ڈاکٹر ساجد عباسی
اللہ تعالیٰ کا امتِ مسلمہ پر نعمت کا اتمام یہ ہے کہ دینِ اسلام کو اس کے لیے پسند فرمایا اور اس دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ اللہ تعالیٰ نے مزید یہ احسان فرمایا کہ اس امت کے افراد کی خطاؤں کی معافی کے بیش بہا مواقع فراہم کیے۔ ہر سال اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان میں صیام وقیام کے ذریعے پچھلے تمام گناہوں سے مغفرت کے مواقع عطا فرمائے۔اپنی شانِ کریمی سے اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر احسان کی یہ انتہا فرمائی کہ ہر رمضان کے آخری عشرہ میں ایسی مبارک رات رکھی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے: إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ۔ ہم نے اِس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے (سورۃ القدر۳) قرآن کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ جس رات اس کا نزول ہوا وہ رات ہزار مہینوں سے بہتر قرار پائی۔ اس کو لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ (برکت والی رات) بھی فرمایا گیا : إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے (سورۃ الدخان ۳) شبِ قدر کے ایک معنی ہیں قدرو منزلت والی رات، اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس میں تقدیر کے فیصلے صادر کیے جاتے ہیں۔ رمضان کے دوران نیکیاں ۷۰۰ گنا بڑھادی جاتی ہیں لیکن شب قدر میں نیکیاں ۳۰ ہزار گنا بڑھا دی جاتی ہیں۔ رمضان سے قبل جن کے گناہ نیکیوں کے مقابلے میں زیادہ تھے رمضان کے اندر صیام و قیام کی بدولت نیکیاں بڑھنے لگتی ہیں اور گناہ معاف ہونے لگتے ہیں۔ جس کو شبِ قدر مل جائے اس کی نیکیاں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ اگر وہ رمضان سے پہلے جہنم کا مستحق تھا تو رمضان اور شبِ قدر کی بدولت وہ جنت کا مستحق بن جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام گناہوں کو بخشنا چاہتا ہے: قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَهِ إِنَّ اللَهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ۔ (اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاو، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفورٌ رحیم ہے۔ (سورۃ الزمر۵۳) لیکن شرط یہ ہے کہ بندہ کے اندر مغفرت پانے کی طلب ہو، اپنے گناہوں پر ندامت و شرم ساری ہو اور آئندہ اللہ کی ناراضی سے بچنے کی سچی تمنا ہو۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے پے درپے ہر سال ایسے مواقع عنایت فرمائے ہیں کہ لوگ ان کو استعمال کرکے اپنی بخشش کا پروانہ ہر سال اپنی زندگی میں حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسے مواقع کا فراہم ہونا یہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا عین مظہر ہے۔ ایک بندہ صدقِ دل سے توبہ کرے،شرم ساری و ندامت کے جذبات سے اللہ کے دامنِ رحمت و مغفرت میں پناہ لے لے تو اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہ بخشنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جس نے ایمان و احتساب (ثواب کی نیت) کے ساتھ شبِ قدر میں قیام کیا تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ ۔اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟
موت کے آثار نمو دار ہونے سے قبل اللہ تعالیٰ ہر گنہ گار بندے کا اپنی لا محدود رحمت کے ساتھ استقبال کرتا ہے۔لیکن جب موت کے فرشتے حاضر ہو جائیں تو توبہ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد انسان کے استحقاق کے مطابق عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا (سورۃ آل عمران ۱۸۲)
اسی لیے حدیث شریف فرمایا گیا کہ بہت ہی بد نصیب شخص ہی شبِ قدر کے خیر سے محروم رہتا ہے۔ وہ بندے جو اللہ تعالیٰ کے اس بیش بہا انعام سے غافل ہوں وہ واقعی بد نصیب لوگ ہیں ۔
