سنگباری کے اسباب معقول ہیں

7؍ اکتوبر کے حملے کی اطلاعات نیوز ایجنسیوں اور خبر رساں اداروں کو پہلے سے تھیں؟

مسعود ابدالی

موجودہ جنگ کے تناظر میں عالمی صحافت پر اسرائیلیوں اور فلسطینی مجاہدین کی متضاد اثر انگیزی
غزہ پر اسرائیلی حملے بلکہ وحشت کا ایک مہینے سے زائد عرصہ بیت چکا ہے اور CNN کے مطابق اب تک اسرائیلی فوج صرف چند کلومیٹر تک ہی پیش قدمی کرسکی ہے۔ ہم نے  سی این این کا حوالہ اس لیے دیا کہ  صحافیوں کو غزہ جانے کی اجازت نہیں اور سی این این سمیت چند ہی امریکی ٹیلی ویژن اور خبر رساں ایجنسیوں کو ’میدان جنگ‘ تک رسائی دی گئی ہے اور وہ بھی اس شان سے کہ ٹینک اور بکتر بند گاڑی میں اسرائیلی فوجیوں کے پہلو میں فولادی ٹوپی و صدری (واسکٹ) زیب تن کیے یہ حضرات جنگ کی روداد سناتے ہیں۔ امریکی ٹیلی ویژن ABC کے سینئر صحافی این پینل نے خود کہا کہ اجرا سے پہلے رپورٹ کے مسودہ اور بصری تراشے کی اسرائیلی فوج سے توثیق ضروری ہے۔ غزہ میں جو صحافی موجود تھے ان میں  سے 34اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہوگئے باقی اب بھی سرگرم ہیں۔ القدس ٹیلی ویژن کے  نمائندے نے بتایا کہ ایک حماس کمانڈر نے ہنستے ہوئے ہم سے کہا کہ’ جو چاہے لکھو، سناؤ اور دکھاؤ، ہاں اسرائیلی بمباری سے بچنا تمہارا اپنا کام ہے‘
نوے کروڑ ڈالر فی ہفتہ خرچ اور ہر دس منٹ پر ایک معصوم بچے کا خون بہا دینے کے باوجود اسرائیلی فوج اپنے عسکری ہدف سے بہت پیچھے ہے۔ خرچ اور بے گناہ شہریوں کے قتل پر وزیر اعظم نیتن یاہو کو کوئی پریشانی نہیں کہ امریکہ بہادر نے اپنے خزانے کے منہ کھول دیے ہیں جبکہ مغربی میڈیا اپنے ناظرین و قارئین کو یہی باور کرارہا ہے کہ حماس دہشت گرد معصوم شہریوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بے گناہ مارے جارہے ہیں۔ یہ بات تسلسل سے کہی جا رہی ہے کہ ان دہشت گردوں نے ہسپتالوں، مساجد اور اسکولوں میں مورچے لگا رکھے ہیں۔ دوسری جانب غزہ میں اندھیرے اور انٹرنیٹ معطل ہو جانے کی بنا پر اسرائیلی دعوؤں کی تردید ناممکن حد تک مشکل ہوگئی ہے۔
تاہم ہسپتالوں کو مورچے اور اسلحے کے گودام بنانے کی بہت واضح تردید 10 نومبر کی  صبح سامنے آئی جب الشفا ہسپتال سے ناروے کے مشہور ڈاکٹر میڈس گلبرٹ (Dr Mads Gilbert) نے سیٹیلائٹ فون پر امریکہ اور مغربی دنیا کے رہنماوں کو اس وقت براہ راست خطاب کیا جب توپوں کے گولے ہسپتال کے دروازے کو نشانہ بنارہے تھے۔ زخمی بچوں کی چیخوں سے قیامت بپا تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے جذباتی انداز میں کہا:
صدر بائیڈن، وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، یورپی ممالک کے وزرائے اعظم اور صدور، کیا آپ مجھے سن رہے ہیں؟ کیا آپ کو الشفا ہسپتال سے یہ چیخیں سنائی دے رہی ہیں؟ کیا آپ کو اسرائیلی فوج کی گولیوں اور گولوں کی آواز سنائی نہیں دے رہی؟ ہسپتال و شفا خانے عبادت گاہوں کی طرح محترم ہیں۔ اسے آپ کب روکیں گے؟ آپ سب اس (جرم) میں برابر کے  شریک ہیں۔
گولیوں کی تڑتڑاہٹ، بموں کے دھماکے اور بچوں کی دہشت زدہ چیخ و پکار کے ساتھ ڈاکٹر گلبرٹ کی دوٹوک و بے لاگ گفتگو ساری دنیا نے سنی۔ اسرائیلی ترغیب کار اداروں (lobby) سے مرعوب امریکی و یورپی قائدین کے لیے غزہ قتل عام کی مذمت تو ممکن نہ تھی لیکن ضمیر کی خلش دور کرنے کے لیے   انتہائی محتاط بیانات جاری کردیے گئے۔
