سیرت پر کتابیں اور ان کے مطالعہ کی اہمیت

سیرت رسولؐ کے ساتھ ساتھ خلفائے راشدین کی زندگیاں بھی زیر مطالعہ رہیں

محسن عثمانی ندوی

عربی زبان کے بعد سب سے بڑا دینی سرمایہ اردو میں ہے لہذا نئی نسل کو اس زبان سے واقف کروایا جائے
مولانا ابوالحسن علی ندوی کی مقبولیت کا راز سیرت سے دلچسپی میں پنہاں
یہ کائنات جو اللہ نے بنائی ہے بہت خوبصورت ہے لیکن اس کائنات میں اللہ کی جو حسین ترین تخلیق ہے وہ حضور اکرم (ﷺ) کی ذات مبارک ہے۔ ظاہری طور پر بھی اور صفات و عادات واخلاق کے اعتبار سے بھی۔ جب سے دنیا بنی ہے کوئی ذات اس قدر مجموعہ خوبی اور اتنی کامل اتنی مکمل اور شرافت و اخلاق کی اس قدر جامع اور مجمل پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ایک عیسائی مورخ نے عالم انسانیت کی سو عظیم شخصیتوں پر کتاب لکھی ہے اس نے سر فہرست نام حضرت محمد (ﷺ) کا لکھا ہے۔ مائیکل ہارٹ جو اس کتاب کا مصنف ہے وہ مذہب کے اعتبار سے عیسائی اور تعلیم و پیشہ کے اعتبار سے سائنٹسٹ ہے۔ اگر وہ جانب دار ہوتا تو عیسائی ہونے کے ناطے پہلا نام حضرت عیسیٰؑ کا رکھتا۔ اگر وہ اپنی تعلیم اور پیشہ کا لحاظ کرتا تو پہلا نام کسی سائنس داں کا رکھتا، مثال کے طور پر نیوٹن کا نام لکھ دیتا لیکن اس کے غیر جانب دارانہ مطالعہ نے اسے مجبور کیا کہ دنیا کی تمام شخصیتوں میں سب سے کامیاب انسان کی حیثیت سے حضرت محمد (ﷺ) کا نام پہلے نمبر پر رکھے۔
  دنیا مجبور ہے کہ اس ذات اقدس کو اپنا خراج عقیدت پیش کرے اور یہ خراج عقیدت باقاعدہ ہر ملک میں اور ہر زبان میں پیش کیا گیا، ہندوستان بھی ان خوش نصیب ملکوں میں ایک ہے جس میں نعتیں بھی بہت کہی گئی ہیں اور سیرت پر کتابیں بھی بہت لکھی گئی ہیں۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ جب تک دنیا رہے گی اور سورج طلوع ہوتا رہے گا  اس آفتاب نبوت کی ضو فشانی پر کتابیں لکھی جاتی رہیں گی اور لوگ اس کام کو اپنی سعادت سمجھتے رہیں گے۔ ہندوستان ان خوش نصیب ملکوں میں ہے جس میں سیرت پر بہترین کتابیں لکھی گئی ہیں، تمام کتابوں کا جائزہ تو مشکل ہے لیکن سیرت پر اگر بہت زیادہ معروف ومشہور کتابوں کا نام لینا ہو تو سرسید کی کتاب  ’’خطبات احمدیہ‘‘  کا ذکر بھی کرنا ہوگا جو سر ولیم میور کی کتاب ’’لائف آف محمد‘‘ کے جواب میں لکھی گئی تھی، یہ کتاب بڑی تحقیق اور کاوش کے بعد لکھی گئی تھی یہ بہت سنجیدہ اور مدلل کتاب ہے اور مدتوں تک اہل علم کے درمیان اس کا چرچا ہوتا رہا۔ قاضی سلیمان منصور پوری کی کتاب رحمۃ للعالمین ( تین جلدوں میں) ایک معرکۃ الآرا کتاب ہے یہ ان چنندہ کتابوں میں ایک ہے جو اردو زبان میں منظر عام پر آئی ہیں۔ اس کتاب کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ پھر اسی عہد میں ایک دوسرے سلیمان کا نام آتا ہے، علامہ سید سلیمان ندوی، انہوں نے سات جلدوں میں سیرت پر کتاب لکھی، پہلا حصہ علامہ شبلی کا تصنیف کردہ ہے، اس کے بعد علامہ شبلی کا انتقال ہوگیا۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنے استاد کے نا مکمل کام کو  بطریق احسن مکمل کیا، اس کتاب کا آخری حصہ بھی نامکمل رہ گیا جو مذہب اور سیاست کے باہمی رشتہ کے موضوع پر ہے، اس موضوع پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن سید صاحب نے اس موضوع جو کچھ لکھ دیا ہے اتنے توازن کے ساتھ اب تک کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے نہ اردو میں نہ عربی میں۔ سیرت کے موضوع پر پوری کتاب انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے
سیرت کے موضوع پر علامہ سید سلیمان ندوی کی دوسری کتاب ’’خطبات مدراس‘‘ ہے جو اپنے موضوع پر بے نظیر ہے اور سیرت پر مقبول ترین کتابوں کی فہرست میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ سیرت کے موضوع پر ایک اور اہم کتاب ’’اصح السیر‘‘ ہے جو مولانا عبد الرؤوف قادری داناپوری کی تصنیف ہے۔ سیرت کی کتابوں میں اس کتاب کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب ’’النبی الخاتم‘‘ بھی سیرت کے زرین سلسلہ کی اہم کتابوں میں ہے اور بڑے البیلے انداز میں لکھی گئی ہے۔ پھر ان کتابوں سے پہلے مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ’’نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب‘‘ آئی تھی۔ مولانا تھانوی قدیم انداز کے بزرگ اور بڑے عالم تھے جن سے عقیدت رکھنے والوں کا بڑا حلقہ ہے۔ سیرت پر اہم کتابوں میں میجر جنرل اکبر خان کی ’’حدیث دفاع‘‘ اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اس دور کے بعد سیرت کے مقدس موضوع پر جو کتابیں منظر عام پر آئیں ان میں مولانا ادریس کاندھلوی کی کتاب ’’سیرۃ المصطفیٰ‘‘ ہے۔ یہ کتاب تین جلدوں میں ہے اور اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔ سیرت پر اہم کتاب علامہ ابن قیم کی ’’زاد المعاد‘‘ ہے، اس کا اردو ترجمہ جناب رئیس احمد جعفری ندوی نے کیا ہے۔ اسی طرح  ڈاکٹر حمیداللہ کی کتاب ’’محمد رسول اللہ (ﷺ) حیات اور کارنامے‘‘ اہم کتاب ہے۔ ان کی کتاب سیرت کے موضوع پر ‘‘خطبات بہاول پور‘‘ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ اس دور میں کچھ اور اہم کتابیں سیرت کے موضوع پر لکھی گئی ہیں، ان کا مطالعہ بھی بہت مفید ہے جیسے جناب نعیم صدیقی کی ’’محسن انسانیت‘‘۔ یہ کتاب اس عہد کے مسلمانوں کے لیے لائق مطالعہ ہے۔ اچھی کتابوں کی مختصر فہرست بھی اگر بنائی جائے تب بھی اس کتاب کو اس میں شامل کرنا پڑے گا۔ مولانا محمد جعفر پھلواروی ندوی کی کتاب ’’پیغمبر انسانیت‘‘ بھی قابل مطالعہ ہے۔ یہ پاکستان کے ادارہ ثقافت اسلامیہ سے شائع ہوئی ہے۔
  ’’سیرت سرور عالم‘‘ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی کتاب دو جلدوں میں ہے۔ ماہر القادری کی ’’در یتیم‘‘ بہت اہم اور قابل مطالعہ کتاب ہے اور شگفتہ بیانی کا بہترین نمونہ ہے۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اردو میں ’’نبی رحمت‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ سیرت کا موضوع ہو اور مولانا علی میاں کا قلم اپنے جوہر نہ دکھائے کیوں کر ممکن ہو! انہوں نے جگہ جگہ عشق ومحبت کے پھول کھلائے ہیں۔ مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی کتاب ’’رہبر انسانیت‘‘ بھی اہم اور قابل مطالعہ کتابوں میں ایک ہے اور اس کتاب کا انگریزی اور ہندی ترجمہ بھی ہوگیا ہے جو سیرت پر اہم کتابوں کی فہرست میں داخل ہو گئی ہے اور غیر مسلموں کو دینے کے لیے مفید ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’پیغمبر عالم ﷺ‘‘ کو بھی اہم کتابوں میں شامل کرنا چاہیے۔ اگر اس کتاب کا ہندی اور انگریزی ترجمہ ہو جائے تو غیر مسلموں کو دینے کے لیے بہت مفید ہوگی۔ سیرت طیبہ پر تمام کتابوں کا ذکر ممکن ہے نہ مقصود۔ جو شخص سیرت پر کتابوں کامطالعہ کرنا چاہے اس کے لیے بے حد مختصر تعارف کے ساتھ کتابوں کا ذکر کر دیا گیا ہے۔ آخر میں ایک کتاب اور جس کا لوگ ذکر نہیں کرتے ہیں وہ ہے ’’مقالات سیرت‘‘ یہ مرحوم آصف قدوائی کی کتاب ہے اور مجلس تحقیقات ونشریات اسلام ندوۃ العلماء سے شائع ہوئی ہے، اس کتاب پر مولانا سعید احمد اکبرآبادی نے اپنے رسالہ برہان میں یہ تبصرہ کیا تھا کہ یہ کتاب زبان وبیان اور مواد و اثر آفرینی کے لحاظ سے خطبات مدراس سے کم نہیں۔ اس کتاب پر مولانا ابوالحسن علی ندوی کا مقدمہ ہے اور انہوں نے خاص انداز سے آصف قدوائی صاحب کا تعارف کرایا ہے۔ الرحیق المختوم سیرت پر کتاب عربی اور اردو دونوں زبانوں میں ہے۔ شیخ صفی الرحمن مبارک پوری اس کتاب کے مصنف ہیں۔ سب سے آخر میں ایک اہم کتاب اردو اور عربی میں حال میں آئی ہے کتاب کا نام  ’’محمد رسول اللہ رحمۃ للعالمین‘‘ ہے ۔ یہ کتاب تین جلدوں میں ہے جس کے مصنف ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم  مولانا تقی الدین ندوی ہیں۔
 اوپر کی سطروں میں زیادہ مقبول یا مشہور کتابوں کا میں نے تذکرہ کردیا ہے جن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ آخری عہد میں سیرت طیبہ پر اردو اور عربی میں سب سے زیادہ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے قلم اٹھایا تھا۔ ان کے سیرت پر خطبات بھی ہیں تالیفات بھی ہیں، کم لوگوں کو اندازہ ہے کہ ان کی پوری شخصیت سیرت نبوی (ﷺ) کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی اور اس کی خوشبو میں بسی ہوئی تھی۔ یہ عکس جمال یار تھا جس نے پوری دنیا میں ان کو محبوب اور منظور نظر بنا دیا تھا۔ یہی وہ آتش گل تھی جس سے ان کی طبیعت میں نرمی بھی تھی گرمی بھی تھی، سوز بھی تھا ساز بھی تھا، غیرت بھی تھی اور حمیت بھی تھی۔ اس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں جن کا موقع نہیں ہے۔ جب ایران کے علامہ خمینی نے سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ دیا تھا تب پورے بھارت میں تنہا مولانا علی میاں کی شخصیت تھی جس نے فوراً خمینی صاحب کی حمایت کا ببانگ دہل اعلان کیا تھا۔ اس وقت ہند کے تمام فقہائے کرام اصول فقہ کے دقیق اور طولانی مسائل کے پیچ و خم اور زیر وبم میں الجھے ہوئے تھے اور حیران و پریشان تھے اور لب بستہ تھے اور آخر تک لب بستہ رہے۔ مولانا علی میاں نے سیرت کا اتنی گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور اسے اس قدر اپنے اخلاق وکردار میں بسایا تھا کہ جو بھی ان سے ملتا اور قریب ہوتا ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ یہ کمال محبوبیت شاید ہی اس آخری دور میں کسی کو نصیب ہوئی ہو۔ یہ غلط فہمی ہے کہ عرب دنیا میں ان کی مقبولیت کا راز ان کی عربی تصنیفات ہیں اب تو عربی لکھنے والے بہت لوگ پیدا ہوگئے ہیں کوئی ان کا مقام حاصل کرکے بتا دے۔ یہ کرشمہ ان صفات کا ہے جو انہوں نے سیرت نبوی سے لے کر اپنے اندر جذب کیا تھا۔ علامہ یوسف القرضاوی اور کئی دوسری شخصیتوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے ۔
