راہ عزیمت ہی سے کامیابی اور ارتقاء کی منزل کو پانا ممکن

صبرو استقامت با شعور قوم کا شیوہ

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

قرآن حکیم جسے رمضان المبارک کی متبرک رات شب قدر میں نازل کیا گیا جس کے بارے میں اسی قرآن کی ایک صورت میں بتایا گیا کہ یہ رات ہزار مہینوں سے زیادہ افضل ہے۔ساتھ ہی قرآن حکیم کے تعلق سے سورۃ البقرہ کے آغاز ہی میں بتادیا گیا کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک اور ریب کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ دنیا میں جتنی کتابیں امورِ مابعد الطبیعت اور حقائق ماوراء ادراک سے بحث کرتی ہیں وہ سب قیاس و گمان پر مبنی ہیں، اس لیے خود ان کے مصنّف بھی اپنے بیانات کے بارے میں شک سے پاک نہیں ہو سکتے خواہ وہ کتنے ہی یقین کا اظہار کریں۔ لیکن یہ ایسی کتاب ہے جو سراسر علمِ حقیقت پر مبنی ہے ، اس کا مصنف وہ ہے جو تمام حقیقتوں کا علم رکھتا ہے، اس لیے فی الواقع اس میں شک کے لیے کوئی جگہ نہیں ، یہ دوسری بات ہے کہ انسان اپنی نادانی کی بنا پر اس کے بیانات میں شک کریں۔اورہدایت ہے ان پرہیز گار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں، جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے یعنی قرآن اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ آخرت یعنی ایک ایسی حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں جس میں متذکرہ عقائد شامل ہیں۔(۱) یہ کہ انسان اِس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اپنے تمام اعمال کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔(۲) دنیا کا موجودہ نظام ابدی نہیں ہے بلکہ ایک وقت پر، جسے صرف خدا ہی جانتا ہے اس کا خاتمہ ہوجا ئے گا۔(۳) اس عالم کے خاتمے کے بعد خدا ایک دوسرا عالم بنائے گا اور اس میں پوری نوعِ انسانی کو جو ابتدا ئے آفرینش سے قیامت تک زمین پر پیدا ہوئی تھی، بیک وقت دوبارہ پیدا کرے گا اور سب کو جمع کر کے ان کے اعمال کا حساب لے گا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دے گا۔(۴) خدا کے اس فیصلے کی رو سے جو لوگ نیک قرار پائیں گے وہ جنت میں جائیں گے اور جو لوگ بد ٹھیریں گے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔(۵) کامیابی و ناکامی کا اصلی معیار موجودہ زندگی کی خوشحالی و بدحالی نہیں ہے بلکہ در حقیقت کامیاب انسان وہ ہے جو خدا کے آخری فیصلے میں کامیاب ٹھیرے اور ناکام وہ ہے جو وہاں ناکام ہو۔عقائد کے اِس مجموعے پر جن لوگوں کو یقین نہ ہو وہ قرآن سے کوئی فائدہ نہیں اْٹھا سکتے، کیونکہ ان باتوں کا انکار تو درکنار، اگر کسی کے دل میں ان کی طرف سے شک اور تذبذب بھی ہو، تو وہ اس راستہ پر نہیں چل سکتا جو انسانی زندگی کے لیے قرآن نے تجویز کیا ہے۔اوریہی وہ ایمان ہے جسے کہا گیا کہ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔یعنی نہ صرف یہ کہ خدائے واحد غیب میں ہے، جنت اور دوزخ غیب میں ہیں بلکہ آخرت بھی غیب میں ہے۔اس کے باوجود ان عقائد پر ذرا سا بھی ٹھیر کے غور وفکر کیا جائے تو سب کچھ واضح ہوجاتا ہے اور غیب پر ایمان لانا نہ صرف ممکن ہوجاتا ہے بلکہ ان عقائد میں پختگی پیدا ہوجاتی ہے۔لیکن اس کے لیے ایک اللہ پر ایمان لانا شرط ہے وہیں اطاعت رسول لازم ہے۔اور یہ ایمان و اطاعت اور ایمان و یقین ہر ذی شعور شخص حاصل کر سکتا ہے اگرچہ اس کے افکار ونظریات میں شیطانیت کا غلبہ نہ ہو اور اس کے اندر ہٹ دھرمی نہ پائی جائے۔اور کہا کہ ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔
