آسام: الیکشن کمیشن نےحد بندی کے مسودے میں SCs اور STs کے لیے مخصوص اسمبلی نشستوں کو بڑھانے کی تجویز پیش کی

نئی دہلی، جون 21: الیکشن کمیشن نے منگل کو آسام میں درج فہرست ذاتوں کے لیے مخصوص اسمبلی نشستوں کو آٹھ سے بڑھا کر نو اور درج فہرست قبائل کے لیے 16 سے بڑھا کر 19 کرنے کی تجویز پیش کی۔

یہ تجویز شمال مشرقی ریاست کے لیے حد بندی دستاویز کے مسودے میں دی گئی ہے۔ پولنگ باڈی نے آسام میں اسمبلی سیٹوں کی تعداد 126 اور لوک سبھا سیٹوں کی تعداد 14 پر برقرار رکھی ہے۔

حد بندی کی مشق سے مراد اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کے ساتھ ساتھ شہری وارڈوں کی حدود کا تعین کرنا ہے۔

دسمبر میں آسام میں شروع ہونے والی اس مشق نے ریاست کی بنگالی نژاد مسلم کمیونٹی میں تازہ تشویش کو جنم دیا تھا۔ بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ یہ مشق کمیونٹی کی مزید سیاسی پس ماندگی کا باعث بن سکتی ہے، جسے اکثر ’’غیر قانونی تارکین وطن‘‘ کے طور پر بدنام کیا جاتا ہے۔

ان خدشات کی بڑی وجہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے بار بار کی گئی مخالفت تھی، بشمول اس کے 2021 کے اسمبلی انتخابی منشور میں یہ کہ حد بندی کی مشق سے ریاست کی ’’دیسی‘‘ برادریوں کو انتخابی عمل میں بالادستی حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

آسام میں نئی انتظامی اکائیاں بنانے پر پابندی عائد کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ایک دن پہلے، ریاستی حکومت نے 31 دسمبر کو اعلان کیا تھا کہ وہ چار اضلاع کو چار دیگر کے ساتھ ضم کر رہی ہے اور چند گاؤں کے انتظامی دائرۂ اختیار کو تبدیل کر رہی ہے۔

منگل کو الیکشن کمیشن نے ویسٹ کربی اینگلانگ کے خود مختار اضلاع میں درج فہرست ذاتوں کے لیے ایک نشست اور درج فہرست قبائل کے لیے بوڈولینڈ ضلع میں تین اسمبلی نشستوں میں اضافہ کرنے کی تجویز پیش کی۔

پولنگ باڈی نے دو نئی پارلیمانی سیٹیں بنائی ہیں – دیفو اور کوکراجھار – شیڈول ٹرائب کے لیے اور ایک پارلیمانی سیٹ – سلچر – درج فہرست ذاتوں کے لیے۔ اس نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ ایک نئی پارلیمانی نشست کا نام کازرنگا رکھا جائے۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ مشق کے دوران 11 سیاسی جماعتوں اور 71 دیگر تنظیموں کی نمائندگی موصول ہوئی اور ان پر غور کیا گیا۔

حد بندی کی مشق 2001 کی مردم شماری کی بنیاد پر کی گئی۔ اس سے قبل یہ مشق ریاست میں 1976 میں کی گئی تھی۔

دریں اثنا آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے بدھ کے روز کہا کہ وہ اس بات پر افسردہ ہیں کہ جلوکباری حلقہ، جس کی وہ 2001 سے نمائندگی کر رہے ہیں، اب موجود نہیں رہے گا اور اسے تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔

تاہم سرما نے کہا کہ اس تجویز کے نفاذ کے ساتھ آسام کو ’’سیاسی طور پر بچایا جائے گا‘‘ اور مستقبل کے لیے مقامی برادریوں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔

آسام کانگریس کے سربراہ بھوپین کمار بوراہ نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن ’’بی جے پی کے بڑھے ہوئے بازو کی طرح کام کر رہا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ جنوری میں کانگریس لیڈروں نے پولنگ پینل سے ملاقات کی تاکہ حد بندی مشق کے کئی پہلوؤں پر وضاحت طلب کی جائے، لیکن انھیں کوئی جواب نہیں ملا۔

بورہ نے ٹویٹر پر کہا ’’دریں اثنا کچھ نامور شہریوں نے معزز SC [سپریم کورٹ] سے رجوع کیا اور سپریم کورٹ نے 25 جولائی، 2023 کو حتمی سماعت کی تاریخ دی ہے۔ لہٰذا جب کہ یہ معاملہ زیر سماعت ہے، یہ حیران کن ہے اور سپریم کورٹ کی براہ راست توہین ہے کہ ECI نے SC کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر حد بندی دستاویز کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔‘‘

آسام گنا پریشد کے رہنما پردیپ ہزاریکا نے کہا کہ وہ مجوزہ حد بندی کے مخالف ہیں، کیوں کہ ان کا انتخابی حلقہ امگوری ختم کر دیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا ’’امگوری کی تاریخی اہمیت ہے اور ہم اس حلقے کو مکمل طور پر حذف کرنے کو قبول نہیں کر سکتے۔ یہ ہر گز قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اس اقدام کے خلاف تب احتجاج کریں گے جب الیکشن کمیشن کے ارکان اگلے ماہ آسام کا دورہ کریں گے۔‘‘

آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے ایم ایل اے امین الاسلام نے کہا کہ اس حد بندی سے بی جے پی کے ساتھ ساتھ کانگریس کو بھی فائدہ ہوگا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی ’’اے آئی یو ڈی ایف کو آسام کے سیاسی منظر سے ختم کرنے‘‘ کی کوشش کر رہی ہے۔