نام ریحانہ۔ یہود کے خاندان بنو قریظہ سے تھیں۔سلسلہ نسب یہ ہے: ریحانہ بنت شمعون بن زید بن خنافہ۔ بعض روایتوں میں ان کا سلسلہ نسب اس طرح درج ہے:
ریحانہ بنت زید بن خنافہ بن شمعون بن زید۔ لیکن جمہور اہل سیر کے نزدیک پہلا سلسلہ نسب معتبر ہے، حضرت ریحانہؓ کے والد کا نام شمعون بن زید ہی ہے۔ ان کو صحابیت کے علاوہ سماع اور روایت کا شرف بھی حاصل ہے۔
حضرت ریحانہؓ کا نکاح بنو قریظہ کے ایک شخص حَکم سے ہوا۔ غزوہ بنو قریظہ کے بعد جن یہودیوں کو قتل کیا گیا حَکم بھی ان میں شامل تھا۔ حضرت ریحانہؓ یہودیوں کی ان عورتوں میں سے تھیں جنہیں اس موقع پر مسلمانوں نے گرفتار کیا۔
ابن سعدؒ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے ان کو حضرت الم المنذر بنت قیسؓ کے گھر میں ٹھہرایا۔ ان کے قبول اسلام کے بارے میں دو روایتیں ہیں۔ پہلی روایت یہ ہے کہ حضورؐ نے ان سے فرمایا کہ تم چاہو تو اسلام قبول کرلو اور چاہو تو اپنے مذہب (یہودیت) پر قائم رہو۔ انہوں نے اپنے مذہب کو ترجیح دی۔ اس پر حضور نے فرمایا اگر تم اسلام قبول کرلو تو میں تمہیں اپنے پاس رکھوں گا۔ لیکن وہ اپنی بات پر قائم رہیں۔ حضورؐ کو ان کے رویے سے رنج ہوا اور آپؐ نے حضرت ریحانہؓ کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ ایک دن آپؐ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کے درمیان رونق افروز تھے کہ اچانک کسی شخص کے قدموں کی چاپ سنائی دی،، حضورؐ کے روئے انور پر بشاشت پھیل گئی اور آپ نے صحابہؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ یہ ثعلبہ بن سعیہؓ ہیں جو ریحانہؓ کے اسلام کی خوش خبری لے کر آرہے ہیں۔ ابن ہشام نے لکھا کہ ثعلبہؓ نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر آہستہ سے حضورؐ کو حضرت ریحانہؓ کے قبول سلام کی خوش خبری سنائی۔ حضورؐ بہت خوش ہوئے اور صحابہؓ سے فرمایا کہ ثعلبہؓ ریحانہ کے اسلام کی خوش خبری لے کر آئے ہیں۔
دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت ریحانہؓ اسیر ہو کر آئیں تو حضورؐ نے ان سے فرمایا ’اگر تم اللہ اور رسول کو اختیار کرلو تو میں تمہیں اپنے لیے خاص کرلوں گا‘‘ انہوں نے عرض کیا میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیا کرتی ہوں۔
قبول اسلام کے بعد حضورؐنے انہیں اپنی ملک میں رکھا اور بعض روایتوں کے مطابق آپ نے انہیں آزاد کردیا اور پھر ان سے نکاح فرما کر ازواج مطہرات میں شامل کرلیا۔ بہر صورت وہ باپردہ رہتی تھیں اور ان کی بھی باری کا دن مقرر تھا۔ حضورؐ کو ان سے بڑی محبت تھی اور آپؐ ان کی ہر فرمائش پوری کرتے تھے۔ ان کی مستقل قیام گاہ دار قیس بن فہد میں تھی۔ حسن صورت کے ساتھ نہایت پاکیزہ اخلاق کی حامل تھیں۔
انہوں نے سرور عالم ﷺ کے وفات سے چند ماہ قبل اور ایک روایت کے مطابق دس ماہ قبل وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئی۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا
(طالب الہاشمی کی کتاب ’تذکار صحابیات‘ سے ماخوذ)
***
***
حضرت ریحانہؓ اسیر ہو کر آئیں تو حضورؐنے ان سے فرمایا ’اگر تم اللہ اور رسول کو اختیار کرلو تو میں تمہیں اپنے لیے خاص کرلوں گا‘‘ انہوں نے عرض کیا میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیا کرتی ہوں۔قبول اسلام کے بعد حضورؐنے انہیں اپنی ملک میں رکھا اور بعض روایتوں کے مطابق آپ نے انہیں آزاد کردیا اور پھر ان سے نکاح فرما کر ازواج مطہرات میں شامل کرلیا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 05 تا 11 دسمبر 2021