فرانس کے صدر ایمیونل میکراں نے فرمایا ’حقیقت یہ ہے کہ آج عام شہریوں پر بمباری ہو رہی ہے۔ بچے، عورتیں اور بوڑھے بمباری میں مارے جا رہے ہیں۔ اس کی کوئی وجہ ہے اور نہ کوئی جواز۔ لہٰذا ہم اسرائیل پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسے روک دے‘
پانچ ہفتے کی مسلسل بمباری اور 5000 بچوں کے قتل کے بعد امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن بولے ’’غزہ کی پٹی میں حماس گروپ کے خلاف اسرائیل کی مسلسل جنگ میں ’بہت سے‘ فلسطینی ہلاک اور متاثر ہوئے ہیں‘‘ ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا۔
ہسپانیہ کی وزیر سماجی حقوق محترمہ این بیلارہ (Ione Bellara) کا لہجہ بہت سخت تھا۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’غزہ میں فلسطینیوں کی منصوبے کے تحت نسل کشی کی جارہی ہے، اسرائیل پر پابندیاں عائد کی جائیں۔ یوکرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت لیکن اسرائیلی بمباری پر ’گہری خاموشی‘ کو دہرے معیار کے علاوہ اور کیا کہا جائے؟ ہم دوسرے تنازعات پر انسانی حقوق کا درس دیتے ہیں اور یہاں لب سلے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر گلبرٹ کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا ’مرنے والے بچوں کی مائیں چیخ رہی ہیں لیکن ہمیں کچھ سنائی نہیں دے رہا ہے‘ یورپی کمیشن منافقت کا جو مظاہرہ کر رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے۔ محترمہ بیلارہ کے بیان پر اسرائیلی حکومت کا رد عمل انتہائی شدید تھا۔ ان کی وزارت خارجہ نے الزام لگایا کہ کچھ ہسپانوی حکام حماس سے ملے ہوئے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی باتوں سے ہسپانیہ میں مقیم یہودیوں کی سلامتی متاثر ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم پیدرو سنچیز کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ اسرائیلی رد عمل پر بیلارہ صاحبہ نے کہا کہ نسل کشی کی مذمت کرنا حماس کی حمایت نہیں۔ یہ ایک جمہوری ذمہ داری ہے۔ جبکہ ظلمِ عظیم پر خاموشی ریاستی دہشت گردی کے ساتھ ملی بھگت شمار ہوگی۔
اسی کے ساتھ عوامی سطح پر کچھ رد عمل سامنے آنے شروع ہوگئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست واشنگٹن کی ٹکوما (Tacoma) بندرگاہ کے سامنے غزہ قتل عام کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ مظاہرین نے ’’اسرائیل کی مدد بند کرو“، ’’اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی نامنظور‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے بندرگاہ کی عسکری گودی کا علامتی گھیراو کیا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی کے لیے ٹکوما بندرگاہ استعمال ہوتی ہے۔
گزشتہ جمعہ سان ڈیگو (San Diego) کیلی فورنیا میںB21 بمبار بنانے والے ادارے Northrop Grumman کے صدر دروازے پر خون کے علامتی نشان بنا کر اس کے بورڈ پر ’بچوں کا قاتل‘ لکھ دیا گیا۔ اسی طرح برطانیہ میں اسلحہ ساز ادارے BAE Systems کے باہر مظاہرین نے دھرنا دیا۔
