مرکزی حکومت کے تحت تعمیر شدہ کئی پروجیکٹس مانسون سے متاثر
حالیہ دنوں میں ملک کے اندر جو واقعات پیش آئے ہیں وہ کئی پہلوؤں سے قابل غور ہیں۔ امسال مانسون کی آمد پر جس طریقے کی بارش ہوئی ہے وہ نہایت حیران کن ہے. پچھلے دنوں شدید بارش کی وجہ سے گجرات کے اہم شہر احمدآباد کے ہوائی اڈے میں تقریباً گھٹنوں تک پانی جمع ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ ایک تالاب جیسا بن گیا اور اسے مرد آہن کہلائے جانے والے سابق وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کا نام دیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کی تعمیر کے وقت سائنس و تکنیک کا صحیح خیال نہیں رکھا گیا ہے. کیونکہ اگر سائنسی نکتہ نظر سے اس کی تعمیر پر مناسب توجہ دی گئی ہوتی تو مرد آہن کو یوں پانی میں نہ ٹہرنا پڑتا۔ اسی احمد آباد میں موجود عظیم الشان ’نریندر مودی اسپورٹس کامپلیکس‘ جسے کروڑوں روپیوں کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے، یہ عظیم تعمیر بھی بارش کے تھپیڑے کو برداشت نہیں کرپائی، دوران میچ ہی اسٹیڈیم کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا اور اسٹیڈیم میں پانی در آیا، حالانکہ اس اسٹیڈیم کو ورلڈ کلاس انفراسٹرکچر ہونے کا دعویٰ کیا جارہا تھا۔ جزائر انڈومان و نکوبار کے صدر مقام پورٹ بلئیر میں بھی حالیہ دنوں میں تعمیر شدہ ائیرپورٹ جسے ’ویردامودر ساورکر‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس نو تعمیر شدہ ائیرپورٹ کی بھی چھت گرگئی۔ ساورکر، سردارولبھ بھائی پٹیل کی طرح موجودہ حکومت کے ’ہیرو‘ ہیں بلکہ ساورکر تو موجودہ حکمراں جماعت کے نظریہ سازوں میں سے ہیں، اس کے باوجود ان کے نام سے موسوم ائیرپورٹ کی چھت کو حکومت گرنے سے نہیں بچا پائی۔ بی جے پی کے پہلے وزیر اعظم اٹل بہاری باچپائی کے نام سے موسوم سرنگ کو جوڑنے والی سڑک کا ایک حصہ بھی پہلی بارش میں ہی بہہ گیا۔ ظاہر سی بات ہے مرحوم اٹل بہاری باچپائی بی جے پی حکومت کے لیے آئیڈیل شخصیت ہیں۔ امید کی جارہی تھی کہ سڑک ان کے نام کی طرح سردی، گرمی اور بارش کے موسم میں اپنی پوزیشن پر اٹل رہے گی لیکن پہلی بارش میں سڑک تہہ و بالا ہوگئی اور دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے….
مدھیہ پردیش کے شہر اجین میں واقع مہاکال مندر جو ہندو مذہب کے ماننے والوں کے لیے عقیدت کا اہم مرکز ہے، یہاں زیارت و پوجا پاٹ کے لیے پہنچنے والے عقیدت مندوں کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ گزشتہ سال ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے تین سو پچاس کروڑ روپے کی خطیر رقم سے تعمیر ہونے والے مہاکالیشور کوریڈور کا افتتاح کیا تھا، لیکن بارش نے وزیر اعظم مودی کے اس مذہبی پروجیکٹ کا بھی احترام نہیں کیا۔ مہاکال مندر کے نو تعمیر شدہ انفراسٹرکچر کے اندر تک پانی گھس گیا۔
اسی طرح وزیر اعظم مودی نے دہلی کے پرگتی میدان میں چھ زیر زمین راستوں کا افتتاح کیا تھا اور اس موقع پر وہ تصویر خوب پھیلائی گئی تھی جس میں وہ اس نو تعمیر شدہ سڑک کا جائزہ لیتے ہوئے کنارے پڑی ہوئی پلاسٹک کی بوتلیں اٹھا رہے تھے۔ ان کا یہ ویڈیو بھی خوب وائرل ہوا اور خوب تعریفیں بٹوری تھیں، بارش نے اس زیر زمین راستے کو بھی پانی سے لبریز کر دیا۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کروڑوں روپے پانی پانی ہوگئے۔
یہ تمام مثالیں نئے بھارت میں ترقیاتی کاموں کی ہیں جن کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ 2014 کے بعد سے ملک میں تعمیراتی انقلاب برپا ہوگیا ہے۔ تعمیراتی کاموں کا سلسلہ جنگی پیمانے پر جاری ہے اور یہ تعمیرات ملک کی تصویر بدل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک مخصوص طبقے کے ذریعے بدلتے بھارت کا جشن منایا جاتا ہے اور عوام کی ذہن سازی بھی کی جاتی ہے کہ جو اس دورِ حکومت میں ہورہا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ نئی تعمیرات ملک کا نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیں گی، لیکن ان تمام من گھڑت باتوں کے ساتھ دوسرے حقیقی پہلوؤں کو بھی چھپایا جاتا ہے۔ یہ نہیں بتایا جاتا ہے کہ نئی تعمیرات کی پہلی بارش میں ہی پول کھول گئی، جن تعمیرات کا ڈھنڈورا پیٹ کر واہ واہی بٹوری جاتی رہی ہے ان تعمیرات کو پہلی بارش نے ہی دھو ڈالا ہے۔
