دھرم سنسد کی اشتعال انگیزی کے خلاف کارروائی کا انتظار
درخواست گزار قربان علی کو سپریم کورٹ سے انصاف کی امید۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت
افروز عالم ساحل
’گزشتہ سات سالوں سے نفرت انگیز تقاریر کے ذریعہ ملک میں جو ماحول بنایا گیا ہے، وہ بے حد خطرناک ہے۔ میری بس یہی خواہش ہے کہ ان کے خلاف ایکشن ہو، تاکہ یہ ایکشن نظیر بنے اور ملک میں کوئی بھی اس طرح کی حماقت نہ کر پائے جس سے ملک کا ماحول خراب ہوتا ہو، سماج ٹوٹتا ہو، آئین کی بالادستی ختم ہوتی ہو اور عالمی سطح پر ہمارے ملک کی بدنامی ہوتی ہو۔‘
خیال رہے کہ قربان علی اور پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس انجنا پرکاش نے اتراکھنڈ کے ہریدوار میں منعقدہ دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی سے متعلق سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کی ہیں۔ اس عرضی میں مسلمانوں کے خلاف مبینہ نفرت انگیز تقاریر کی آزادانہ، معتبر اور منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ 17 تا 19 دسمبر ہریدوار میں منعقد ہونے والے دھرم سنسد میں ہندوتوا شدت پسندوں نے ہندوؤں سے مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کے لیے ہتھیار خریدنے کی اپیل کی تھی۔
چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ نے اس عرضی کا نوٹس لیا ہے کہ ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ انہوں نے اس عرضی کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس معاملے کی سماعت کریں گے۔ اس بنچ میں چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کے ساتھ جسٹس سوریا کانت اور جسٹس ہیما کوہلی بھی شامل ہیں۔ اس بنچ نے گزشتہ 12 جنوری کو مرکزی حکومت، دہلی پولیس اور اتراکھنڈ حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا ہے۔ کانگریس لیڈر اور سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل اس معاملے کی پیروی کر رہے ہیں۔
قربان علی اس معاملے میں وزیر اعظم مودی کی خاموشی کے سوال پر کہتے ہیں کہ ’نریندر مودی کسی ایک جماعت، کسی ایک مذہب، کسی ایک سیکشن کے پی ایم تو نہیں ہیں، وہ تو پورے ملک کے پی ایم ہیں۔ انہوں نے اس ملک کے آئین کےنام پر حلف لیا ہے۔ ان کی خاموشی نفرت انگیز تقریر کرنے والوں کے ساتھ نیم رضامندی کو ظاہر کرتی ہے۔ چونکہ ابھی پانچ ریاستوں میں الیکشن جاری ہیں تووزیر اعظم کی خاموشی مزید سوال کھڑے کرتی ہے۔ انہیں اس معاملہ پرصرف بولنا ہی نہیں ہے بلکہ ایکشن بھی لینا ہے۔ حکومت ہند کی وزارت داخلہ کا یہ کام ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور آپسی بھائی چارہ کو برقرار رکھے اور ایسے انسانیت دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کرے۔ یہاں ہر چھوٹی بڑی بات پر ملک کے عام لوگوں، اسکولوں اور کالجوں و یونیورسیٹیوں کے طالب علموں اور صحافیوں پر یو اے پی اے لگا دیا جاتا ہے لیکن جو لوگ دن دہاڑے اس ملک کے اتحاد اور اس کی سالمیت کو ہی ملیا میٹ کرنے کے در پے ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ اگر ہم نے سپریم کورٹ میں پیٹیشن داخل نہ کی ہوتی تو جو تھوڑی بہت کارروائی فی الحال ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے، شاید وہ بھی نہیں ہوتی۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ دھرم سنسد میں کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام کی بات کی گئی، لیکن پولیس نے ان کے خلاف 12 جنوری تک بھی کوئی کارروائی نہیں کی، کوئی ایکشن نہیں لیا تبھی ہم سپریم کورٹ گئے۔ سپریم کورٹ سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے واقعات بشمول 17 اور 19 دسمبر 2021 کے درمیان کی گئی تقاریر کی آزادانہ، معتبر اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کا حکم دے۔ اس کے ساتھ ہی تحسین پونا والا کیس میں سپریم کورٹ کے جاری کردہ احکامات کی تعمیل کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
