بنگال میں تعلیم کے شعبہ میں بدعنوانی

پرائمری سے دسویں جماعت تک اساتذہ کی بھرتی میں بے قاعدگیاں

نور اللہ جاوید

یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدہ پر وزیر اعلیٰ کی تقرری سوالات کے گھیرے میں
گزشتہ دس برسوں میں بنگال اور سی بی آئی کے درمیان رشتہ جتنا مضبوط ہوا ہے اتنا کسی بھی ریاست میں نہیں ہوا۔ بنگال میں مرکزی ایجنسیاں سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ایک درجن سے زائد معاملات کی جانچ کر رہی ہیں مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں کسی بھی معاملے کی جانچ نہ تو مکمل ہوئی ہے اور نہ کسی کو سزا ہوئی ہے۔سیاسی ضروریات کے تحت کبھی جانچ کی رفتار تیز ہو جاتی ہے اور پھر سست رفتاری کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود ریاست میں ہر ایک معاملے کی سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے پرائمری اسکول سے لے کر دسویں جماعت تک کے اساتذہ کی تقرری میں بدعنوانی کی جانچ سی بی آئی کے حوالے کی ہے مگر ان گھوٹالوں کی جانچ سی بی آئی کے حوالے کرنے والے جسٹس ابھیجیت گنگو پادھیائے بذات خود سی بی آئی سے مطمئن نہیں ہیں۔انہوں نے اپنی عدالت میں سی بی آئی جانچ کی رفتار پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نومبر سے سی بی آئی اس معاملے کی جانچ کر رہی ہے مگر کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ جسٹس گنگو پادھیائے کا اظہار بے بسی ملک میں جانچ ایجنسیوں کی کارکردگی کے آگے سوالیہ نشان ہے اور یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ جانچ ایجنسیاں آزادانہ کام کرنے سے قاصر ہیں۔ کلکتہ ہائی کورٹ کی ہدایت کے بعد سی بی آئی نے اسکول سروس کمیشن کے تحت گروپ ڈی (غیر تدریسی عملہ) اور گروپ سی (اسسٹنٹ ٹیچر) اور پرائمری اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری میں بدعنوانی کی جانچ کی کارروائی شروع کر دی ہے اور اس معاملے میں اس نے کئی ایف آئی آر درج کیے ہیں۔ صرف ایک ریاست میں اتنے سارے معاملات کی بیک وقت جانچ کرنا سی بی آئی کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
کلکتہ ہائی کورٹ کی سماعت اور بیگ کمیٹی کی سفارشات میں جو حقائق سامنے آ رہے ہیں وہ بنگال کے نظام تعلیم پر سوالیہ نشان ہے۔ اگرچہ عدالت نے پانچ سو سے زائد اساتذہ کی نوکریوں کو ختم کر دیا ہے اور انہیں تنخواہ کی رقم واپس کرنے کی ہدایت دی ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب اساتذہ رشوت اور بدعنوانی کے ذریعہ تقرری حاصل کریں گے تو وہ اپنے طلبا کو اخلاقیات کا کیا درس دیں گے؟ ریاستی وزیر پریش ادھیکاری کی بیٹی انکیتا ادھیکاری بھی غلط طریقے سے نوکری حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں۔ سابق وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی جو اس وقت ممتا بنرجی کابینہ میں وزیر صنعت اور پارلیمانی امور ہیں کے کردار پر بھی انگلی اٹھ رہی ہے۔ ان دونوں وزرا سے سی بی آئی زائداز 8 گھنٹے پوچھ تاچھ کر چکی ہے۔ وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی کے ذریعہ تقرر کی گئی ’مشاورتی کمیٹی‘ کے قانونی جواز پر عدالت سوال اٹھا چکی ہے کہ اس کے ممبران براہ راست گھوٹالے میں ملوث ہیں۔ اسکول سروس کمیشن کے ممبر بھی سوالوں کے گھیرے میں ہیں۔ ان کے خلاف اپنے رشتہ داروں اور قریبی افراد کو غیر قانونی طریقے سے ملازمت دینے کے شواہد عدالت کے سامنے ہیں۔
2011 میں ممتا بنرجی کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ 2013 میں شاردا چٹ فنڈ گھوٹالہ سامنے آیا۔ شاردا گروپ پر 22 ہزار کروڑ روپے مارکیٹ سے جمع کرنے کا الزام ہے۔ ریاست میں ایک درجن سے زائد چٹ فنڈ کمپنیوں نے غریب عوام کو زیادہ رقم واپس لوٹانے کا لالچ دے کر ہزاروں کروڑ رپے لوٹ لیے ہیں۔ سی بی آئی ان تمام چٹ فنڈ کمپنیوں کے خلاف جانچ کر رہی ہے۔ بیشتر چٹ فنڈ کمپنیوں کو لیڈروں کی سرپرستی حاصل ہے لیکن اب تک کسی بھی لیڈر کے خلاف جانچ مکمل نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بعد 2016 میں نارادا اسٹنگ آپریشن سامنے آیا جس میں ناردا نیوزپورٹل نے ترنمول کانگریس کے ایک درجن لیڈر جن میں ریاستی وزراء اور ترنمول کانگریس کے ممبران پارلیمنٹ و ممبران اسمبلی شامل تھے کو رشوت لیتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ماہرین بتاتے ہیں کہ اساتذہ کی بحالی میں بدعنوانی ان دونوں بڑے گھوٹالوں سے کہیں زیادہ بڑا گھوٹالہ ہے۔ عدالت کی سماعت جس نہج پر آگے بڑھ رہی ہے اس سے خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں پرائمری اسکول کے لیے اساتذہ کی بحالی کا پورا عمل ہی رد نہ کر دیا جائے کیوں کہ بڑے پیمانے ایسے نام آرہے ہیں جن کے نام ناکام امیدواروں کی فہرست میں تھے اور نہ ہی ویٹنگ لسٹ میں مگر اساتذہ کی ملازمت پانے میں وہ کامیاب رہے۔ اس گھوٹالے کے اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترنمول کانگریس اور حکومت اپنے وزرا کا دفاع بھی نہیں کر رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عدالت کے ذریعہ ریاستی وزرا کے کردار پر انگلی اٹھائے جانے اور جج کے ذریعہ انہیں اخلاقی طور پر وزارت چھوڑنے کے مشورے کے بعد بھی یہ دونوں ابھی تک ممتا بنرجی کی وزارت کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
اس درمیان بنگال اسمبلی نے ایک ترمیمی بل پاس کرتے ہوئے گورنر کی جگہ وزیر اعلیٰ کو ریاستی یونیورسٹی کا چانسلر مقرر کر دیا۔ ریاستی حکومت نے یہ قدم ایک ایسے وقت میں اٹھایا ہے جب وہ اسکولوں میں اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی تقرری میں گھوٹالے کی وجہ سے دفاعی موقف میں ہے۔ایسے میں ماہرین تعلیم کے ذریعہ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے چانسلر بننے سے یونیورسٹیوں میں سیاسی مداخلت میں اضافہ ہو گا اور اس سے یونیورسٹی کا ماحول مزید خراب ہو گا۔ دراصل حکومت نے یہ قدم گورنر جگدیپ دھنکر کے ذریعہ وائس چانسلر کی تقرری اور یونیورسٹی کے معاملات میں مداخلت کرنے کی وجہ سے اٹھایا ہے۔ جگدیپ دھنکر جولائی 2019 سے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ہی ریاستی حکومت سے ٹکراو کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ گورنر کے عہدہ پر ہونے کے باوجود وہ اپوزیشن لیڈر کی طرح ممتا حکومت کی تنقید کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں سے گورنر اور حکومت کے درمیان ٹکراو میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہے۔ bqioگورنر اور ریاستی حکومت کے ٹکراؤ نے گورنر کے عہدہ پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ گورنر کے عہدے کے مقاصد کیا ہیں؟ حالانکہ گورنر اور ریاستی حکومت کے درمیان ٹکراؤ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
2014 میں مودی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی مخالف پارٹیوں کے زیر اقتدار ریاستوں میں گورنر اور ریاستی حکومت کے درمیان ٹکراؤ معمول بن گیا ہے۔ایسے میں یہ سوال اٹھنے لگے ہیں کہ گورنر ریاست اور مرکز کے درمیان پل کا کام کرنے کے بجائے رخنہ کیوں ڈال رہے ہیں؟ کیا گورنر کی یہی آئینی ذمہ داری ہے؟
تاہم گورنر اور ریاست کے درمیان ٹکراؤ کے نتیجے میں حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں اور چانسلر کے عہدہ پر براہ راست وزیر اعلیٰ کی تقرری کی جا رہی ہے اس کے نتائج پر جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں ان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل مہاراشٹر اور تمل ناڈو نے وائس چانسلروں کی تقرری میں گورنر کے رول کو کم کرنے والے ترمیمی بل پاس کیے ہیں۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے 2014 میں اسی طرح کا بل پاس کیا تھا جس میں گورنر کا کردار کم کر دیا گیا ہے مگر اب تک کسی بھی ریاست نے گورنر کے کردار کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا ہے۔ ایسے میں حکومت کے غلط فیصلے پر انگشت نمائی اور اعتراض کرنے والوں کی غیر موجودگی سے ریاست کو من مانی کرنے کے بے پناہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔
حکومت کی جانب سے دلیل دی جا رہی ہے کہ اگر وشوبھارتی یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدہ پر وزیر اعظم کی تقرری ہوتی ہے تو اس تقرری میں کیا غلط ہے؟ مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ملک بھر کی تمام مرکزی یونیورسٹیوں میں صرف ایک مرکزی یونیورسٹی کا چانسلر وزیر اعظم ہوتا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 جولائی تا 09 جولائی 2022