صنفی تعصب ختم کیے بغیر ملک کی تعمیر میں خواتین کی شمولیت ممکن نہیں
بھارت میں ہر ایک گھنٹے میں خواتین کے ساتھ زیادتیوں کا تناسب دنیا بھر میں سب سے زیادہ
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ملک میں خواتین کے حالات اسی وقت بہتر ہوں گے جب سماج خدا خوفی کی بنیاد پر تشکیل پائے
ہر سال 8؍ مارچ کو بین الاقوامی یوم خواتین کے موقع پر خواتین کی معاشی، سماجی اور سیاسی ترقی کے ساتھ صنفی مساوات کی خوب باتیں ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں ہر شعبہ زندگی میں خواتین کی شراکت میں دو چند اضافہ ہوا ہے۔ آزادی کے بعد سے خواتین کی حالت بہتر کرنے کی بڑی کوششیں کی گئیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں اس سمت میں رفتار دیکھی گئی ہے۔ 2014-15 سے اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں خواتین کے اندراج میں 28 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ جن دھن یوجنا کے ذریعہ 56 فیصد کم زور خواتین کو معاشی طور سے بااختیار بنانے کے لیے خواتین کے اکاونٹس کھولے گئے۔ سماج کے نچلے طبقہ میں 69 فیصد خواتین کو گھروں کے مالکانہ حقوق تفویض کیے گئے۔ طبی جانچ کے ذریعہ تقریباً چار کروڑ حاملہ خواتین کو استفادہ کا موقع فراہم کیا گیا۔ دوران حمل مکمل تغذیہ کی فراہمی کے لیے پردھان منتری ماتر وندنا یوجنا کے تحت پانچ ہزار روپے دیے جا رہے ہیں جس سے زچگی کے دوران اموات میں کافی کمی آئی ہے۔ مودی کا نعرہ ’بیٹی پڑھاو اور بیٹی بچاو‘ کے ذریعے کل آبادی میں خواتین کا تناسب بہتر ہو رہا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بد عنوان حکومت نے 2021 تک تقریباً 80 فیصد ’بیٹی پڑھاو بیٹی بچاو ‘اسکیم فنڈ کو اپنی تشہیر کے لیے استعمال کیا ہے۔ مدرا، تغذیہ صفائی اور بیت الخلاکی تعمیر اور اجولا منصوبوں سے خواتین کی زندگی میں بڑی مثبت تبدیلی دیکھی جا رہی ہے جس کی تائید بین الاقوامی اداروں نے بھی کی ہے۔ آیوشمان یوجنا سے بھی خواتین کو بڑے پیمانے پر فائدہ پہنچا ہے۔ یاد رہے کہ لوگوں کی کم آمدنی، بنیادی سہولیات کے فقدان، بے روزگاری سے بچت کا نہ ہونا، مرض وغیرہ جیسے مسائل سے خواتین کو ہی زیادہ پریشانی جھیلنی پڑتی ہے۔ ایسے تمام مسائل اور مشکلات کو کم کرنے میں حکومت کے فلاحی منصوبے سے مدد ملی ہے۔ دوسری طرف خواتین کے لیے ایک تہائی سیٹوں کو محفوظ کرنے سے ان کے لیے جمہوری نظام میں شمولیت کے مواقع ملیں گے بشرطیکہ یہ منصوبہ محض کاغذ کی زینت بن کر نہ رہ جائے کیونکہ موجودہ حکم راں منوسمرتی کے نفاذ کے لیے راہیں ہموار کرکے خواتین کو دوسرے درجہ کا شہری بنانا چاہتے ہیں اور سنگھ کے لوگ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ مثلاً مودی کی یہ جملہ بازی کہ جب خواتین طاقتور ہوتی ہیں تو ساری دنیا طاقتور ہوتی ہے۔ حالاں کہ بھارت میں ہونے والی فی گھنٹہ صنفی زیادتی کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ مودی-یوگی کا ’’ماڈل اسٹیٹ‘‘ قتل، زنا بالجبر، جنسی زیادتی اور خواتین کے خلاف جرائم میں پہلے پائیدان پر ہے۔ اناو، ہاتھرس، وغیرہ میں خواتین پر تشدد کیا گیا اور ان کے خاندانوں کو سنگھیوں نے حکومت کی ملی بھگت سے تباہ و برباد کر دیا۔ اس لیے ضرورت ہے کہ حوا کی بیٹیوں کے لیے بہتر ماحول فراہم کیا جائے۔
ترقی پذیر ممالک کی ابھرتی ہوئی معیشت میں لیبر فورس میں خواتین کی شرکت کی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ صنفی نا برابری کو پاٹے بغیر کسی بھی طرح کی ترقی کا ہدف حاصل کرنا نا ممکن ہے۔ 2011-12 اور 2022-23 کے درمیان خواتین کی لیبر فورس میں شراکت 9 فیصد کے اضافے کے ساتھ 2022-23 میں 23.9 فیصد ہوگئی ہے۔ قومی شماریاتی آفس (این ایس او) اور حالیہ پی ایل ایف ایس کی رپورٹ کے مطابق دیہی اور شہری بہار میں اس میں بالترتیب 15.7 فیصد اور 5.3 فیصد کا اضافہ درج ہوا ہے۔ 2011-12 میں 78.5 فیصد مردوں کے مقابلے میں محض 9 فیصد خواتین لیبر فورس میں تھیں۔ مگر ایک دہائی گزرنے کے بعد 022-23 میں 77.6 فیصد مردوں کے ساتھ 23.9 فیصد خواتین لیبر فورس میں شامل ہیں۔ عالمی بینک کی رپورٹ ’’ری شپنگ نامس‘ اے نیو وے فار وارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ معاشی ترقی اور آمدنی کی بڑھتی ہوئی سطح کئی مقامات پر منفی نا برابری کو کم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ آئی ای ایل او کا اندازہ ہے کہ خواتین کے لیے ہر پانچ نوکریوں میں سے چار غیر منظم معیشت میں ہیں، جبکہ مردوں کے لیے یہ تناسب ہر تین نوکریوں میں سے دو کا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ نگہداشت کے شعبہ کی رہنمائی خواتین کرتی ہیں۔ عموماً عام معالج اور دانتوں کے ڈاکٹر مرد ہیں اس کے علاوہ آیوش میں بھی مردوں کی نمائندگی زیادہ ہے جبکہ نرسوں کے معاملے میں بھارت آگے ہے۔ اعلیٰ تعلیم پر کل ہند سروے کے مطابق خواتین میں اعلیٰ تعلیم 2012-13میں محض 17.5 فیصد تھی جو 2022-23 میں بڑھ کر 23.5 فیصد پر آگئی۔ ویسے بھارت میں خواتین لیبر فورس کی شرکت (Female Labour Force Participation Rate) دنیا میں سب سے کم ہے کیونکہ گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق خواتین کا ہمارے ملک میں LFPR محض 32.8 فیصد ہے۔ 2022 کے حساب سے LFPR کاعالمی اوسط 47.3 فیصد ہے۔ مگر انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق یہ جنوبی ایشیائی ممالک کے اوسط 24.8 سے کچھ زیادہ ہے۔
بین الاقوامی یوم خواتین کے موقع پر یہ تقریب ہر سال ملک کے سرکاری اداروں میں منائی جاتی ہے۔ اس موقع پر خواتین کی سماجی مساوات پر گفتگو کرنا بھی ضروری ہے۔ خواتین کی سیاست میں حصہ داری کو بڑھانے کے لیے حزب اختلاف کے دباو میں بھاجپائیوں کو مجبوراً بل لانا پڑا۔ اس طرح جی-20 کے ڈکلیریشن میں بھی خواتین کی ترقی میں شراکت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی شعبے ہیں جن میں خواتین کی شراکت بڑھی ہے۔ مگر جو مسائل ان کے سامنے ہیں اس کے لیے ضروری اقدام کرنے ہوں گے۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق خواتین کے ساتھ تشدد میں چار فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ خواتین اپنے دم پر سماجی حصہ داری میں فعال ہیں۔ معاشی انٹرپرینور میں ان کی شمولیت بڑھی ہے لیکن خاندانوں کے اندر ان کے حالات میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ ہمارے ملک میں آج لوگ خواتین سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ نوکری بھی کریں اور گھر آکر گھریلو ذمہ داری اور چولہا چکی کے لیے بھی وقت دیں۔ وہ بچوں کی پرورش کے ساتھ بزرگوں کی خدمت بھی کریں جو کہ سراسر ظلم ہے۔ اس لیے مردوں کو بھی اپنے گھر کے خواتین کے ساتھ ہاتھ بٹانا چاہیے۔ ہمارے لیے اور ملک کے لوگوں کے لیے بہترین اسوہ رسولؐاللہ کا ہے۔ آپؐ ازواج مطہرات کے گھریلو کاموں میں تمام مصروفیات کے باوجود ہاتھ بٹاتے تھے۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں خواتین پر ہونے والے تشدد کا بھی مداوا کرنا ہوگا۔ جب تک خواتین پر ہونے والے تشدد پر روک نہیں لگے گی بچے اور بچیوں میں مساوات نہیں آئے گی، بین الاقوامی سطح پر ہمارا وشو گرو کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
دور جدید میں خواتین کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ آج خواتین کو اپنا کرئیر بنانے کے معاملہ میں لڑکوں کی طرح آزادی حاصل نہیں ہے۔ وہ جس شعبہ میں بھی اپنی صلاحیت کا لوہا منوانا چاہیں انہیں چند اصولوں کے تحت لڑکوں کی طرح برابری کا موقع ملنا چاہیے۔ ان پر کسی طرح کا قدغن لگانے سے قبل ان کا اچھی طرح تجزیہ ہونا چاہیے۔ لیکن کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ ان کامیاب لڑکیوں کو نفسیاتی طور سے کم زور کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں بین الاقوامی میڈل یافتہ، پہلوان خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ معاشی طور سے دیکھیں تو خواتین کو روزگار کے مواقع فراہم ہو رہے ہیں، خواہ منظم شعبہ میں ہو یا غیر منظم شعبہ میں۔ آج بہت ساری خواتین غربت کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی جگہوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ملک کے لیبر قانون میں ظالمانہ انداز میں مزدوری کے گھنٹوں میں اضافہ کردیا گیا ہے اور انہیں اجرت بھی کم دی جا رہی ہے۔ بڑی تعداد میں خواتین استحصال والی جگہوں پر کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر سماجی نفسیات ہے۔ سماجی، معاشی یا سیاسی سطح پر اس میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے۔ اس لیے خواتین کے پیش رفت میں بڑی دشواریاں ہوں گی۔ مذکورہ سطور میں درج کیے گئے واقعات کو دیکھیں تو اصلاً ہمارے ملک میں مجرموں کو سیاسی تحفظات ملتے ہیں تو سماجی طور سے خواتین پر منفی اثر ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خواتین کے تعلق سے منو وادی سوچ میں بڑی تبدیلی لائی جائے۔ خواتین کے حالات ملک میں اسی وقت بہتر ہوں گے جب سماج خدا خوفی کی بنیاد پر تشکیل پائے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024