ہی بہتر ہو اگر جمعہ کے خطبوں میں عوام کو اِس طرف بھی متوجہ کیا جائے۔ کیوں کہ غربت، گناہ اور ارتداد کی طرف لے جا سکتی ہے اور لے جا رہی ہے۔ معاشی ترقی و منصوبہ بندی کے ضمن میں  Robert Kiyosaki  کی دو کتابیں
.1-Rich Dad, Poor Dad
.2-Cashflow Quadrant
ضرور پڑھیں۔ ان کتابوں کے اردو تراجم بھی دستیاب ہیں۔ یاد رکھیے کہ موجودہ حالات میں وہی قوم باقی رہ سکتی ہے جو ماضی سے سبق حاصل کرتی ہے، مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہے اور پردہ غیب میں پوشیدہ طوفان کی سن گن پا لینے کی صلاحیت رکھتی ہے، جو فراقؔ گورکھپوری کا مندرجہ ذیل شعر گنگنا سکتی ہے کہ:
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
***

 

***

 اخرجات کا دائرہ مہنگائی کے باعث خود بخود بڑھتا رہتا ہے۔ جب کہ آمدنی کے دائرے کو قائم رکھنے یا بڑھانے کے لیے مسلسل کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچت کے ذریعہ مستقل آمدنی کے ذرائع پیدا کرتے جائیں، بچوں میں بھی اقتصادی خواندگی Financial Literacy پیدا کریں۔ کیا ہی بہتر ہو اگر جمعہ کے خطبوں میں عوام کو اِس طرف بھی متوجہ کیا جائے۔ کیوں کہ غربت، گناہ اور ارتداد کی طرف لے جا سکتی ہے اور لے جا رہی ہے۔ معاشی ترقی و منصوبہ بندی کے ضمن میں  Robert Kiyosaki  کی دو کتابیں1-Rich Dad, Poor Dad. 2-Cashflow Quadrant. ضرور پڑھیں۔ ان کتابوں کے اردو تراجم بھی دستیاب ہیں۔ یاد رکھیے کہ موجودہ حالات میں وہی قوم باقی رہ سکتی ہے جو ماضی سے سبق حاصل کرتی ہے، مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہے اور پردہ غیب میں پوشیدہ طوفان کی سن گن پا لینے کی صلاحیت رکھتی ہے،


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2023