کون تصور کرسکتا ہے کہ موثر اور نان کرپٹ حکومت کا دعویٰ کرنے والی مرکزی حکومت کی تعمیرات اتنی ناپائیدار ہوسکتی ہیں کہ پہلی بارش کے تھپیڑے بھی برداشت نہ کر سکے تو پھر مرکزی حکومت اور بدعنوان میونسپلٹی اور گرام پنچایت کی تعمیرات کے کاموں میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے اور اخبارات میں پڑھنے میں بھی آتا کہ فلاح گاؤں یا شہر کی نو تعمیر شدہ سڑک بارش میں بہہ گئی یا فلاں عمارت کا ایک حصہ گر گیا لیکن اب اس طرح کی خبریں مرکزی حکومت کے پروجیکٹس کے متعلق بھی سننے کو مل رہی ہیں جو بہت تشویشناک پہلو ہے کیونکہ مرکزی حکومت کروڑوں روپے صرف کرکے عوامی سہولت کے لیے تعمیراتی کاموں کو انجام دیتی ہے۔ عوامی ٹیکس سے وصول کیے گئے پیسوں کی مدد سے اس طرح کے ناقص کام یقیناً باعثِ تشویش ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ہمیشہ ٹی وی اسکرین پر چھائے رہتے ہیں اور کریڈٹ لینے میں پیچھے نہیں ہٹتے۔ معاملہ چاہے بیس پچیس ہزار نوکریوں کی تقسیم کا ہو یا کسی تعمیر کا سنگ بنیاد یا افتتاح کرنے کا، انہوں نے ہمیشہ کریڈٹ لینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر اعظم ان نا پائیدار اور ناقص تعمیرات کی بھی ذمہ داری قبول کریں گے؟ اگر مجاہد آزادی ولبھ بھائی پٹیل کے نام سے منسوب ایئرپورٹ میں گھٹنوں تک پانی بھر جائے اور ویرساورکر کے نام پر رکھے گئے ایئرپورٹ کی چھت گرجائے اور خود اپنے نام سے منسوب اسپورٹس کامپلیکس کی چھت ٹپکنے لگے اور اسٹیڈیم پانی پانی ہوجائے تو ایسے انفراسٹرکچر اور سہولت کا کیا فائدہ جو کروڑوں روپیوں کے اخراجات کے باوجود ناپائیدار اور غیر معیاری ثابت ہو؟
ذرا تصور کیجیے کہ اگر اس طرح کے ترقیاتی کام کانگریس حکومت یا کسی حزب اختلاف کی حکومت کے دور میں انجام پاتے تو بی جے پی لیڈران کتنا واویلا مچاتے؟ لیکن افسوس موجودہ صورت حال پر کوئی سوال کھڑا نہیں کیا جا رہا ہے۔ میڈیا نے بھی اس پورے معاملے پر آنکھیں موند لی ہیں۔ سوال نہ کیے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم تعمیرات کو معاشی نقطہ نظر سے کم اور سیاسی نقطہ نظر سے زیادہ دیکھتے ہیں۔ کسی بھی تعمیر کے افادی پہلوؤں پر نظر ڈالنا نہایت ہی ضروری ہے لیکن بحیثیت قوم ہم اسے ضروری ہی نہیں سمجھتے ہیں۔
کسی بھی تعمیر سے قبل ہمیں اس کی افادیت اور مقصدیت کو جاننا ضروری ہے۔ تعمیر کیوں ضروری ہے اور اس کا مقصد کیا ہے، اس کا معیار کیا ہونا چاہیے، عمارت کتنے سالوں تک مضبوطی سے قائم رہ سکتی ہے اور عوامی زندگی اور فلاح بہبود کے لیے تعمیر کتنی ضروری ہے؟ ان سب پہلوؤں پر غور و فکر کرنا اشد ضروری ہے۔
مغل اور مسلم حکمرانوں کے ذریعے تعمیر شدہ عمارتوں پر آپ نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ تین چار سو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہیں۔ موجودہ حکومت یقینا مغل حکمرانوں سے بیر رکھتی ہے، نظریاتی اختلاف رکھتی ہے لیکن کیا موجودہ حکومت مغل دور میں تعمیر ہونے والے انفراسٹرکچر کی برابری کر سکتی ہے؟ واقعی یہ سوال لمحہ فکریہ ہے