شبِ قدر کو رمضان کی آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرنے پر ابھارا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی ایک رات کو متعین کیوں نہیں کیا گیا؟ اس کی حکمت یہ ہے کہ بندہ ایک رات کی تلاش میں ایک عشرہ عبادت کر کے بہت زیادہ اجر کو حاصل کرلیتا ہے ورنہ وہ ایک رات کی عبادت پر اکتفا کرلیتا۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں روزوں کے آغاز کے لیے چاند دیکھنے میں اختلاف ہو سکتا ہے اور اس میں غلطی کا بھی امکان موجود ہے۔چاس غلطی کی وجہ سے اتنی بیش بہا قیمتی رات چھوٹ سکتی ہے۔ اس لیے عقلچمندی یہ ہے کہ آخری عشرہ کی ساری راتوں میں اس کو تلاش کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت پسند ہے کہ بندہ اللہ کی خوش نودی کے لیے ایک رات کی تلاش میں سرگرداں ہوکر ۹ یا ۱۰ راتوں میں قیام، تلاوت، ذکر و استغفار اور دعا کا اہتمام کرے۔اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کو اس کی سعی وجستجو کے حساب سے اجر عطا فرماتا ہے۔ شبِ قدر کی ایک خاص دعا ہے جو بہت
مختصر اور جامع ہے وہ یہ ہے: اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي ۔ حضرت عائشہؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا: ”پڑھو «اللهم إنك عفو كريم تحب العفو فاعف عني» ”اے اللہ! تو عفو و درگزر کرنے والا مہربان ہے، اور عفو و درگزر کرنے کو تو پسند کرتا ہے، اس لیے تو ہمیں معاف و درگزر کر دے“۔ شبِ قدر میں اللہ تعالیٰ نے ایسا نسخہ عطا فرمایا ہے کہ اس رات میں توبہ و استغفار سے پہاڑ جیسے گناہ بھی معاف ہوسکتے ہیں اور معمولی نیکیاں غیر معمولی نیکیاں بن کر ایک بندہ کو جہنم سے نجات دلاکر جنت کا مستحق بنا دیتی ہیں۔ شرط یہ ہے بندے اللہ کی طرف توبتہ النصوح (سچی توبہ) کے ساتھ پلٹ آئیں ۔نیت میں یہ کھوٹ نہ ہو کہ رمضان کے بعد پھر سے گناہوں کا آغاز کیا جائے۔ اگر ایسی نیت ہو تو کیا گیارنٹی ہے کہ اگلا رمضان اس کو یقیناً ملے گا۔ اس لیے ہر رمضان کو آخری رمضان سمجھ کر اس کے لمحات سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے، بالخصوص شب قدر کی گھڑیوں سے۔ماہِ رمضان میں روزوں کی فرضیت کا ایک مقصدیہ ہے کہ اس سے تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔ دوسرا مقصدیہ ہےکہ قرآن جیسی نعمت عظمیٰ پر اللہ کا شکر ادا ہو۔ تیسرا مقصد یہ ہے کہ صیام کے ساتھ قیام اور نیک اعمال کی بدولت اس ماہ میں امتِ مسلمہ کے افراد کی مغفرت ہو اور رمضان کے اختتام پر جہنم سے بچنے کا پروانہ حاصل ہو۔
اعتکاف :
اعتکاف کے معنی ٹھیر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔اس کے اصطلاحی معنی ہیں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹھیرنا۔قرآن میں اس کی اسپرٹ کو اس طرح پیش کیا گیا ہے: وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا ۔ اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔(سورۃالمزمل۸) انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے دنیاوی امور سے بے نیاز نہیں ہو سکتا لیکن مطلوب یہ ہے کہ سال میں کم ازکم دس دن دنیا سے کٹ کر اللہ سے تعلق پیدا کرنے کے لیے اپنے آپ کو اللہ کے لیے وقف کردے۔ ان دس دنوں میں دنیوی امور کو چھوڑ کر بندہ خالص اللہ کی خوش نودی کے لیے نوافل،تہجد، ذکرو استغفار، خود احتسابی، تفکر و تدبر اور تلاوت قرآن کے لیے اوقات کو خاص کرلے۔ اعتکاف کی عبادت سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے یعنی تمام محلہ والوں میں سے کوئی بھی اس سنت کو ادا نہ کرے تو سب اس سنت کے چھوڑنے پر گناہ گار ہوں گے۔طسنت اعتکاف کا وقت رمضان المبارک کی بیسویں تاریخ کو سورج غروب ہوتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے غروب آفتاب سے قبل ہی نیت کرکے مسجد پہنچ جانا چاہیے۔
عید الفطر:
اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں: ایک ہے عیدالفطر اور دوسری ہے عیدلاضحیٰ۔ عید الفطر ہر سال پہلی شوال کو رمضان کے روزوں کے اختتام پر منائی جاتی ہے۔ عید کے معنی ہیں خوشی، جشن اور فرحت کے۔ عید کے ایک اور معنی ہیں بار بار لوٹ کر آنے والی۔ عید سالانہ جشن کا دن ہے۔عیدیں قومی شعار ہوتی ہیں تاکہ آئندہ نسلوں میں قومی ورثے و وقار کے نشانات کو باقی رکھا جا سکے۔عیدالفطر کی اسپرٹ کو قرآن میں اس طرح پیش کیا گیا ہے: قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ۔ اے نبیؐ، کہو کہ “یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں” (سورۃ یونس ۵۸) اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ قرآن کا نزول ساری انسانیت کے لیے ایسا انعام ہے کہ اس کی تعلیمات انسانیت کی دنیاوی و اخروی فلاح کی ضامن ہیں۔دنیا کی ہر نعمت زوال پذیر ہے لیکن قرآن وہ نعمت ہے جو لازوال نعمتوں کی طرف رہنمائی کرنے والی ہے۔ اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے۔ چنانچہ اسی نعمت عظمیٰ کے ملنے پر رمضان کے روزوں کے اختتام پر عید الفطر منائی جاتی ہے۔ امتِ مسلمہ کے بچے بچے کے ذہن میں یہ بات راسخ کر دی جائے کہ عیدالفطر دراصل قرآن ِحکیم کے نزول کا سالانہ جشن ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کا امتِ مسلمہ پر احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خالص کلام اس کرۂ ارض پر اصلی حالت میں قرآن کی صورت میں صرف اس امت کے پاس موجود ہے۔ جب بھی امت راہ راست سے بھٹکتی ہے تو قرآن ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے۔ جبکہ دنیا میں دوسری اقوام ہر دور میں ایک تاریکی سے دوسری تاریکی کا شکار ہو کر مکمل تاریکیوں میں ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔ ان کے پاس تاریکیوں سے نکلنے کا کوئی نسخہ نہیں ہے۔ الحمدللہ قرآن ساری انسانیت کو تاریکیوں سے نکال نور کی طرف لانے کا واحد نسخہ ہے۔
نمازِ عیدالفطر اشراق کے وقت کے بعد عید گاہ یا مساجد میں ادا ک جاتی ہے جو بغیر اذاں و اقامت کے ہوتی ہے۔جمعہ کی نماز سے قبل خطبہ ہوتا ہے جبکہ عیدین کی نماز کے بعد خطبہ ہوتا ہے۔ عیدین کی نماز زائد تکبیروں کے ساتھ ادا کی جاتی ہے تاکہ اس نماز میں اللہ کی کبریائی کی امتیازی شان نمایاں ہو۔ زاید تکبیروں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے لیے اظہارِ تشکر ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔۔ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔ (سورۃ البقرۃ ۱۸۵) یعنی قرآن کو ھدی للناس بناکر بھیجنے پر ہم روزے رکھ کر اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے شکر ادا کرتے ہیں۔ چناں چہ عیدین کے دن تکبیرات سے گلیاں اور بازار گونجتے ہیں۔مسلمان اپنی عیدیں بہت شائستگی اور متانت کے ساتھ مناتے ہیں جس میں اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہے اور صرف اللہ کی بڑائی بیان کی جاتی ہے۔عید میں تکبیرات کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم خوشی میں بھی اللہ کو نہ بھولیں اور ہمارے ہر کام میں اللہ جل شانہ کی مرضی مقدم ہو۔عالم تکوینی میں جیسے اللہ کی کبریائی قائم ہے ہم عالم اختیاری میں بھی اللہ کی مرضی کو مقدم رکھیں۔
عید الفطر کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے۔ دورِ نبوت میں عورتیں اور لڑکیا ں بھی نمازِ عید ادا کرنے کے لیے عید گاہ جاتی تھیں یہاں تک کہ حائضہ خواتین و لڑکیا ں بھی ساتھ ہوتی تھیں۔ عید کے دن ایک راستہ سے عید گاہ پہنچتے اور واپسی میں دوسرے راستے کو اختیار کرتے تاکہ مسلمانوں کی عزت و شوکت کا اظہار ہو۔ عید کے دن جائز تفریح کے پروگراموں سے منع نہیں کیا گیا ہے۔
صدقۂ فطر:
صدقۂ فطر کی حکمت یہ ہے کہ عید کی خوشیوں میں یتیموں،فقرأ و مساکین کو شامل کرلیا جائے۔اس لیے صدقۂ فطر کے اصطلاحی معنی ہیں نمازِ عید سے قبل ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو کو گھر کے ہر فرد کی طرف سے صدقہ دینا ہے۔ اسلام میں اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے کا طریقہ یہ رکھا گیا ہے کہ اللہ کے ان بندوں پر مال خرچ کیا جائے جو اپنی ضروریات پوری کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔زکوٰۃ اور صدقات میں یہی اسپرٹ ہوتی ہے۔عیدالفطر میں صدقۂ فطر کے ذریعے اور عید الاضحیٰ میں قربانی کے گوشت کی فقرأ میں تقسیم سے اسلامی عیدوں کو یہ امتیاز حاصل ہوتا ہے کہ اسلام کی عیدوں میں حاجت مندوں کو فراموش نہیں جاتا۔ جبکہ دوسری اقوام کی عیدوں میں کوئی اعلیٰ مقصد نہیں ملتا بلکہ ان کی عیدوں میں خود غرضی، فحاشی، شراب نوشی، اسراف اور مضر رساں افعال نظر آتے ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اپریل تا 13 اپریل 2024