دہلی میں سائی بابا کے عقیدت مندوں نے شاہ پور جاٹ مندر میں ان کا بت مسمار کرنے کے خلاف شکایت درج کرائی
نئی دہلی، اپریل 5: دہلی کے کچھ رہائشیوں نے شہر کے شاہ پور جاٹ علاقے میں واقع ایک مندر میں سائی بابا کے بت کو مسمار کرنے کے خلاف شکایت درج کروائی ہے۔
پولیس نے ابھی ایف آئی آر درج نہیں کی ہے، لیکن کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
ڈپٹی کمشنر آف پولیس اتل کمار نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا ’’شہر بھر سے سائی بابا کے چند عقیدت مندوں نے شکایت درج کروائی ہے کہ ان کے بت کو مسمار کرنے سے ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔‘‘
معلوم ہو کہ اسکرول ڈاٹ اِن کی خبر کے مطابق 25 مارچ کو شاہ پور جاٹ میں پرانے شیو مندر نصب سائی بابا کے بت کو کچھ ہندوتوا افراد نے مسمار کردیا تھا اور اس کی جگہ ہندو دیوتا گنیش کا نیا بت نصب کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب جب غازی آباد کے ایک مذہبی رہنما نے دعوی کیا تھا کہ ہندوؤں کی عقیدت کے مرکز اور روحانی پیشوا سائی بابا مسلمان تھے اور ’’جہادی‘‘ تھے۔
گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر بت کو مسمار کرنے کی ویڈیوز کا ایک سلسلہ منظر عام پر آیا۔ مندر کے اندر ریکارڈ شدہ ویڈیوز میں ایک درمیانی عمر کے آدمی کو جس نے پیلے نیلے رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی، اس انہدام کی نگرانی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
ایک اور ویڈیو میں اسی شخص کو غازی آباد کے مندر کے پجاری نرسنگھانند سرسوتی کے پاس بیٹھا ہوا دیکھا گیا ہے۔ سرسوتی نے ’’پاکھنڈی سائی‘‘ کے بت کو توڑنے اور پھینک دینے پر اسے مبارک باد پیش کی اور کہا ’’اگر میں اپنا راستہ اختیار کروں تو سائی جیسے جہادی مندروں میں داخل نہیں ہو پائیں گے۔‘‘
حوض خاص پولیس اسٹیشن میں دہلی کے نو رہائشیوں نے اس کے خلاف شکایت 31 مارچ کو درج کروائی تھی۔ شکایت کرنے والوں نے ملزمان کے خلاف پولیس کارروائی کا مطالبہ کیا اور یہ بھی مطالبہ کیا کہ سائی بابا کے بت کو مندر میں دوبارہ بحال کیا جائے۔
خود کو سائی بابا کا عقیدت مند بتانے والے نو شکایت دہندگان میں سے ایک سنیل سرین نے اسکرول ڈاٹ اِن کو بتایا کہ ہم سب سائی بابا کے عقیدت مند ہیں۔ سنیل نے مزید کہا کہ حوض خاص پولیس نے ابتدائی طور پر شکایت درج کرنے سے انکار کردیا۔
سرین نے کہا ’’ہم وہاں گئے تھے، پولیس نے کہا کہ انھوں نے انکوائری کی ہے اور ایسی کوئی چیز نہیں ہے اور اسے فرقہ وارانہ رنگ نہیں دیا جائے۔‘‘
سرین نے مزید کہا ’’پھر ہم نے انھیں ویڈیوز دکھائی، لیکن وہ سننے کو تیار نہیں تھے۔‘‘
اس سے قبل یکم اپریل کو اسٹیشن ہاؤس آفیسر اکشے کمار رستوگی نے اسکرول ڈاٹ اِن کو بتایا تھا کہ انھیں اس واقعے سے متعلق کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔
دریں اثنا مندر کمیٹی کے ایک رکن نے دعوی کیا کہ یہ بت 25 مارچ کو ٹوٹ جانے کی وجہ سے ہٹایا گیا تھا، لیکن محلے کے بہت سے رہائشیوں نے، جو سائی بابا کے عقیدت مند ہیں، اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے بت کے انہدام پر صدمے اور غصے کا اظہار کیا تھا۔
اسکرول ڈاٹ اِن کے مطابق نرسنگھانند سرسوتی نے دعویٰ کیا کہ ’’سائی بابا ایک پنڈاری لٹیرا تھا۔ اس کا نام چاند خان تھا۔ وہ ایک جہادی تھا۔ یہ ہمارے ہندوؤں کا پاگل پن ہے کہ اب وہ ہمارے مندروں میں ہے۔‘‘