قربان علی کہتے ہیں کہ انہیں سپریم کورٹ پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ ملک میں نفرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنے کا حکم دے گی۔ ہمیں عدالت کے حکم کا انتظار ہے۔
عرضی میں درخواست گزاروں نے اس معاملے میں ایک پولیس افسر اور ہندوتوا لیڈروں کے ایک ویڈیو کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں پولیس افسر کے ساتھ ملزمین کو غیر جانبدارانہ ہونے پر ہنستے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس حکام فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والوں کے ساتھ ہیں۔
سپریم کورٹ میں داخل کردہ اس عرضی میں درخواست گزاروں نے ملزمین کی شناخت کے طور پر یتی نرسمہانند گری، ساگر سندھو مہاراج، دھرم داس مہاراج، پریمانند مہاراج، سادھوی اناپورنا عرف پوجا شکون پانڈے، سوامی آنند سوروپ، اشونی اپادھیائے، سریش چوہانکے اور سوامی پربودھانند گری کے نام درج کیے ہیں۔
مسلمانوں کے نفرت انگیز تقاریر کی تحقیقات کو لے کر بھی سپریم کورٹ میں عرضی
قربان علی اور جسٹس انجنا پرکاش کی اس عرضی کے بعد ہندو فرنٹ فار جسٹس اور ہندو سینا نامی تنظیموں نے ہندوؤں اور ہندو دیوی دیوتاؤں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں قربان علی اور جسٹس انجنا پرکاش کی جانب سے داخل کردہ مفاد عامہ کی زیر التواء عرضی میں مداخلت کی درخواست کے طور پر اپنی درخواست دی ہے۔
خیال رہے کہ مداخلت کی درخواست میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ نے مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی تحقیقات پر رضامندی ظاہر کی ہے، اس لیے اسے ہندو برادری کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی بھی تحقیقات کرنی چاہیے۔ اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’درخواست دہندگان موجودہ درخواست کے ذریعے اس عدالت سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ ایس آئی ٹی کو ہدایت دے کہ وہ ہندو برادری کے ارکان، ان کے دیوتاؤں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی تحقیقات کرے۔‘
اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی جائے کہ وہ نفرت انگیز تقریر کرنے پر اسد الدین اویسی، توقیر رضا، ساجد راشدی، امانت اللہ خان، وارث پٹھان کے خلاف ایف آئی آر درج کریں۔ اس درخواست میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ درخواست گزار صحافی قربان علی کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے۔ انہیں ہندو دھرم سنسد سے متعلق معاملات یا سرگرمیوں پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہندوؤں کے روحانی پیشواؤں کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندو روحانی رہنماؤں کی طرف سے دھرم سنسد کے انعقاد کو کسی دوسرے مذہب یا عقیدے کے خلاف نہیں سمجھا جا سکتا اور نہ ہی سمجھا جانا چاہیے۔ مذہبی رہنماؤں کے بیانات غیر ہندو برادری کے ارکان کی طرف سے ہندو ثقافت اور تہذیب پر حملوں کے جواب میں تھے اور اس طرح کے جوابات ’نفرت انگیز تقریر‘ کے دائرے میں نہیں آتے۔ جب تک انکوائری آفیسر کی طرف سے تفصیلی انکوائری نہیں کی جاتی، درخواست گزار کی طرف سے مبینہ نفرت انگیز تقریر کا پتہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ ہر بیان کو نفرت انگیز تقریر نہیں سمجھا جا سکتا۔ ہندوستان کا آئین تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں تحفظ فراہم کرتا ہے۔درخواست میں مزید کہا گیا ہے، اس ملک کے ہر شہری کو ضمیر، عمل اور مذہب کی تبلیغ کی آزادی ہے۔ ہندوؤں کی طرف سے دھرم سنسد کے انعقاد کو ہندوستان کے آئین کا تحفظ حاصل ہے، اس لیے کیس میں درخواست گزار کا اعتراض آئینی حقوق کے خلاف اور ہندوؤں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