   حدیث میں ہے کہ رسول اکرمؐنے فرمایا کہ "تم میں سے اس وقت تک کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میری ذات تمہارے ماں باپ اور آل و اولاد سب سے عزیز ترنہ بن جائے”۔ انسان جتنی زیادہ سیرت کی کتابیں پڑھے گا اتنی ہی زیادہ وہ آپ کی محبت سے سرشار ہوگا۔ اس لیے سیرت نبوی کا مطالعہ عشق رسول سے سیرابی اور سرشاری کی کلید ہے اور اس سیرابی اور سرشاری کے بغیر شخصیت میں محبوبیت اور جاذبیت اور کشش پیدا نہیں کی جاسکتی ہے۔
سیرت کے موضوع پر وسیع مطالعہ کی اہمیت یہ بھی ہے کہ صحیح تصور دین اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ انسان سیرت نبوی کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ نہ کرے اور اسی کے ساتھ خلفاء راشدین کے عہد کو تحقیق اور مطالعہ کا موضوع نہ بنائے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپؐ یہ حکم اپنی امت کو نہ دیتے علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین عضوا علیہا بالنواجز۔ حضور نے اپنی سنت کے ساتھ خلفائے راشدین  کے طرز عمل کو اختیار کرنے کا اور مضبوطی کے ساتھ تھامنے حکم دیا ہے۔ اگر آپ کے ساتھ خلفاء راشدین کے طرز عمل کو اسوہ نہ بنایا گیا تو سوچ میں اور طرز عمل میں عدم توازن کا خطرہ ہے اور اس عدم توازن کی مثالیں ہر دور کی تاریخ میں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص عبادت اور تقویٰ وطہارت اور اوراد و وظائف کے اعتبار سے ممتاز ہو لیکن اس کے اندر نہ جذبہ جہاد ہو نہ شوق شہادت ہو نہ قیام خلافت کی کوشش ہو اور نہ امت مسلمہ کی اجتماعی آبرو مندانہ زندگی کے لیے کوئی فکر ہو تو ایسی شخصیت کا احترام تو کیا جائے گا لیکن اسے رول ماڈل نہیں بنایا جائے گا، کیونکہ دین اسلام صرف خاک کی آغوش میں تسبیح ومناجات کا نام نہیں ہے۔ اب تو ایسی کتابیں لکھی جا رہی ہیں جنہیں پڑھ کر لوگ جہاد کے نام سے لرزہ براندام ہو جائیں اور ایسی کتابوں کا نام ’’حقیقت جہاد‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے لیے یہ شعر کہا ہے:
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر
’’عصر حاضر اور نظریہ جہاد‘‘ کے نام سے ایک کتاب آئی ہے جسے نیو کرسنٹ پبلشنگ ہاوس دہلی نے شائع کیا ہے جس میں جہاد کے سلسلہ میں غلط فہمی پھیلانے والوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے اہل علم کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
 اس مضمون میں سیرت پر اچھی اور اہم کتابوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان کتابوں کی ساتھ خلفائے راشدین کے موضوع پر بھی کتابیں پڑھنی چاہئیں، جیسے صدیق اکبر  (مولانا سعید احمد اکبر آبادی) الفاروق (علامہ شبلی) عثمان ذوالنورین (مولانا اکبر آبادی) المرتضی (مولانا ابوالحسن علی ندوی) خلفائے راشدین (شاہ معین الدین ندوی، مطبوعہ دار المصنفین)   
