سیرت صحابیات سیریز(۳۹)

حضرت عاتکہ بنت زیدؓ

شعر و شاعری میں درک رکھنے والی صحابیہ
قریش کے خاندان عدی سے تھیں۔ سلسلہ نسب یہ ہے: عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن ریاح بن عبداللہ بن قرظ بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی۔
جلیل القدر صحابی حضرت سعید بن زیدؓ (یکے از اصحاب عشرہ مبشرہ) ان کے حقیقی بھائی تھے اور حضرت عمر بن خطابؓ چچا زاد بھائی۔ مشہور صحابیہ حضرت فاطمہؓ بنت خطاب ان کی چچا زاد بہن بھی تھیں اور بھاوج بھی۔حضرت عاتکہؓ کے والد زید ان لوگوں میں سے تھے، جو زمانہ جاہلیت میں ہی توحید کے قائل تھے اور جن کے بارے میں حضورؐنے فرمایا تھا کہ وہ قیامت کے دن تنہا ایک امت کی حیثیت سے اٹھیں گے۔ زید کو حضورؐ کی بعثت سے چند سال قبل کسی دشمن نے قتل کر ڈالا اور عاتکہ یتیم رہ گئی تھیں۔ سن شعور کو پہنچ کر انہوں نے قبول اسلام کی سعادت حاصل کی اور صحابیت کا شرف بھی حاصل کیا۔ ان کی شادی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے صاحب زادے حضرت عبداللہؓ سے ہوئی۔ نہایت حسین و جمیل اور عاقلہ و فاضلہ خاتون تھیں۔ حضرت عبداللہؓ کو ان سے بے حد محبت تھی ۔ وہ بھی شوہر پر جان چھڑکتی تھیں اور ہمیشہ ان کے آرام کو ترجیح دیتی تھیں۔ چوں کہ انہوں نے حضرت ؓ عبداللہؓ کو جہاد پر جانے کے لیے مجبور نہیں کیا تھا اس لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عبداللہؓ کو حکم دیا کہ وہ عاتکہ کو طلاق دے دیں۔ پہلے تو وہ کچھ عرصہ ٹالتے رہے لیکن جب والد والد ماجد کی طرف سے سخت اصرار ہوا تو انہوںنے حضرت عاتکہؓ کو ایک طلاق دے دی۔ لیکن بیوی کے فراق نے انہیں نڈھال کردیا اور انہوںنے یہ شعر کہے:
اے عاتکہ جب تک سورج چمکتا رہے گا
اور قمری بولتی رہے گی میں تجھے نہ بھولوں گا
اے عاتکہ میری دل شب و روز
بہ صد ہزار تمنا و شوق تجھ سے لگا ہوا ہے
مجھ جیسے آدمی نے اس جیسی خاتون کو کبھی طلاق نہ دی ہوگی
اور نہ ہی اس جیسی خاتون کو بغیر گناہ طلاق دی جاتی ہے
حضرت ابوبکر صدیق ؓ بڑے نرم دل تھے ۔ان کے کانوں تک یہ اشعار پہنچے تو انہوں نے حضرت عبداللہ ؓ کو رجعت کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد وہ ہر غزوے میں شریک ہونے لگے۔ طائف کے محاصرے میں ایک دن وہ دشمن کی طرف سے آنے والے ایک تیر سے سخت مجروح ہوگئے۔ اگرچہ یہ زخم اس وقت تو مندمل ہوگیا لیکن تیر کا زہر اندر ہی اندر کام کرتا رہا۔ سرور عالمﷺ کے وصال کے کچھ عرصہ بعد (شوال 11ھ میں) یہ زخم عود کر آیا۔ اور اسی کے صدمے سے حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ نے وفات پائی۔ حضرت عاتکہؓ کو ان کی وفات سے سخت صدمہ پہنچا، مرحوم خاوند کی طرح وہ بھی شعر و شاعری میں درک رکھتی تھیں، اس موقع پر انہوں نے ایک پردرد مرثیہ کہا جس کے کچھ اشعار یہ ہیں؎
قسم کھاکر کہتی ہوں کہ تیرے غم میں میری آنکھ
روئے گی اور میرا جسم غبار آلود رہے گا
زہے قسمت اس کی آنکھ کی، جس نے تجھ جیسا جنگ جو اور
اس پر تیر برستے تو ان کی بوچھاڑ میں گھستا ہوا ثابت قدم جوان دیکھا
وہ اس وقت تک مود کی طرف چلتا رہتا جب تک
کہ خون کی ندیاں نہ بہالیتا
زندگی پھر جب جنگلی کبوتر گنگنائے گا (روتی رہوں گی)
اور جب تک رات پر صبح آتی رہے
کچھ عرصے بعد حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت عاتکہؓ سے نکاح کرلیا۔ دعوت ولیمہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہ، بھی شریک تھے۔ انہوں نے حضرت عاتکہ ؓ کو اوپر والے مرثیے کا پہلا شعر یاد دلایا تووہ رونے لگیں۔ تاہم عمر فاروقؓ سے بھی ان کی وفاداری اور محبت مثالی رہی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے شہادت پائی تو اس موقع پر انہوں نے ایک دردناک مرثیہ کہا اس کے چند اشعار یہ ہیں؎
کون سمجھائے اس نفس کو جس کے غموں نے پھر اعادہ کیا ہے
اور اس آنکھ کو جس کی بیداری کی کثرت نے تکلیف دی
اور جسم کو جو کفن میں لپیٹا گیا ہے
اللہ تعالیٰ کی اس پر رحمت ہو
مقروض اور نادار عزیزوں کو
اس کا صدمہ ہے
حضرت عمرفاروقؓ کی شہادت کے بعد حضرت عاتکہؓ کا نکاح صحابی رسول ؐ ضرت زبیر بن العوامؓ سے ہوا۔ انہوں نے جنگ جمل کے موقع پر ابن جرموز کے ہاتھ سے شہادت پائی تو حضرت عاتکہؓ فرط غم سے نڈھال ہوگئیں اور بے اختیار ان کی زبان پر یہ مرثیہ جاری ہوگیا؎
ابن جرموز نے لڑائی کے دن ایک عالی ہمت شہسوار
اور غداری بھی ایسی حالت میں کہ
سے غداری کی
وہ نہتا اور بے سرو سامان تھا
اے عمرو اگر تو اس کو پہلے سے متنبہ کردیتا تو
اس کو ایسا شخص پاتا کہ نہ اس کے دل میں
خوف ہوتا اور نہ ہاتھ میں لرزاہ
کتنے مصائب ہیں کہ وہ ان میں گھس گیا
اے بندریا کے بیٹے، تو اس کو جھکا یا بچھاڑ نہ سکا
تیری ماں تجھ پر روئے تو ان لوگوں پر
جو گزرچکے ہیں اور جو زندہ ہیں اس طرح غالب نہیں ہوسکا
خدا کی قسم ، تو نے یک مسلمان کو نا حق قتل کیا
تجھ پر ضرور اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا
حضرت عاتکہؓ کا سال وفات اور مزید حالات دستیاب نہیں ہوئے۔
(طالب الہاشمی کی کتاب تدکار صحابیاتؓ سے ماخوذ)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022