قوت قاہرہ کے وحشیانہ استعمال اور معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے باوجود عسکری محاذ پر ہزیمتوں کے ساتھ عوامی بے چینی سے وزیر اعظم نیتن یاہو جھلائے یوئے نظر آ رہے ہیں۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم یہود اولمرٹ (Ehud Olmert) کا خیال ہے کہ نیتن یاہو کے اوسان خطا ہوگئے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے POLITICO سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے nervous breakdown کا لفظ استعمال کیا۔ سابق اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا بات چیت اور دو ریاستی حل کے بجائے غزہ پر حملہ نیتن یاہو کی بدحواسی کا شاخسانہ ہے۔ دوسری طرف یرغمالیوں کے لواحقین کا پیمانہ صبر لبریز ہو رہا ہے۔ تل ابیب میں فوجی ہیڈکوارٹر پر خیمہ زن یہ لوگ اپنے پیاروں کی جلد از جلد واپسی چاہتے ہیں، ہر وقت انہیں یہ دھڑکا بھی لگا ہے کہ  فلسطینی شہریوں کی طرح کہیں یرغمالی  بھی اسرئیلی بمباری کا نشانہ نہ بن جائیں۔
اخراجات کے ساتھ صحافتی محاذ پر بھی اسرائیل کو کوئی پریشانی نہیں کہ مغرب کا میڈیا ان کا نظریاتی حلیف بلکہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہے، غزہ سے خبر کی اشاعت مشکل ہے چنانچہ دنیا وہی دیکھ رہی ہے جو نیتن یاہو دکھانا چاہتے ہیں لیکن سخت رضاکارانہ سینسر کے باوجود وقتاً فوقتاً کچھ حساس بصری تراشے ’لیک‘ ہو ہی جاتے ہیں اور غزہ میں موجود کچھ صحافی اپنے سیٹیلائٹ فون سے اسرائیل کے لیے ’نا خوشگوار‘ خبریں جاری کر دیتے ہیں۔
بدھ 8نومبر کو اسرائیل کی صحافتی تنظیم Honest Reporters نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں انکشاف کیا گیا کہ 7 اکتوبر کو حماس کے انتہائی خفیہ اور اچانک حملے کی تصاویر ذرائع ابلاغ کے امریکی اداروں،  ایسوسی ایٹیڈ پریس، رائٹرز، نیویارک ٹائمز اور سی این این نے بھی جاری کیں۔ رپورٹ میں سوال کیا گیا کہ اتنے خفیہ حملے کی جس سے امریکی سی آئی اے اور موساد بھی بے خبر تھے ان اداروں کو کیسے بھنک لگ گئی کہ ان کے رپورٹر وہاں پہنچ گئے۔
آنیسٹ رپورٹرز کا کہنا ہےکہ حماس جنگجووں کے ساتھ رپورٹنگ کے لیے حسن اصلیح، یوسف مسعود، علی محمود اور حاتم علی بھی گئے تھے۔ حسن اصلیح نے سی این این اور یوسف مسعود نے نیویارک ٹائمز کو تصاویر فراہم کیں جبکہ محمد فائق ابو مصطفےٰ اور یاسر قودیع کی تصاویر رائٹرز نے شائع کیں۔ آنیسٹ رپورٹر کا کہنا ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے ساتھ جانے والے یہ کیمرہ بردار صحافی نہیں بلکہ دہشت گرد جنگجو تھے۔
رپورٹ کی اشاعت کے دوسرے روز اسرائیلی حکومت نے ابلاغ عامہ کے ان چاروں اداروں سے وضاحت طلب کرتے ہوئے شک ظاہر کیا کہ انہیں اس حملے کی پیشگی خبر تھی اور اگر یہ بات درست ثابت ہوئی تو اسرائیل انہیں اس دہشت گردی کا سہولت کار قرار دینے میں حق بجانب ہوگا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمارے لیے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں کا وحشیانہ قتل عام کی کوریج کے لیے ’حملہ آوروں کے ساتھ‘ شامل ہونے کا رجحان انتہائی سنگین معاملہ ہے جس کی ان اداروں کو وضاحت کرنی ہوگی۔ اپنے ایک ٹویٹ میں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ یہ صحافی انسانیت کے خلاف جرائم میں شریک اور اداروں کے یہ اقدامات پیشہ ورانہ اخلاقیات کے منافی تھے۔