موجودہ حالات میں دنیا جس تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اس میں رونما ہونے والے واقعات سامنے آرہے ہیں اس میں صبر و استقامت انفرادی واجتماعی ہر دو سطح پر اقوام کے لیے کسوٹی ہے۔اور ایسا صبر و استقامت جس میں ایمان اور عمل دونوں یقین محکم کے ساتھ موجود ہوں۔نیز زندگی کے شب و روز کے اعمال میں عزیمت جھلکتی ہو، نہ کہ ہمہ وقت رخصت سے فیض یاب ہونے کی خواہش۔ اس عزیمت کی بے شمار مثالیں یوں تو اسلامی تاریخ میں موجود ہیں لیکن اگر آج کے حالات میں دیکھنا ہوتو اہل غزہ کی داستانیں چہار جانب موجود ہیں۔جو کوئی کہانی قصے نہیں،ایسے واقعات نہیں جنہیں کل انجام دیا گیا تھا اور کل کے بارے میں ہمارے عموماً فی زمانہ یہی تصورات ہیں کہ وہ آج کے مقابلے قدرے بہتر حالات تھے اور آج کے حالات وہ ہیں جن میں عزیمت اختیار کرنا مشکل ہے۔ لیکن اہل غزہ پر گزرنے والا ہر دن اور رات اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ موجودہ حالات میں بھی دنیا کے سوپر پاور کے ساتھ جب معاملہ ہوگا تو عزیمت کا راستہ اختیار کیا جائے گا اور دنیا بھی شاہد رہے گی کہ موجودہ حالات میں عزیمت کے ساتھ ہی شرف و منزلت، بلندی و ارتقاء اور کامیابی و کامرانی ممکن ہے۔لیکن اس عزیمت کے راستے کے لیے پختہ ایمان لازمی شرط ہے جس کا تذکرہ مضمون کے ابتدائی سطور میں کیا گیا ہے کہ ایمان کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ فلسطینی تحریک حماس کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے اپنے بیٹوں کو اسرائیلی بمباری میں نشانہ بنا کر قتل کیے جانے کے باوجود کہا ہے کہ فلسطینی عوام کے مفادات ہر چیز پر اب بھی مقدم رہیں گے۔ وہ اُس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ ان کے بیٹوں اور خاندان کے دوسرے افراد کی ہلاکت سے جنگ بندی مذکرات پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اور کیا حماس اب بھی اسرائیل کے ساتھ مذاکرات جاری رکھ سکے گی؟ اس پر انہوں نے ہر صورت میں فلسطینی مفادات کو ہی ترجیح رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اب بھی ایک معاہدے کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن قبضہ اس سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اسے ہمارے مطالبات سے گریز کرتے ہوئے جنگ بندی سے فرار کا موقع مل جائے۔’بین الاقوامی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات جاری ہیں’ بیٹوں کے نشانہ بنا کر قتل کر دیے جانے کے باوجود حماس کی ترجیحات پر ڈٹے رہنے کے لیے وہ پر عزم ہیں۔ان کے تین بیٹوں کو ایک ہی وقت میں اسرائیلی حملے میں نشانہ بنایا گیا ہے نیز اس حملہ میں معصوم بچے بھی قتل ہوگئے۔تصاویر اور ویڈیوز سے اندازہ ہوتا ہے کہ نہ صرف اسماعیل ھنیہ بلکہ ان کی علیل بیوی اور شہیدوں کی ماں بھی پرعزم ہیں۔ان کے چہروں سے کم زوری نہیں جھلکتی بلکہ اس پر بھی وہ اللہ کے شکر گزار ہیں کہ انہیں بھی شہیدوں کے والدین کا درجہ حاصل ہوگیا۔سوال یہ ہے کہ عزم محکم اور یہ عزیمت انہیں کہاں سے حاصل ہوئی؟اس پر امت مسلمہ کے ہر فرد کو سوچنا چاہیے کہ دنیا میں عزت اور سرخ روئی کن لوگوں کے حصے میں آتی ہے؟ان کے حصے میں جو رخصت کی تلاش میں رہتے ہیں یا ان کے حصے میں جو عزیمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں؟
