’’خاموشی تشدد کو مزید بڑھاوا دے گی‘‘: 93 سابق بیوروکریٹس نے وزیر اعظم سے عیسائیوں کے خلاف حملوں کی مذمت کرنے کی اپیل کی

نئی دہلی، مارچ 4: 93 سابق سرکاری ملازمین کے ایک گروپ نے ہفتے کے روز وزیر اعظم نریندر مودی پر زور دیا کہ وہ بھارت میں عیسائیوں کے خلاف نفرت اور تشدد کے بڑھتے واقعات کے خلاف بات کریں۔

سابق بیوروکریٹس نے الزام لگایا کہ عیسائیوں کو اپنے ہی ملک میں کچھ انتہا پسندوں کی طرف سے اجنبی محسوس کرایا جا رہا ہے۔

بیوروکریٹس نے لکھا ’’عیسائی ہندوستان کی آبادی کا 2.3 فیصد ہیں، اور یہ فیصد 1951 کی مردم شماری کے بعد سے کم و بیش ایک جیسا ہی رہا ہے۔ اس کے باوجود، کچھ لوگوں کے خیال میں یہ معمولی تعداد ہندوؤں کی 80 فیصد آبادی کے لیے خطرہ ہے۔‘‘

واضح رہے کہ گذشتہ چند سالوں میں ہندوتوا گروپس کی جانب سے جبری تبدیلی مذہب میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر گرجا گھروں اور عیسائیوں کے عبادت گاہوں پر حملہ کرنے کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔

2 مارچ کو ایک ہجوم نے دہلی کے عالمی کتاب میلے میں بھی ایک کتاب کے اسٹال پر توڑ پھوڑ کی کیوں کہ مبینہ طور پر وہاں بائبل کی کاپیوں کی تقسیم مفت میں کی جارہی تھی۔ وہ اسٹال ایک عیسائی غیر منافع بخش تنظیم Gideon International کے ذریعے چلایا جا رہا تھا۔

28 فروری کو ایک پادری اور اس کی بیوی کو غازی آباد میں ہندوتوا گروپ بجرنگ دل کے ارکان کی طرف سے مبینہ طور پر درج کردہ شکایت پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پادری اور اس کی بیوی لالچ دے کر رہائشیوں کو عیسائی بنا رہے تھے۔

اس سے پہلے 13 فروری اور 2 جنوری کو بالترتیب مدھیہ پردیش کے نرمدا پورم اور چھتیس گڑھ کے نارائن پور میں بھی گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔

2021 میں جاری ہونے والی ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق اس سال جنوری اور ستمبر کے درمیان ہندوستان بھر میں عیسائی برادری کے ارکان پر 305 حملے ہوئے۔

اسی سال 20 فروری کو عیسائی برادری کے ارکان نے چرچوں پر حملے کے خلاف دہلی کے جنتر منتر پر احتجاج بھی کیا تھا۔ تقریباً 100 گرجا گھروں اور مسیحی تنظیموں کے ارکان اس احتجاج کا حصہ تھے۔

مودی کو لکھے گئے اپنے خط میں سابق سرکاری ملازمین نے کہا ہے کہ عیسائیوں پر زبردستی تبدیلی مذہب کا الزام لگایا جا رہا ہے اور زبانی، جسمانی اور نفسیاتی حملے کیے جارہے ہیں۔

انھوں نے لکھا ’’یہ افسوسناک لیکن ناگزیر حقیقت ہے کہ ہمارے درمیان ایسے عناصر ہیں جو محسوس کر تے ہیں کہ دوسروں کی تذلیل انھیں بڑا بناتی ہے۔ اگر اتنے بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہو رہی ہیں، تو اتنی دہائیوں میں عیسائیوں کا فیصد ایک سا کیوں ہے؟‘‘

اس خط پر سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، سابق چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ، انڈین ایڈمنسٹریٹو سروسز کے سابق افسران ہرش مندر، جولیو ریبیرو اور نجیب جنگ سمیت متعدد ریٹائرڈ سرکاری ملازمین نے دستخط کیے ہیں۔

دستخط کنندگان نے یہ بھی نوٹ کیا کہ عیسائی متعدد شعبوں بالخصوص تعلیم، صحت اور سماجی اصلاحات میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔

انھوں نے لکھا ’’وبائی بیماری کے دوران ایک ہزار سے زیادہ عیسائیوں کے زیر انتظام اسپتالوں نے مریضوں کے علاج کے لیے آسانی سے پیش کش کی۔ ایک بھی عیسائی ادارہ نہیں، جس کے تعلیمی یا صحت سے متعلق اس کے فوائد کو صرف عیسائیوں تک ہی محدود رکھا جائے۔‘‘

انھوں نے مزید لکھا ’’بی جے پی، مرکزی حکومت اور ہر ریاستی حکومت کے سرکردہ رہنماؤں کی صرف ایک بات سے تمام تشدد کو فوری طور پر روکا جا سکتا ہے۔‘‘