اسرائیلی قائد حزب اختلاف یار لیپڈ(Yair Lapid)بھی اس انکشاف پر سخت مشتعل ہیں۔ ٹویٹر پر انہوں نے پیغام نصب کیا کہ ’جیسے بین الاقوامی میڈیا ہم سے جواب طلب کرتا ہے، اسی طرح اب ہم ان سے جواب کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ صحافی کون ہیں؟ کیا وہ اس حملے میں ملوث تھے؟ کیا انہیں حملے کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا؟ اور کیا ان (دہشت گردوں) کو آپ بر طرف کر رہے ہیں؟
ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے ایسوسی ایٹیڈ پریس نے کہا کہ ان حملوں کی ہمیں پیشگی اطلاع نہیں تھی۔  ہمارے نمائندوں کا جائے وقوعہ پر سرعت سے پہنچنا اور خبروں کا بر وقت اجرا پیشہ وارانہ استعداد کا اظہار ہے۔ نیویارک ٹائمز نے یوسف مسعود کا دفاع کرتے ہوئے اپنے فری لانس فوٹوگرافر کے خلاف الزامات کو ’غلط اور توہین آمیز‘ قرار دیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ دیانت دارانہ رپورٹنگ پر غلط الزام لگاکر نیتن یاہو سرکار، اسرائیل اور غزہ میں ہمارے صحافیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ رائٹرز نے بھی اپنے صحافیوں کے  حماس سے تعلق اور حملے کی پیشگی معلومات کی سختی کے ساتھ تردید کی۔ سی این این انتظامیہ نے دباو میں آکر حملے کی فلم بندی کرنے والے فری لانس فوٹوگرافر کے ساتھ تعلقات منقطع کر لیے لیکن بہت صراحت سے کہا کہ مذکورہ فوٹو گرافر کے کام کی  صحافتی درستگی اور دیانت پر شک کرنے کی کوئی وجہ ہمارے سامنے نہیں آئی۔
ان وضاحتوں سے نیتن یاہو انتظامیہ مطمئن نظر نہیں آتی۔ حکم راں لیکڈ پارٹی کے سینئر رہنما اور ابلاغ عامہ کے غیر سرکاری مشیر  Danny Danon نے ان صحافیوں کو قتل کی دھمکی دیتے ہوئے ٹویٹر پر پیغام داغا  ’اسرائیل کی داخلی سلامتی ایجنسی نے اعلان کیا ہے کہ وہ 7؍ اکتوبر کے قتل عام کے تمام شرکاء کو ختم کر دیں گے۔ حملے کی ریکارڈنگ میں حصہ لینے والے ’صحافیوں‘ کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جائے گا۔
اعجاز رحمانی نے کیا خوب فرمایا تھا:
دوستو! میرے ہاتھوں میں ہے آئینہ
سنگباری کے اسباب معقول ہیں
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)

 

***

 اسرائیل کی صحافتی تنظیم Honest Reporters نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں انکشاف کیا گیا کہ 7 اکتوبر کو حماس کے انتہائی خفیہ اور اچانک حملے کی تصاویر ذرائع ابلاغ کے امریکی اداروں،  ایسوسی ایٹیڈ پریس، رائٹرز، نیویارک ٹائمز اور سی این این نے بھی جاری کیں۔ رپورٹ میں سوال کیا گیا کہ اتنے خفیہ حملے کی جس سے امریکی سی آئی اے اور موساد بھی بے خبر تھے ان اداروں کو کیسے بھنک لگ گئی کہ ان کے رپورٹر وہاں پہنچ گئے۔ رپورٹ کی اشاعت کے دوسرے روز اسرائیلی حکومت نے ابلاغ عامہ کے ان چاروں اداروں سے وضاحت طلب کرتے ہوئے شک ظاہر کیا کہ انہیں اس حملے کی پیشگی خبر تھی اور اگر یہ بات درست ثابت ہوئی تو اسرائیل انہیں اس دہشت گردی کا سہولت کار قرار دینے میں حق بجانب ہوگا۔ 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2023