ڈی ایم کے ایم پی اے راجا نے مدراس ہائی کورٹ میں اپنے جوابی حلف نامے میں کہا کہ ’’سناتن دھرم ’غیر قانونی اور برے طرز عمل‘ کی حمایت کرتا ہے‘‘

نئی دہلی، نومبر 11: ڈی ایم کے لیڈر اے راجا نے جمعہ کو مدراس ہائی کورٹ میں کہا کہ سناتن دھرم ذات اور جنس کی بنیاد پر عدم مساوات جیسے ’’گھناؤنے، نقصان دہ، غیر قانونی اور برے طرز عمل‘‘ کی ترغیب دیتا ہے۔

ڈی ایم کے لیڈر نے یہ بیان ایک درخواست کا جواب دیتے ہوئے دیا جس میں عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ راجہ کو یہ بتانے کی ہدایت کرے کہ سناتن دھرم کے خلاف ان کے تبصروں کے بعد وہ کس اختیار کے تحت عوامی عہدہ پر فائز ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ رکن پارلیمنٹ نے آئین کی دفعہ 51A(c(e) کے تحت بنیادی فرائض کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے جو ہر شخص پر ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو برقرار رکھنے اور تحفظ فراہم کرنے اور تمام لوگوں کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارے کے جذبے کو فروغ دینے کا فرض عائد کرتا ہے۔

ستمبر میں ڈی ایم کے ایم پی نے سناتن دھرم کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جسے کچھ لوگ ہندو مت کے مترادف کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور اسے ایک بیماری قرار دیا تھا۔

جمعہ کو ایک جوابی حلف نامہ میں راجا نے کہا کہ سناتن دھرم کے بارے میں ان کے بیانات ان کے ذاتی خیالات ہیں اور آئین ضمیر کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔

انھوں نے کہا ’’میرے خیالات کی بنیاد دستور ساز اسمبلی کے مباحثوں پر ہے۔۔۔میرے کسی بھی قول کو کہیں سے بھی آئین میں درج مساوات اور سماجی انصاف کے اصولوں کے خلاف نہیں سمجھا جا سکتا…‘‘

جمعہ کی سماعت میں راجا کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل آر ودوتھلائی نے دلیل دی کہ اگر ان کے بیانات سناتن دھرم میں بیان کیے گئے غیر آئینی اصولوں کے خلاف ہیں، تو یہ آزادانہ تقریر کے حق کے تحت محفوظ ہے۔

وکیل نے دلیل دی کہ ’’تعمیری تنقید پر پابندیاں عائد کرنے کی کوئی بھی کوشش بلا شبہ جمہوریت کی زندگی کے لیے ایک اہم خطرہ بنے گی۔‘‘

ودوتھلائی نے یہ بھی کہا کہ راجا پارلیمنٹ میں منتخب ہونے سے پہلے 1996 تک ایک پریکٹسنگ وکیل تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایم پی نے سناتن دھرم کے بارے میں کافی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔

راجا سے پہلے تمل ناڈو کے وزیر ادھیانیدھی اسٹالن نے سناتن دھرم کے بارے میں تبصرہ کیا تھا اور اسے ڈینگو اور ملیریا کے مترادف قرار دیا تھا۔ ان کے اس بیان نے ملک گیر تنازعہ کو جنم دیا تھا، جس کے سبب ان کے خلاف مہاراشٹر اور اتر پردیش میں دو فرسٹ انفارمیشن رپورٹس درج کی گئی تھیں۔