اتر پردیش پولیس نے دو گھروں میں جمع ہو کر نماز پڑھنے کے الزام میں 25 افراد کے خلاف درج ایف آئی آر منسوخ کی

نئی دہلی، اگست 31: مرادآباد پولیس نے منگل کے روز کہا کہ انھوں نے ثبوت کی کمی کی وجہ سے ان 25 افراد کے خلاف درج مقدمہ منسوخ کر دیا ہے، جن پر اتر پردیش کے دلہے پور گاؤں میں گھر میں اجتماعی طور پر نماز ادا کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

25 افراد کے خلاف دو گھروں میں جمع ہو کر نماز پڑھنے پر عوامی فساد کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پولیس نے کہا تھا کہ نماز پڑھنے سے پہلے کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی۔

پولیس سپرنٹنڈنٹ سندیپ کمار مینا نے کہا کہ مسلمان مردوں کو کھلے عام نماز ادا کرنے سے خبردار کیا گیا ہے۔

واحد سیفی نے، جن کا نام پہلی اطلاعاتی رپورٹ میں تھا، بتایا کہ وہ اس زمین کے مالک ہیں جہاں نماز ادا کی گئی تھی۔ سیفی نے کہا ’’حال ہی میں کچھ شرپسند، جو بجرنگ دل کے کارکن ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں، اس پر اعتراض کر رہے ہیں اور اسے ایک نئی روایت قرار دے رہے ہیں۔ انھوں نے 3 جون کو پولیس اسٹیشن میں شکایت کی تھی۔‘‘

سیفی نے دیگر گاؤں والوں کے ساتھ 3 جون کو سب ڈویژنل مجسٹریٹ کے دفتر کا دورہ کیا اور زمین کے کاغذات دکھائے۔ انھوں نے کہا کہ وہاں سرکل آفیسر کانتھ سلونی اگروال بھی موجود تھے۔

سیفی نے پی ٹی آئی کو بتایا ’’تمام قانونی کاغذات ہمارے ذریعہ دکھائے گئے تھے لیکن انھوں نے ہمیں کھلے میں نماز نہ پڑھنے کی تنبیہ کی اور تب سے ہم ان احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔ لیکن ایس ایچ او کے تبادلے کے بعد 24 اگست کو چجلیت پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی۔‘‘

اس کے بعد آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے کہا کہ مقدمہ واپس لینے کا فیصلہ ’’منصفانہ اور بروقت‘‘ ہے۔

انھوں نے مزید کہا ’’امید ہے کہ اتر پردیش پولیس ہجوم کے دباؤ میں غیر قانونی ایف آئی آر درج کرنا بند کر دے گی۔ امید ہے کہ لوگ اب اپنے گھروں میں بغیر کسی پریشانی کے نماز پڑھ سکیں گے۔‘‘

نیشنل کانفرنس لیڈر عمر عبداللہ نے پولیس کی کارروائی پر صدمے کا اظہار کیا تھا۔

انھوں نے کہا تھا ’’مجھے یقین ہے کہ اگر پڑوسیوں میں سے کسی کے یہاں 26 دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ہون ہوتا تو وہ بالکل قابل قبول ہوتا۔ یہ ‘عوامی اجتماع’ نہیں ہے جو مسئلہ ہے، بلکہ مسئلہ نمازسے ہے۔‘‘