  سیرت نبوی اور عصر خلفاء راشدین کی شخصیات کے تفصیلی مطالعہ سے دین کا متوازن تصور پیدا ہوتا ہے اگر یہ تصور مفقود ہے تو ایک دن میں ایک قرآن ختم کرنے اور رمضان میں ہر روز دو تین قرآن ختم کرنے  والوں کو اور بے شمار نفلی حج اور عمرہ کرنے والوں کو لوگ مثالی مسلمان سمجھنے لگتے ہیں، کبھی باطل طاقتوں سے مزاحمت کا اور نبرد آزمائی کا ان بزرگوں کو خیال ہی نہیں آتا اور مسلمانوں کو باعزت مقام دلانے کی کوششوں میں وہ شامل نہیں ہوتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ سب دنیا داری کے کام ہیں جن سے آخرت میں بھلا ہونے والا نہیں۔ یاد رکھیے کہ اچھا مسلمان اور متوازن سوچ رکھنے والا انسان وہی ہو گا جس نے سیرت نبوی اور خلفائے راشدین کے چراغوں سے اپنی زندگی کا چراغ جلایا ہوگا جس نے پیغمبر کے اسوہ کو اپنا اسوہ بنایا ہوگا۔ اسی لیے سیرت کی کتابوں کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیجیے اور مشام جاں کو معطر اور زندگی کی گزرگاہ کو منور بنائیے۔
 ہمارے معاشرے کا جو خوشحال اور دولت سے مالا مال طبقہ ہے، افسوس کہ وہ بھی اب کتابیں نہیں خریدتا اور نہ کتابوں کی دکانوں پر جاتا ہے، اس کی ساری توجہ گھر کی سجاوٹ پر مرکوز ہوتی ہے، اندر گھر کی خوبصورتی میں لعل و زمرد ہو اوپر قصر سلطانی کا کوئی گنبد ہو، عالی شان بنگلہ ہو، سجاوٹ کے لیے ہر طرف پھولوں کےگملے ہوں، ایک موٹر ہو، ایک شوفر ہو، مکان کے چاروں طرف گلزار ہو، چمن ہو بہار ہو، ڈرائنگ روم نادر و نایاب اور بیش قیمت چیزوں کا میوزیم ہو اور فرنیچر بقول اقبال ’’ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی‘‘ کا مصداق ہو۔الغرض زندگی کی ساری توجہ خوش حالی اور خوش جمالی پر لگی ہوئی ہو اور معیار زندگی ہر روز بلند ہوتا رہے چاہے معیار بندگی پست سے پست تر ہوتا رہے۔ گھر سے کتاب غائب ہو جو علم کی اور عقل کی اور تہذیب کی پہچان ہے۔ جب یہ صورت حال ہو تو سیرت پر، اسلامیات پر اور تاریخ پر کتابیں کیسے پڑھی جائیں گی اور نئی نسل اپنے دین سے اور اسلاف کے کارناموں سے کیسے واقف ہوگی؟
یہ اتفاق کی بات ہے کہ سیرت پر بہترین کتابیں اردو زبان میں لکھی گئی ہیں بلکہ اسلامیات کے موضوعات پر اردو زبان میں جو لٹریچر تیار ہوا ہے عربی زبان کے سوا دنیا کی کسی دوسری زبان کا لٹریچر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے نہ معیارکے اعتبار سے نہ مقدار کے اعتبار سے۔ افسوس کہ ہماری نئی نسل اردو سے نابلد ہوتی جا رہی ہے، والدین اور سرپرستوں کو بھی اس کا غم ہے نہ فکر کہ ہمارا پورا تہذیبی سرمایہ معرض خطرہ میں ہے، کسی سونامی کسی طوفان کسی سیلاب اور زلزلہ سے اتنا بڑا نقصان کسی قوم کو نہیں پہنچ سکتا جتنا نئی نسل کے اردو سے نابلد ہونے سے پہنچ رہا ہے، اس خطرہ کا احساس نہ والدین کو ہے نہ اکابر کو نہ دینی جماعتوں کو نہ نشرو اشاعت کے اداروں کو اور نہ اردو کی انجمنوں کو۔ مسلمانوں کی تہذیب اور زبان کا سفینہ گرداب میں پھنس چکا ہے
 نہیں لیتے کروٹ  مگر اہل کشتی
 پڑے سوتے ہیں بے خبر اہل کشتی
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2023