سالانہ 1.5کروڑ لوگ جان لیوا برین اسٹروک کا شکار

طرز زندگی میں بہتری لانے کی ضرورت ۔ صحت مند غذا کا استعمال بہتر

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

موٹاپا، یومیہ اکسر سائز ، خورد و نوش پر کنٹرول مرض کے مقابلہ میں مددگار
ہارٹ اٹیک اور اسٹروک ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگ سب سے زیادہ موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ برین اسٹروک کو ہی عموماً اسٹروک کہا جاتا ہے۔ دماغ میں کوئی شئے خون کے بہاو پر روک لگا دیتی ہے جس سے خون کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ خون کے نسوں کے پھٹ جانے سے بھی اسٹروک ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے اعضا مفلوج ہو جاتے ہیں۔ وقت پر علاج نہ ہونے سے موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 1.5 کروڑ سے زائد لوگ اسٹروک کی زد میں آتے ہیں جس میں سے 50 لاکھ سے زائد لوگوں کی موت بھی ہو جاتی ہے۔ اس کے خطرات سے بچنے کے لیے بروقت علاج کرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مریضوں کی ضروری نگہداشت کے مقصد سے ہر سال 29؍ اکتوبر کو ’’عالمی اسٹروک دن‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسٹروک کے بڑھتے وجوہات پر کڑی نگرانی رکھی جائے تاکہ قبل از وقت مرض سے محفوظ رہا جاسکے۔ یاد رہے کہ یومیہ ایکسر سائز ہمیں تندرست اور ہمارے وزن کو متعدل رکھنے میں مدد کرتی ہے اور موٹاپے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے جو اسٹروک کی بڑی وجہ بنتی ہے۔ امریکن اسٹروک اسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پیٹ میں جمی چربی کی وجہ سے اسٹروک کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے فی ہفتہ کم از کم 15گھنٹے ایکسر سائز ضروری ہوجاتی ہے۔ جاما نیٹ ورک اور پین کے ایک مطالعہ کے مطابق جو لوگ دن میں 13 گھنٹے یا اس سے زائد وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں یا کام کرتے ہیں ان کو اسٹروک کا خطرہ 44 فیصد زیادہ ہی ہوتا ہے۔ برین اسٹروک سے تحفظ کے لیے صحت مند غذا بہت ہی اہم ہے۔ اناج پھل اور سبزیوں والی خوراک دل کو صحت مند رکھنے میں بے حد مفید ہوتی ہے جس سے اسٹروک کا خطرہ کم رہتا ہے۔ طرز زندگی میں بہتری لانے سے اسٹروک کے امکان کو بہت حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ 2022 کے لانسیٹ کی ایک رپورٹ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے سات سالوں تک غذائیت سے پر کھانا کھایا ان پر دل کا دورہ یا اسٹروک کا خطرہ 26 فیصد کم دیکھا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں ذہنی تناو کو ایک نفسیاتی مرض سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس سے اسٹروک کا خطرہ بڑھتا ہے۔ 2022 میں جاما نیٹ ورک اور پین مین شائع شدہ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ زیادہ تناو میں رہتے ہیں ان میں اسٹروک کا خطرہ فطرتاً زیادہ ہی ہوتا ہے۔ ذہنی تناو بلڈ پریشر کو بڑھانے والا ہوسکتا ہے اور وہ ہارٹ اٹیک اور اسٹروک کے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
دنیا میں برین اسٹروک دل کے دورہ کی طرح موت کی بڑی وجہ بن رہا ہے۔ لیکن یہ مرض کتنا خطرنا ک ہوسکتا ہے اس کا اندازہ لوگوں کو کم ہی ہو پاتا ہے۔ مشہور ہیلتھ جرنل لانسیٹ میں برین اسٹروک پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ 2050تک ساری دنیا میں اس سے سالانہ ایک کروڑ لوگ موت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یعنی آئندہ 30سالوں میں فالج سے ہونے والی اموات کی تعداد میں 50فیصد سے زیادہ کا اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ جنوب مشرق ایشیا میں بھارت کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ اس رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ بھارت میں 13 لاکھ لوگ برین اسٹروک سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان میں 18 سے 42 فیصد لوگوں کی موت ایک ماہ کے اندر ہی ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگ معذوروں کی طرح فالج زدہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ برین اسٹروک کا جان لیوا حملہ اس وقت ہوتا ہے جب دماغ تک خون کی ترسیل میں کمی آجاتی ہے۔ رپورٹ میں ایک خاص نکتہ پر توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ برین اسٹروک سے ہونے والے نصف سے زائد اموات کی وجہ دماغ میں خون کا رسنا، خون کا تھکے بننا ہوتا ہے، جبکہ اس کی ایک اور وجہ لائف اسٹائل بھی ہے۔ آج کل ہائپر ٹینشن، ذیا بطیس، موٹاپا، کولیسٹرول کی زیادتی وغیرہ کے مسائل بہت دیکھنے میں سامنے آرہے ہیں۔ اب تو برین اسٹروک بوڑھے اور عمر دراز لوگوں کے لیے مخصوص نہیں رہ گیا ہے بلکہ کم عمر کے لوگ بھی اس کی زد میں آرہے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا میں 45 سال سے کم عمر کے لوگوں میں یہ مرض معمولی بن گیا ہے۔ اس کی وجہ ہماری طرز زندگی اصلاً ذمہ دار ہے۔ مذکورہ دیے گئے وجوہات میں 30 فیصد معاملے ہائپر ٹینشن کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ ماہرین اس پر مشوروں سے نوازتے ہیں۔ اسٹروک کو قابو میں رکھنے کے لیے بلڈ پریشر، شوگر اور اونچے کولیسٹرول کو کنٹرول میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ یومیہ اکسرسائز، خورد و نوش پر کنٹرول اور موٹاپے سے بچتے ہوئے اس مرض کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے برین اسٹروک کی شروعات میں ہی اس کے علامات کے ساتھ بر وقت تشخیص سے بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں برین اسٹروک کی بابت معلومات کا زبردست فقدان ہے۔ اسٹروک کی علامات کا بروقت علاج کرتے ہوئے ہم تندرست ہو سکتے ہیں مگر علاج میں تاخیر خطرناک ہو سکتی ہے۔
اس لیے مرض کے علامات کے متعلق بیداری لانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ فالج جسے عام طور سے برین اسٹروک کہا جاتا ہے، اس کے تین اقسام ہوتے ہیں۔ پہلا اسکیمک اسٹروک جو عام طور سے واقع ہوتا ہے، یہ دراصل شریان میں خون کا تھکہ جم جانے سے خون کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے جس سے خون دماغ کے ہر حصہ تک نہیں پہنچ پاتا ہے اور فالج کا حملہ ہوجاتا ہے۔ اس کی دوسری قسم ہیموریجک اسٹروک ہے۔ جو نس کے پھٹ جانے سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے دماغ میں خون کا رساو شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اکثر ہائی بلڈ پریشر یا اس کے کمزور ہوجانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اصلاً یہ حادثہ اکثر عمر دراز لوگوں کو پیش آتا ہے اب تو جوانوں میں بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ تیسری قسم ہے عارضی اسکیمک اسٹروک (Transitory Ischemic stroke) یہ بھی ایک طرح کا اسٹروک ہے جو ہر وقت نگہداشت ہونے پر 24 گھنٹے میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ایسے مریضوں کو پھر اسٹروک ہو سکتا ہے۔ اسٹروک کے چند انتباہی علامات بھی ہوتے ہیں جنہیں معمولی سمجھ کر لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ فالج کی ابتدائی علامات میں بازو یا پاوں میں اچانک حس کی کمزوری یا کسی عضو کا ایک طرف ڈھلک جانا یا ہاتھ کا ٹھیک سے حرکت نہیں کر پانا ہے۔ چہرہ کا ٹیڑھا ہوجانا۔ اچانک بولنے میں دشواری یا سمجھنے میں دشواری، سر چکرانا، چلنے میں دشواری، توازن کا بگڑنا یا شدید سر درد ہونا وغیرہ۔ 40 سال کی عمر کے لوگ اپنے آفس کے کام میں اس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ نتیجہ میں تناو کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہیں وقت پر کھانا میسر نہیں ہوتا ہے۔ پیٹ بھرنے کے لیے جنک فوڈ استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ ورزش یا پیدل چلنے کے لیے وقت نکال نہیں پاتے جبکہ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد شوگر اور بلڈ پریشر کے بھی مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ وہ اسٹروک کا نرم چارہ بنتے ہیں۔ ساری دنیا میں چار سکنڈ میں کسی نہ کسی پر اس مرض کا حملہ ہوتا ہے اور چار منٹ میں کسی نہ کسی کی جان چلی جاتی ہے۔ اس مرض سے 80 فیصد لوگ بچ سکتے ہیں جبکہ ایک سے دو گھنٹوں (گولڈ ہاور) میں ڈاکٹروں سے رجوع کرلیں۔ وقت پر دوا دیے جانے پر خون کا تھکہ کھل جاتا ہے۔ نیورولوجسٹ دوا کے ذریعے خون کو پتلا کرتے ہیں۔ سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کے ذریعے ڈاکٹر مرض کی کیفیت کا پتہ چلا لیتے ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2023