کرناٹک کی نصابی کتاب میں ساورکر کی مبینہ حد سے زیادہ تعریف و توصیف پر اساتذہ کی جانب سے اعتراضات موصول ہوئے ہیں

نئی دہلی، اگست 29: کئی اساتذہ اور کانگریس نے آٹھویں جماعت کی کنڑ کی نصابی کتاب میں ہندوتوا کے نظریہ ساز ونائک ساورکر کی مبینہ مبالغہ آمیز تعریف و توصیف پر اعتراض کیا ہے۔

دی وائر کی رپورٹ کے مطابق جس پیراگراف کی جانچ کی جا رہی ہے وہ کے ٹی گٹی کے سفرنامے کلاوانو گیداوارو سے لیا گیا ہے، جس میں مصنف انڈمان سیلولر جیل کا دورہ کرتا ہے اور ساورکر کی جیل میں زندگی کو بیان کرتا ہے۔

پیراگراف کہتا ہے ’’جس کوٹھڑی میں ساورکر کو قید کیا گیا تھا وہاں ایک چابی کا سوراخ بھی نہیں تھا۔ لیکن بلبل پرندے کمرے میں آتے تھے اور ساورکر ان کے پروں پر بیٹھ کر باہر اڑ کر ہر روز مادر وطن کو جاتے تھے۔‘‘

یہ، وجے مالا رنگناتھ کے بلڈ گروپ نامی پہلے سبق کی جگہ لیتا ہے۔

دی نیوز منٹ نے رپورٹ کیا کہ اب تحلیل شدہ کرناٹک ٹیکسٹ بک ریویژن کمیٹی نے اتوار کو کہا کہ یہ پیراگراف استعاراتی ہے۔ تاہم کچھ اساتذہ نے دعویٰ کیا ہے کہ پیراگراف لفظی معنی میں لکھا گیا ہے، جس کی وجہ سے کلاس میں وضاحت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

ایک استاد نے کہا ’’اگر مصنف نے ساورکر کی استعاراتی طور پر تعریف کی ہے تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن لائنیں ایسے لکھی گئی ہیں جیسے یہ ایک حقیقت ہو۔ طلبا کو یہ سمجھانا بہت مشکل ہے۔ اگر طلبا اس بارے میں سوال پوچھتے ہیں اور ثبوت مانگتے ہیں تو ہم یہ کیسے کریں گے؟‘‘

کانگریس ایم ایل اے پرینک کھرگے نے کہا کہ یہ پیراگراف استعاراتی نہیں لگتا۔

دکن ہیرالڈ کے مطابق کرناٹک ٹیکسٹ بک ریویژن کمیٹی نے بھی کہا کہ اسے پیراگراف کے بارے میں زبانی شکایات موصول ہوئی ہیں۔

اتوار کو کرناٹک ٹیکسٹ بک ریویژن کمیٹی کے چیئرپرسن روہت چکرتیرتھ نے کہا کہ چند لوگوں کی عقل اتنی گر گئی ہے کہ تحریر کی ایک شکل کا مطلب نہیں سمجھ سکتے۔

انھوں نے کہا کہ ’’کوئی بھی جاننے والا جانتا ہو گا کہ ساورکر جس جملے میں پرندے کے پروں پر بیٹھ کر مادر وطن جاتے تھے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ساورکر خود پرندے کے پروں پر بیٹھتے تھے۔ لیکن ہمارے نام نہاد دانشوروں کو اس جملے میں ایک مسئلہ نظر آیا ہے اس کا مطلب ہے کہ ان کی عقل میں کچھ گڑبڑ ہے۔‘‘

کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے کہا کہ مصنف نے اس سبق میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔ ناگیش نے جمعہ کو دی ہندو کو بتایا کہ ’’ساورکر ایک عظیم آزادی پسند ہیں۔ چاہے ان کو کتنا بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیاجائے، یہ اس کی قربانی کے لیے کافی نہیں ہے۔‘‘