’صحت اسکیم‘ کی طبیعت نا ساز

طلبہ کی صحت کی دیکھ بھال کے دعوے محض ایک خواب

افروز عالم ساحل

اقلیتوں کی صحت کا خیال رکھنے کے لیے یو پی اے حکومت جس ’مولانا آزاد میڈیکل ایڈ اسکیم‘ یعنی ’صحت اسکیم‘ کا آغاز کیا تھا مودی حکومت میں اب اس کا حشر سامنے آ چکا ہے۔ اس حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی اس اسکیم کو بند کر دیا۔

حکومت ہند کی وزارت اقلیتی امور سے حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) کے دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے مالی مدد کے لیے شروع کی گئی ’مولانا آزاد میڈیکل ایڈ اسکیم‘ یعنی ’صحت اسکیم‘ اپنی ابتدا میں اقلیتی وزارت کے کاغذوں میں ضرور چمکتی رہی مگر اب اس اسکیم کا نام و نشان تک نہیں ملتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس اسکیم کی مد میں دیا گیا پورا کا پورا فنڈ وزارت کی تجوری میں ہی پڑا رہ گیا ایک پائی بھی عوام تک نہیں پہنچ سکی۔

اقلیتی امور وزارت کے سابق وزیر کے رحمان خان نے پورے تام جھام کے ساتھ اپنی حکومت کے دور میں 4 مارچ 2014 کو ’مولانا آزاد صحت اسکیم‘ شروع کی تھی اور 100 کروڑ کے فنڈ کے الاٹمنٹ کا اعلان بھی کیا تھا لیکن راقم الحروف کے پاس اقلیتی وزارت سے حاصل شدہ اہم دستاویزات موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ جب مرکز میں حکومت بدلی تو پہلے اس اسکیم کا بجٹ کم کر دیا گیا اور دوسرے سال یہ اسکیم مکمل طور پر بند کردی گئی۔

آر ٹی آئی سے حاصل دستاویزات کے مطابق 2014-15 میں اس ’صحت اسکیم‘ کے لیے محض 2 کروڑ فنڈ کے الاٹمنٹ کا اعلان کیا گیا لیکن جب اسے ریلیز کرنے کی بات آئی تو صرف 1 لاکھ روپے ہی ریلیز کیے گئے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جاری شدہ ایک لاکھ کی رقم پورے سال سرکاری تجوری میں ہی پڑی رہ گئی۔

سال 2015-16میں صحت اسکیم کے لیے صرف ایک لاکھ روپے کا فنڈ مختص کیا گیا لیکن مرکز کی مودی حکومت اس رقم کا ایک پائی بھی خرچ نہیں کر پائی۔ اور اب اس نئے بجٹ میں اس اسکیم کو حکومت نے پوری طرح سے ختم کر دیا ہے۔ اس کے بعد اس اسکیم کے نام پر کسی بھی فنڈ کے الاٹمنٹ کا اعلان نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ یہ اسکیم وزارت اقلیتی امور کے تحت آنے والے ’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کی طرف سے چلائی جا رہی تھی۔ اس اسکیم کا اہم مقصد تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے مالی مدد کرنا تھا۔ اس کے تحت اقلیتی طلبہ کے ہیلتھ کارڈ بنائے جانے کی منصوبہ بندی تھی۔ ساتھ ہی نجی یا سرکاری اسپتال اور نرسنگ ہومز کے ذریعے سے سال میں دو بار ہیلتھ چیک اپ کیمپ بھی لگایا جانا تھا۔

اتنا ہی نہیں اس اسکیم کے تحت غریب اقلیتی طالب علموں میں کوئی کسی بڑی بیماری کا شکار ہو جائے تو ڈاکٹر ایسے طلباء کو بڑے سرکاری اسپتال بھیجنے کی سفارش کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی سنگین بیماریوں جیسے گردے، جگر، کینسر، دماغ، گھٹنوں یا اسپائنل سرجری یا پھر زندگی کو خطرے میں ڈالنے والی بیماریوں کے علاج کے لیے سرکاری یا حکومت سے منظور شدہ ہسپتالوں میں علاج کے لیے اقتصادی مدد دینے کی بھی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ساتھ ہی اس اسکیم کے تحت مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعہ مالی امداد یافتہ تعلیمی اداروں میں ایک ڈسپنسری یا صحت کی دیکھ بھال کا مرکز قائم کرنے کا بھی وعدہ تھا۔

اس اسکیم کے تحت ملک بھر کے 19 مشہور اسپتالوں کا سیلیکشن بھی کیا گیا تھا۔ اس سے متعلق لوک سبھا میں آسام یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے سربراہ مولانا بدرالدین اجمل نے سوال بھی پوچھا تھا جس کے جواب میں وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے بتایا تھا کہ اس اسکیم کو ’نئی منزل‘ اسکیم کے ساتھ ضم کردیا گیا ہے۔ لیکن غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ’نئی منزل‘ اسکیم میں ’صحت اسکیم‘ کا کوئی فائدہ بھی اقلیتی طلبا کو نہیں مل رہا ہے کیونکہ دونوں اسکیمیں مختلف نوعیتوں کی ہیں۔

***

آر ٹی آئی سے حاصل دستاویزات کے مطابق 2014-15 میں اس ’صحت اسکیم‘ کے لیے محض 2 کروڑ فنڈ کے الاٹمنٹ کا اعلان کیا گیا لیکن جب اسے ریلیز کرنے کی بات آئی تو صرف 1 لاکھ روپے ہی ریلیز کیے گئے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جاری شدہ ایک لاکھ کی رقم پورے سال سرکاری تجوری میں ہی پڑی رہ گئی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 6 جون تا 12 جون 2021