!سراج الدولہ کے غداروں کی کارگزاری کو درست قرار دیا جا رہا ہے
لوک سبھا الیکشن کی انتخابی مہم میں پلاسی کی جنگ سرخیوں میں
شبانہ جاوید ،کولکاتہ
بی جے پی امیدوار کے مطابق ہندو دھرم کی بھلائی کے لیے سراج الدولہ سے غداری کی گئی تھی
موجودہ دور کی سیاست میں سیاسی لیڈر کب کیا کہہ جائیں یہ کہنا مشکل ہے ۔ جب کبھی یہ لوگ خطاب کرتے ہیں اور دورانِ بیان جو کچھ اول فول بکتے ہیں ان کو سن کر کوئی بھی صاحبِ عقل و خرد حیران و ششدر رہ جاتا ہے کیونکہ یہ سیاسی لیڈر اپنی اوٹ پٹانگ باتوں کو بھی کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ عام سننے والے کو وہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔
بنگال کی سیاست میں ان دنوں کچھ ایسے ہی بیانات سننے کو مل رہے ہیں ۔دراصل بات سراج الدولہ اور ان کے ساتھ کی گئی غداری کی ہے۔ آج تک اس غداری کو غداری تسلیم کیا جاتا رہا لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ یہ غداری نہیں تھی ہندو دھرم کے تحفظ کے لیے اٹھایا گیا قدم تھا
یاد رہے کہ سراج الدولہ بنگال کے آخری آزاد نواب تھے جنہوں نے 1756 سے 1757 تک حکومت کی۔ بالآخر پلاسی کی جنگ میں اپنوں کی غداری کی وجہ سے انہیں شکست ہوئی۔ ان کے دور حکومت کے اختتام کے ساتھ بنگال اور بعد میں تقریباً تمام برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکم رانی کا آغاز ہوا ۔ سراج الدولہ کے ساتھ غداری کرنے والوں میں میر جعفر، راجہ کرشنا چندر رائے اور جگت سیٹھ کا نام سامنے آتا ہے۔ بی جے پی نے بنگال کے کرشنا نگر لوک سبھا سیٹ سے سے مہاراجہ کرشنا چندر رائے خاندان کی راج ماتا امریتا رائے کو امیدوار بنایا ہے جبکہ ترنمول کانگرس نے مہوا موئیترا کو میدان میں اتارا ہے۔ مہوا موئیترا کچھ مہینوں سے سرخیوں میں ہیں۔ پارلیمنٹ میں پیسے لے کر سوال پوچھنے کے الزام میں انہیں پارلیمنٹ سے برخاست بھی کردیا گیا تھا لیکن بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے مہوا مویترا کو ایک بار پھر کرشنا نگر سے پارٹی کا امیدوار بنایا ہے جبکہ امریتا رائے کا تعلق کرشنا چندر رائے راجہ کے خاندان سے ہے۔ ایسے میں ترنمول کی جانب سے چلائی جانے والی الیکشن مہم میں اس بات کو زور وشور سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کرشنا چندر رائے وہ خاندان ہے جس نے پلاسی کی جنگ میں سراج الدولہ کے ساتھ غداری کی تھی جس کی وجہ سے نہ صرف سراج الدولہ کو شکست ہوئی اور ان کی موت ہوئی بلکہ انگریزوں کے ذریعہ ہندوستان کی غلامی کا آغاز بھی ہوا۔ اس بیان بازی کا سلسلہ اس وقت تیز ہوا جب وزیر اعظم مودی نے امریتا رائے کے ساتھ فون پر بات چیت کی ۔دورانِ گفتگو امریتا رائے نے وزیر اعظم سے شکایت کی کہ مخالف پارٹی کے لیڈر ہمارے خاندان کی مذمت کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے برطانویوں کے ساتھ دوستی کی، وہ ہمارے خاندان کو غدار کہہ رہے ہیں۔ وہ یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ راجہ کرشن چندر نے کتنی زمین دی کتنے کام کیے۔ جواب میں میں نے کہا ہے کہ اگر راجہ کرشنا چندر نے ایسا نہ کیا ہوتا تو ہمارا سناتن دھرم ختم ہو جاتا۔ کیا یہ صحیح نہیں ہے؟‘‘جواب میں وزیر اعظم مودی نے کہا کہ بچپن میں ہمیں بزرگوں کی سماجی اصلاحات اور ترقیاتی امور کے بارے میں پڑھایا جاتا تھا اور اس وقت بنگال کے ترقیاتی کاموں کے بارے میں جن شخصیات کا ذکر پیش پیش تھا ان میں راجہ کرشنا چندر رائے کا نام بھی شامل ہے، لیکن وہ لوگ جو ووٹ بینک کی سیاست میں مشغول ہیں، بے بنیاد الزام لگانے اور دو تین سو سال پہلے کے واقعات کو بتا کر امیج خراب کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ اپنی ناکامیوں کو چھپا سکیں۔ اس لیے ان باتوں کو نظر انداز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات چیت کی آڈیو ریکارڈنگ بھی جاری کی گئی ہے۔ امریتا رائے نے اس بات کا تو اعتراف کیا کہ راجہ کرشنا چندر رائے نے انگریزوں کا ساتھ ضرور دیا تھا لیکن انہوں نے کہا کہ یہ غداری بھلائی کے لیے کی گئی تھی کیونکہ اس وقت ہندو دھرم خطرے میں تھا۔ نواب سراج الدولہ کے ظلم و ستم سے ہندو پریشان تھے، ایسے میں ہندوؤں کو تحفظ دینے کے لیے کرشنا چندر رائے نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ جبکہ مشہور تاریخ داں صنوبر احمد نے کہا کہ امریتا رائے کا یہ دعویٰ کہ اگر کرشنا چندر رائے نے برطانویوں کے ساتھ سراج کو شکست دینے کے لیے سازش نہ کی ہوتی تو بنگال کے ہندوؤں کو اسلام قبول کرنا پڑتا، اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے، کیونکہ ان باتوں کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1871، 1891، اور 1901 کی تاریخی اعداد و شمار، رپورٹس، رابندر ناتھ ٹیگور، چندر ناتھ باسو اور یو این مکھرجی جیسے معروف افراد کی تحریرات میں واضح طور پر ثبوت ملا ہے کہ بنگال میں قبولِ اسلام کا اہم ترین سبب ہندو دھرم کے کمزور برادری کے لوگوں پر اعلیٰ ذات کے لوگوں کا ظلم اور بنگال کی کمزور معاشی حالات تھے۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے 1757 میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت کھونے کے بعد بھی اسلام قبول کرنے کا عمل بڑے پیمانے پر جاری رہا، اس وقت مسلمانوں کے پاس نہ تو تلوار کی طاقت تھی اور نہ کسی کو اسلام قبول کرنےوالوں کو مالی بدلہ دینے کی صلاحیت تھی، جبکہ ہندو زمین داروں کی ایک بڑی تعداد اس وقت مضبوط تھی جو برطانوی تجارتی تعلقات کی وجہ سے نئی ایلیٹ کلاس بنی ہوئی تھی۔ پروفیسر نبیلہ یاسمین نے کہا کہ امریتا رائے کا یہ دعویٰ کہ اگر کرشنا چندر رائے برطانویوں کے ساتھ نہ ہوتے تو بنگالی ایک مختلف زبان بولتے، بالکل غلط ہے۔ ’مین اسٹریم‘ میں شائع ایک مضمون میں، اتل کرشنا بسواس، جو ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ہیں اور باباصاحب بھیم راؤ امبیڈکر بہار یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے لکھا کہ کرشنا چندر رائے ’بھارت میں برطانوی سلطنت کی بنیاد رکھنے والوں کے رہنما تھے‘ اور کلائیو نے انہیں انعام کے طور پر ’پلاسی کی لڑائی میں استعمال ہونے والے بارہ ہتھیاروں کا تحفہ دیا تھا۔‘ انہوں نے مزید لکھا کہ کرشنا چندر ایک متنازعہ کردار کی شخصیت تھے۔ 1805ء میں کلکتہ سے شائع ہوئے انگریزی اخبارات میں پلاسی کی لڑائی کے حوالے سے ان کے کردار کی تعریف کی گئی مگر 19ویں صدی میں جب بھارتی قومیت اپنی ابتدائی حالت میں تھی تو کرشنا چندر دھیرے دھیرے ایک غدار و بدمعاش کے طور پر نظر آنے لگے۔ نبین چندر سین کی تاریخی نظم "پولاشیر جودھو” (پلاسی کی جنگ) (1876) میں شاعر نے کرشنا چندر اور ان کے تمام ساتھیوں کی مذمت کی ہے اور سراج الدولہ کے لیے آنسو بہائے ہیں۔ اس نظم کی ایک لائن کہتی ہے، "ڈھک کرشنا چندر، ڈھک امی چند!” (تم پر لعنت ہو، کرشنا چندر اور امی چند!) نظم کے آخر میں غیر مسلم شاعر سراج الدولہ کے حوالے سے لکھتا ہے کہ (اپنے گھر کا چراغ بجھ گیا بھارت کی آخری امید ختم ہوگئی) اس نظم کے بارے میں ناول نگار بنکم چندر چٹرجی جو ’وندے ماترم‘ کے مصنف، ہیں انہوں نے لکھا کہ ’ایک بنگالی جو دوسرے بنگالی کے دل کی آہ برداشت نہیں کرتا، اس کی زندگی فضول ہے‘ بنکم چندر چٹرجی نے یہ بھی لکھا کہ موہن لال، سراج کے ہندو فوجی تھے جو تقریباً کلائیو کی فوج کو شکست دے چکے تھے مگر دوسرے سازشی، میر جعفر، کرشنا چندر رائے نے سراج الدولہ کو شکست دینے کے لیے گم راہ کیا۔ اگر موہن لال سراج الدولہ ریاست کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہوتے تو بھارت کی تاریخ مختلف ہوتی۔ بنکم چندر چٹرجی کے ساتھی ناٹک نگار گریش چندر گھوش کے مطابق، سین نے ’مسکین سراج الدولہ‘ کے لیے پہلی بار آنسو بہائے اور برطانوی حکم رانوں کے غضب کا سامنا کیا۔
بہر حال کرشنا نگر لوک سبھا حلقے میں الیکشن مہم کے دوران ممتا بنرجی نے راجہ کرشنا چندر رائے کی غداری کا حوالہ دیتے ہوئے بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ایسے لوگوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔ بہر حال تاریخ کی اس حقیقت کو عوام کس طرح سمجھے گی یہ دیکھنا اہم ہے۔ اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ غداری کی اس کہانی نے ہندوستان کی غلامی کا دروازہ کھول دیا تھا جس سے نجات حاصل کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں نچھاور کیں جن کی بدولت آج ہم آزاد ہندوستان میں سانس لے پا رہے ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024