کم عمری کی شادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے ہمنتا بسوا سرما نے ہندوؤں کو ’اپنے لوگ‘ کہا

نئی دہلی، مارچ 16: آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے بدھ کے روز ان الزامات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوؤں کو ’’اپنے لوگ‘‘ کہا کہ ریاستی پولیس کی جانب سے بچوں کی شادیوں کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ نے یہ تبصرہ ریاستی اسمبلی میں گورنر کی تقریر پر شکریہ کے ووٹ کا جواب دیتے ہوئے کیا۔

سرما نے کہا ’’چوں کہ آپ لوگ [اپوزیشن ایم ایل اے] برا مانیں گے، لہٰذا ہم نے اپنے زیادہ لوگوں کو اٹھایا۔ اسی لیے میں نے ڈبروگڑھ کے ایس پی سے کہا کہ وہ وہاں سے کچھ اٹھائیں…تاکہ انھیں فرقہ واریت کا موقع نہ مل سکے۔‘‘

بالائی آسام کے ضلع ڈبرو گڑھ میں ہندو اکثریتی آبادی ہے۔

فروری سے آسام حکومت نے بچپن کی شادیوں کے خلاف ریاست بھر میں کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ پولیس 14 سال سے کم عمر کی لڑکیوں سے شادی کرنے والے مردوں کے خلاف بچوں کے تحفظ کے قانون کے تحت اور 14 سے 18 سال کی لڑکیوں سے شادی کرنے والوں کے خلاف بچوں کی شادی کی ممانعت کے قانون کے تحت مقدمات درج کر رہی ہے۔

بدھ کو سرما نے دعویٰ کیا کہ جب سے کریک ڈاؤن شروع ہوا ہے مسلمانوں اور ہندوؤں کی گرفتاریوں کا تناسب 55:45 ہے۔

سرما نے کہا کہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم اکثریتی اضلاع دھوبری اور جنوبی سلمارہ میں کم عمری کی شادی کی شرح سب سے زیادہ تھی، نہ کہ ہندو اکثریتی اضلاع جیسے ڈبرو گڑھ اور تنسوکیا میں۔

آسام میں سینکڑوں خواتین ان گرفتاریوں اور اپنے خاندان کے افراد کے خلاف پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی وجہ سے موجودہ جیلوں میں جگہ کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔

پولیس کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ مسلم آبادی والے اضلاع میں دوسری جگہوں کے مقابلے زیادہ گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ بسوناتھ، بارپیٹا، بکسا، دھوبری، ہوجائی، بونگائیگاؤں اور ناگاؤں کے اضلاع میں سے ہر ایک میں 100 سے زیادہ گرفتاریاں ہوئی ہیں۔

دریں اثنا سرما نے بدھ کے روز یہ بھی دعویٰ کیا کہ ریاست میں مسلمان فی الحال ’’سب سے زیادہ پرامن ماحول‘‘ میں رہ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سڑکوں، مکانات اور کالجوں کی تعمیر جیسے ترقیاتی کاموں سے مسلم کمیونٹی مستفید ہو رہی ہے۔

وزیر اعلیٰ نے اپوزیشن پر الزام لگایا کہ وہ اقلیتوں کے لیے ’’مگرمچھ کے آنسو بہا رہی ہے‘‘ اور جب وہ اقتدار میں تھے تو انھوں نے اقلیتوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔

بدھ کے روز سرما نے اسمبلی کو یہ بھی بتایا کہ آسام میں بے دخلی مہم زیادہ تر عدالتی احکامات کی بنیاد پر اور کانگریس کے دور حکومت میں بنائے گئے قوانین کے مطابق چلائی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا ’’جس طرح کانگریس نے قانون بناتے ہوئے قبائلیوں کو جنگل کی زمینوں سے بے دخلی سے مستثنیٰ قرار دیا تھا، اسی طرح انھیں اقلیتی برادری کے لوگوں یا کٹاؤ وغیرہ سے متاثر ہونے والوں کو بھی شامل کرنا چاہیے تھا۔‘‘