ممبئی میں انگریزوں کے دور کی تعمیرات پر نگاہ ڈالیں۔ مشہور ریلوے اسٹیشن وکٹوریہ ٹرمنلس جسے انگریزوں نے تعمیر کیا بعد میں اسے چھترپتی شیواجی مہاراج کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے۔ ڈیڑھ سو برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی موجوددہ آبادی کے لیے سہولت بخش ہے، جبکہ اس اسٹیشن کی تعمیر ایک سو پینتیس سال پہلے شروع ہوئی تھی لیکن یہ عمارت آج کی کثیر آبادی کے لحاظ سے بھی سہولت بخش ہے۔ دہلی کا کناٹ پلیس اور لوٹینس آج بھی اپنی تعمیری حیثیت میں مکمل اور پائیدار ہیں۔ انگریزوں نے ایسا تعمیراتی انتظام کیا ہے کہ لاکھ بارش کے باوجود جنوبی ممبئی کے پرانے علاقوں میں پانی ہی نہیں بھرتا ہے۔ ملک میں ایسی کئی مثالیں ہیں جو بہترین تعمیرات کا نمونہ ہیں، لیکن 2014 کے بعد ایک طبقے نے خود کو بہتر سمجھنا شروع کر دیا، انہیں یہ وہم ہو گیا ہے کہ جو ہمارا ہے وہی بہتر ہے۔ اہم یہ نہیں ہے کہ کون کیا تصور کرتا ہے اور کیا سوچتا ہے، یہ اس کی ذہنی صلاحیت پر منحصر ہے لیکن ترجیحات سے ہٹ کر تمام چیزوں کو پیمائش کے سائنسی اصولوں کی بنیاد پر جانچنا اور سمجھنا چاہیے۔ اگر اس بنیاد پر سوچا جائے تو جدید ہندوستان میں جدید کہلائی والی سہولیات میں خامیاں کم نظر آئیں گی۔
ہمارے موجودہ نظام کی ایک خامی بہت عیاں ہے اور وہ ہے ٹھیکہ داری۔ ہمیں ٹھیکہ داری کے چنگل سے باہر آنا چاہیے۔ ٹھیکہ داری کی دنیا میں کئی کام عوامی سہولیات اور مفادات کی بجائے اپنے ذاتی مفادات اور ترجیحات کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں۔ ان ٹھیکہ داروں سے سیاسی افراد اور جماعتوں کی بھی ساٹھ گانٹھ ہوتی ہے۔ سیاست اور حکومت کے نیکسس میں ان پر گرفت کمزور پڑ جاتی ہے اور بدعنوانی کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔
ہمیں کم ازکم انگریزوں یا مغل حکمرانوں کے تعمیری کاموں کا جائزہ لینا چاہیے۔ کوئی بھی تعمیر اگلے سو سالوں کو نگاہ میں رکھ کر کی جانی چاہیے۔ انگریزوں کے ذریعے تعمیر شدہ پلوں کو دیکھنا چاہیے کہ سو ڈیڑھ سو سال کا عرصہ ہونے کے باوجود پل مضبوطی کے ساتھ نہ صرف مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ اپنی مکمل افادیت کے ساتھ عوام کو فائدہ بھی پہنچا رہے ہیں۔ آپ اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہمارے اطراف میں نا پائیدار تعمیرات کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ سڑکیں پارک اور دیگر کئی تعمیرات کی حقیقت چند سال میں منظر عام پر آجاتی ہے۔ ہمیں کام کے معیار کو اس سے نہیں جانچنا چاہیے کہ کس نے کیا کیا بلکہ اس معیار کا پتہ اس بات سے لگانا چاہیے کہ کام کیسے کیا گیا۔ ہمیں کاموں کی تیز رفتاری سے زیادہ معیاری کاموں کو انجام دینے کی فکر کرنی چاہیے۔ اسی کے ساتھ ایک اور بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ سیاسی افراد تیز رفتاری کے ساتھ کام اس لیے کرواتے ہیں تاکہ انتخابات میں ان کا بھرپورفائدہ اٹھایا جائے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ کاموں کی تیز رفتاری کی بجائے کام کے معیار کو دیکھیں، اگر ہم نے اپنا نظریہ بدلا تو ہم میں ایک قومی خرابی دور ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے عوام کو سیاسی جماعتوں سے وفاداری کو طاق پر رکھ کر خالص عوامی مفاد میں سوچنا اور سمجھنا ہوگا.
بشکریہ: مراٹھی روزنامہ لوک ستا، ممبئی ۔
(ترجمانی: محی الدین)
***
***
ہمیں کم ازکم انگریزوں یا مغل حکمرانوں کے تعمیری کاموں کا جائزہ لینا چاہیے۔ کوئی بھی تعمیر اگلے سو سالوں کو نگاہ میں رکھ کر کی جانی چاہیے۔ انگریزوں کے ذریعے تعمیر شدہ پلوں کو دیکھنا چاہیے کہ سو ڈیڑھ سو سال کا عرصہ ہونے کے باوجود پل مضبوطی کے ساتھ نہ صرف مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ اپنی مکمل افادیت کے ساتھ عوام کو فائدہ بھی پہنچا رہے ہیں۔ آپ اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہمارے اطراف میں نا پائیدار تعمیرات کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ سڑکیں پارک اور دیگر کئی تعمیرات کی حقیقت چند سال میں منظر عام پر آجاتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اگست تا 12 اگست 2023