دوسری جانب 12؍ اپریل کو غزہ میں وزارت صحت نے بتایا ہے کہ انہوں نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 89 شہیدوں اور 120 زخمی شہریوں کو ہسپتالوں میں منتقل کیا ہے، جب کہ متاثرین کی ایک بڑی تعداد اب بھی بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے یا سڑکوں پر پڑی ہے۔ساتھ ہی یہ وزارت صحت کے مطابق 7؍ اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی اسرائیلی بمباری میں شہید ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 33,634 اور زخمیوں کی تعداد 76,214 ہوگئی ہے ۔غزہ پٹی کی آبادی 7؍ اکتوبر کو حماس کے مسلح ونگ القسام بریگیڈز کی طرف سے سرحد پار آپریشن شروع کرنے کے بعد سے وحشیانہ بمباری کی زد میں ہے۔بڑی تعداد میں ہلاکتوں اور لوگوں کے بے گھر ہونے کے علاوہ سخت اسرائیلی ناکہ بندی اور بنیادی ڈھانچے اور سہولتوں کی بڑے پیمانے پر تباہی کی وجہ سے غزہ کے 23 لاکھ باشندوں کے لیے بنیادی خوراک، ایندھن، پانی اور طبی سامان ختم ہو چکا ہے۔
وہیں حماس کے ترجمان ابو عبیدہ نے غزہ میں جنگ کے 100ویں دن کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایک چونکا دینے والی بات میڈیا کو بتائی۔ انہوں نے یہودیوں پر مقدس سرزمین فلسطین پر ’’سرخ گائے‘‘ لانے کا الزام عائد کیا۔وہ جس گائے کے متعلق بات کر رہے تھے وہ سرخ بچھیائیں Red Heifer ہیں، جو اب اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک محفوظ اور نامعلوم مقام پر پالی جارہی ہیں۔امریکی ٹی وی سی بی ایس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کچھ یہودیوں اور مسیحیوں کا خیال ہے کہ یہ سرخ گائیں یہودی ہیکل کی دوبارہ تعمیر اور مسیحی کی آمد کے لیے بہت اہم ہیں۔یہ بات سمجھنے کے لیے مشرق وسطیٰ کی ہنگامہ خیز تاریخ کے تقریباً دو ہزار سال قبل کے واقعات و حالات کو دیکھنا ہوگا جب قدیم رومیوں نے مقبوضہ بیت المقدس میں آخری ہیکل کو تباہ کر دیا تھا۔اس ہیکل کی دوبارہ تعمیر کے لیے عقیدت مند لوگ بائبل کی کتب الاعداد (بْک آف نمبرز) کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا ہے کہ ’’ایک ایسی سرخ بچھیا کی قربانی پیش کی جائے جو بے عیب ہو، اس میں کوئی داغ نہ ہو، اور جسے کبھی ہل میں نہ جوتا گیا ہو۔‘‘ صرف ایسی ہی قربانی کے بعد ہیکل دوبارہ تعمیر ہو سکے گا۔ان سرخ بچھیاوں کو مقبوضہ بیت المقدس لانے میں اہم کردار اسیتسحاق مامو نے ادا کیا ہے جن کا تعلق یوون یروشلم نامی یہودی گروپ سے ہے اور یہ گروپ قدیم شہر میں ہیکل کی از سر نو تعمیر کے لیے پرعزم ہے۔امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے اسیتسحاق مامو کا کہنا تھا کہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان گائیوں میں ایک بھی بال سفید یا کالا نہ ہو اور اگر تمام بال سرخ نہ ہوئے تو یہ قربانی کے لیے اہل نہیں ہوں گی۔ سرخ بچھیا ڈھونڈنے میں برسوں لگ گئے اور اس مقصد کے لیے اسیتسحاق مامو نے ہزاروں میل دور امریکی ریاست ٹیکساس میں مسیحی گوالوں سے رابطہ کیا جہاں طویل تلاش کے بعد انہیں اپنی مطلوبہ گائیں مل گئیں جنہیں ’’ٹیکساس ریڈ اینگس‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسیتسحاق مامو کے مطابق، سرخ بچھیا کی امریکا سے برآمد پر سخت ممانعت کے سخت قوانین کو نرم کرنے کے لیے بچھڑوں کی بطور پالتو جانور درجہ بندی کی گئی۔ اب ان گائیوں کو مقبوضہ بیت المقدس پہنچا دیا گیا ہے جہاں ایک وسیع و عریض سفید رنگ کی قربان گاہ پر لے جاکر ان کی قربانی پیش کی جائے گی۔ یہ قربان گاہ زیتون کے پہاڑ کے سامنے ہے جہاں جلد ہی ان گائیوں کو جلایا جائے گا اور راکھ کو پانی میں گھول کر یہودیوں پر چھڑکاو کیا جائے گا جس سے ان کے مطابق وہ پاک ہو جائیں گے۔پھر وہ آزادی سے مسجد اقصی کے کمپاونڈ میں جاسکیں گے اور اسے توڑ کر اپنا تیسرا معبد(ہیکل) بناسکیں گے۔ یہودیوں کا یہ ارادہ حماس کے 7؍ اکتوبر کو قابض اسرائیل پر حملے کا ایک سبب ہے۔ ربی اسیتسحاق مامو Yitzchak Mamo نے جو تیسرے معبد کی تحریک سے جڑے ہیں، کہا ہے کہ یہ گائیں اپریل 2024 میں پورے دو سال کی ہوجائیں گے اور اس کے بعد ان کو ذبح کرنے کا عمل ہوگا۔
اس موقع پر قرآن حکیم میں سورۃ البقرہ کی آیات 67 تا 71 کے اس واقعہ کو یاد کرنا چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "پھر وہ واقعہ یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔کہنے لگے کیا تم ہم سے مزاق کرتے ہو؟ موسیٰ نے کہا : میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں۔ بولے اچھا، اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں اس گائے کی کچھ تفصیل بتائے۔ موسیٰ نے کہا اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ ایسی گائے ہونی چاہیے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا، بلکہ اوسط عمر کی ہو۔ لہٰذا جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرو۔ پھر کہنے لگے اپنے رب سے یہ اور پوچھ دو کہ اْس کا رنگ کیسا ہو۔ موسیٰ نے کہا وہ فرماتا ہے زرد رنگ کی گائے ہونی چاہیے، جس کا رنگ ایسا شوخ ہو کہ دیکھنے والوں کا جی خوش ہو جائے۔ پھر بولے اپنے رب سے صاف صاف پوچھ کر بتاو کیسی گائے مطلوب ہے، ہمیں اس کی تعیین میں اشتباہ ہو گیا ہے۔ اللہ نے چاہا تو ہم اس کا پتہ پالیں گے۔ موسیٰ نے جواب دیا: اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی ، نہ زمین جوتتی ہے نہ پانی سینچتی ہے، صحیح سالم اور بے داغ ہو۔اس پر وہ پکار اْٹھے کہ ہاں، اب تم نے ٹھیک پتہ بتایا ہے۔ پھر اْنہوں نے اْسے ذبح کیا، ورنہ وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے”۔یہ وہ واقعہ ہے جو تا قیامت قرآن میں موجود رہے گا ۔اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ان لوگوں کو اپنی ہمسایہ قوموں سے گائے کی عظمت و تقدیس اور گاؤ پرستی کے مرض کی چھوت لگ گئی تھی اس لیے ان کو حکم دیا گیا کہ گائے ذبح کریں۔ ان کے ایمان کا امتحان ہی اسی طرح ہو سکتا تھا کہ اگر وہ واقعی اب خدا کے سوا کسی کو معبْود نہیں سمجھتے، تو یہ عقیدہ اختیار کرنے سے پہلے جس بُت کو معبود سمجھتے رہے ہیں اسے اپنے ہاتھ سے توڑ دیں۔ یہ امتحان بہت کڑا امتحان تھا۔ دلوں میں پوری طرح ایمان اترا نہیں تھا، اس لیے انہوں نے ٹالنے کی کوشش کی اور تفصیلات پوچھنے لگے۔ مگر جتنی جتنی تفصیلات وہ پوچھتے گئے اتنے ہی گھرتے چلے گئے یہاں تک کہ آخر کار اسی خاص قسم کی سنہری گائے پر، جسے اس زمانے میں پرستش کے لیے مختص کیا جاتا تھا، گویا انگلی رکھ کر بتا یا گیا کہ اسے ذِبح کرو۔ بائیبل میں بھی اس واقعے کی طرف اشارہ ہے، مگر وہاں یہ ذکر نہیں ہے کہ بنی اسرائیل نے اس حکم کو کس کس طرح ٹالنے کی کوشش کی تھی (ملاحظہ ہو گنتی ، باب ۹۱- آیت ۰۱-۱)۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیات 72-73 میں فرماتا ہے: "اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کی جان لی تھی، پھر اس کے بارے میں جھگڑنے اور ایک دوسرے پر قتل کا الزام تھوپنے لگے تھے اور اللہ نے فیصلہ کر لیا تھا کی جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے کھول کر رکھ دے گا۔ اْس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاو۔ دیکھو، اس طرح اللہ مردوں کو زندگی بخشتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو”۔اس واقعہ میں اِس مقام پر یہ بات تو بالکل صریح معلوم ہوتی ہے کہ مقتول کے اندر دوبارہ اتنی دیر کے لیے جان ڈالی گئی کہ وہ قاتل کا پتہ بتا دے۔ لیکن اس غرض کے لیے جو تدبیر بتائی گئی تھی، یعنی”لاش کو اس کے ایک حصّے سے ضرب لگاؤ” اس کے الفاظ میں کچھ ابہام محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اس کا قریب ترین مفہوم وہی ہے جو قدیم مفسرین نے بیان کیا ہے، یعنی یہ کہ اوپر جس گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اسی کے گوشت سے مقتول کی لاش پر ضرب لگانے کا حکم ہوا۔ اس طرح گویا بیک وقت دو کرشمے سامنے آئے۔ ایک یہ کہ اللہ کی قدرت کا ایک نشان انہیں دکھایا گیا۔ دوسرے یہ کہ گائے کی عظمت و تقدیس اور اس کی معبودیت پر بھی ایک کاری ضرب لگی کہ اس نام نہاد معبود کے پاس اگر کچھ بھی طاقت ہوتی، تو اسے ذبح کرنے سے ایک آفت برپا ہو جانی چاہیے تھی، نہ کہ اس کا ذبح ہونا الٹا مفید ثابت ہوتا؟ قرآن حکیم کے ان واقعات اور موجود ہ پانچ سرخ گائیں کی خصوصی نگرانی اور ان کی قربانی اور ان کا جلایا جانا اور پھر اس کی راکھ سے نجات حاصل کرنا، یہ سب اس زمانے سے لے کر آج تک جاری ہے اور گائے کا تقدس جو ان کی نظر میں ہے یہ بھی واضح ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں کیا واقعات رونما ہوتے ہیں اور اس کے اثرات غزہ پر، اس کے باشندوں پر، بیت المقدس پر اور پوری دنیا پر کیا پڑنے والے ہیں؟ لیکن یہ واضح ہے کہ آئندہ آنے والے دن امت مسلمہ سے قرآن حکیم کی تعلیمات اور اس کی روشنی میں صبر و استقامت اور عزیمت اور عزم مستحکم کا تقاضا کرتے ہیں۔اسی کے ذریعہ یہ امت دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کامیابی و کامرانی اور سرخ روئی حاصل کرسکتی ہے۔اس لیے جہاں ایک جانب امت کے تمام افراد سے یہ تقاضا مطلوب ہے وہیں امت کے قائدین اس امتحان سے مزید دوچار ہونے والے ہیں۔کیونکہ عموماً قائدینِ امت ہی مسلمانوں کی راہ نمائی اور رول ماڈل کا کردار ادار کرتے ہیں۔ اور اگر قائدین خود رخصت کا طریقہ اختیار کریں گے تو پھر نہ صرف امت بلکہ قائدین بھی ذلت و رسوائی سے دوچار ہوں گے!!
[email protected]
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024