پارلیمنٹ میں قانون سازی کی صورتِ حال افسوس ناک: چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ قوانین میں وضاحت کی کمی ہے

نئی دہلی، اگست 15: چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے اتوار کو پارلیمنٹ کے کام کاج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ قوانین میں کوئی وضاحت اور شفافیت نہیں ہے۔

رمنا نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام یوم آزادی کی تقریب میں کہا ’’اب ہم قانون سازی میں بہت زیادہ خلا اور قانون بنانے میں بہت زیادہ ابہام دیکھتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ قوانین کس مقصد کے لیے بنائے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے بہت زیادہ قانونی چارہ جوئی ، تکلیف اور حکومت کو نقصان اور عوام کو تکلیف پہنچ رہی ہے۔‘‘

پارلیمنٹ کے مانسون سیشن میں، جو 11 اگست کو اپنے شیڈول سے دو دن پہلے ختم ہوا، کئی رکاوٹیں دیکھنے میں آئیں کیونکہ حکومت اور اپوزیشن ان الزامات پر بحث کو لے کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہے کہ کیا پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال بھارت میں کئی سیاستدانوں، صحافیوں اور کارکنوں کی جاسوسی کے لیے کیا گیا تھا۔

حکومت نے نگرانی کے ان الزامات پر بات چیت کرنے سے انکار کر دیا، جب کہ اپوزیشن بار بار اس معاملے پر غور کرنے پر اصرار کرتی رہی ہے۔ اپوزیشن نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ اس معاملے پر بحث کی اجازت نہ دے کر ان کی آواز کو دبا رہی ہے۔ انھوں نے مناسب بحث کے بغیر ’’بلڈوزنگ بل‘‘ پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

اے این آئی کی رپورٹ کے مطابق راجیہ سبھا نے سیشن کے دوران 28 فیصد پروڈکٹیویٹی صلاحیت ریکارڈ کی۔ ایوان میں 17 اجلاس ہوئے جو 28 گھنٹے اور 21 منٹ تک کام کرتے رہے۔ رکاوٹوں نے 76 گھنٹے 26 منٹ کا نقصان کیا۔ ایوان بالا میں اس دوران 19 بل منظور ہوئے۔

اسپیکر اوم برلا نے کہا کہ لوک سبھا کی پروڈکٹیویٹی صلاحیت 22 فیصد رہی کیوں کہ یہ صرف 21 گھنٹے اور 14 منٹ تک ہی کام کرسکا۔ جب کہ اس سیشن کا اصل دورانیہ 96 گھنٹے ہونا تھا۔ یہ پچھلے بجٹ سیشن کے بالکل برعکس تھا جب ایوان زیریں نے 114 فیصد پروڈکٹیویٹی صلاحیت ریکارڈ کی۔ اس سیشن کے دوران 20 بل منظور کیے گئے۔

اتوار کے روز رمنا نے پارلیمنٹ کے کام کا موازنہ پہلے کے وقت سے کیا، جب ان کے بقول قانون سازی پر تبادلہ خیال کیا جاتا تھا اور اسے تفصیل سے بیان کیا جاتا تھا۔

انھوں نے نشان دہی کی کہ آزادی کے ابتدائی سالوں کے دوران پارلیمنٹ کے ارکان وکلاء تھے۔ این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے کہا ’’اس وقت کے ایوانوں میں بحث بہت تعمیری ہوتی تھی۔ میں نے مالیاتی بلوں پر مباحثے دیکھے ہیں جن میں بہت تعمیری نکات پیش کیے گئے۔ قوانین پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ہر ایک کے سامنے اس قانون کے قانون سازی والے حصے کی واضح تصویر ہوتی تھی۔‘‘

چیف جسٹس نے مزید کہا ’’لہذا قانون کی تشریح یا نفاذ میں عدالتوں کا بوجھ کم تھا۔ تب قانون سازی کا حصہ اس حوالے سے واضح تھا کہ وہ ہمیں کیا بتانا چاہتے ہیں۔ اب وہ ایسی قانون سازی کیوں کر رہے ہیں۔ اب افسوسناک حالت ہے، اب ہم قانون سازی کو افسوس ناک حالت کے ساتھ دیکھتے ہیں۔‘‘

انھوں نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اچھے وکیل قانون سازی میں اپنا حصہ نہیں ڈال رہے ہیں۔ رمنا نے اس کے بعد وکلاء پر زور دیا کہ وہ اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

انھوں نے کہا ’’اپنے آپ کو پیسہ کمانے اور آرام سے زندگی گزارنے تک محدود نہ رکھیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ ملک میں اپنے علم اور تجربے کا حصہ ڈالیں گے۔‘‘