اس معاملے میں جب ہفت روزہ دعوت نے قربان علی سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا، ’ہمارا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اگر کوئی ہمارے پی آئی ایل میں مداخلت کرنا چاہتا ہے تو یہ عدالت طے کرے گی کہ وہ اس کو ایڈمٹ کرتی ہے یا نہیں۔ وہ ہم سے پوچھ کر تو عدالت نہیں گئے اور نہ ہی عدالت ہم سے پوچھ کر کوئی فیصلہ کرے گی۔ جو عدالت کو صحیح لگے گا، وہ کرے گی۔ ہمارا مطالبہ تو یہ ہے کہ نفرت انگیز تقاریر اور مسلمانوں کے قتل عام کی بات کرنے والوں کے خلاف قانونی ایکشن ہونا چاہیے۔ ہم اس معاملے کو ہندو مسلمان کے چشمے سے نہیں دیکھ رہے ہیں، ہمارا تو بس یہ کہنا ہے کہ اس ملک میں جو بھی رول آف لا، اس ملک کے آئین یا سپریم کورٹ کے خلاف جاکر بات کرتا ہے تو اس کو قانون کے مطابق ہر حال میں سزا ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ کے 76 وکلا نے چیف جسٹس آف انڈیا کو لکھا تھا خط
قربان علی اور جسٹس انجنا پرکاش کی اس عرضی سے قبل 26 دسمبر، 2021 کو سپریم کورٹ کے 76 وکلاء نے چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کو خط لکھا تھا جس میں ان سے ہریدوار اور دہلی میں منعقدہ مذہبی تقریبات میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کا ازخود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی۔ خط میں لکھا گیا ہے ’’مذکورہ بالا واقعات اور اس دوران کی گئی تقریریں محض نفرت انگیز تقاریر نہیں ہیں بلکہ پوری کمیونٹی کے قتل کی کھلی دھمکی کے مترادف ہیں۔‘‘
اس خط میں وکیلوں نے کہا کہ مقررین کی تقاریر سے نہ صرف ہمارے ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو شدید خطرہ لاحق ہے بلکہ انہوں نے لاکھوں مسلمان شہریوں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ان وکلاء نے مجرموں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 120B (مجرمانہ سازش کی سزا)، 121A (حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنے، یا جنگ چھیڑنے کی کوشش، یا جنگ چھیڑنے کی ترغیب دینے سے متعلق جرائم کرنے کی سازش)، 153A (دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 153B (تعزیرات، قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ دعوے)، 295A (جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی حرکتیں، جن کا مقصد کسی بھی طبقے کے مذہب یا اس طرح کے عقائد کی توہین کرکے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا ہے) اور 298 (کسی بھی شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے بولنا وغیرہ) کے تحت بھی کارروائی کی جانی چاہیے۔
گلبہار نامی شخص نے بھی ہریدوار کوتوالی میں نفرت انگیز تقریر کے خلاف درج کروائی ایف آئی آر
23 دسمبر2021 کو ہریدوار کے جوالاپور کے رہنے والے 25 سالہ قانون کے طالب علم گلبہار قریشی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر پر ہریدوار کوتوالی میں ایف آئی آر درج کروائی ہے۔ اس ایف آئی آر میں انہوں نے مبینہ طور پر پیغمبر اسلام پر کیے گئے تبصرے کو بنیاد بنایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے آئین نے یہاں ہر کسی کو رہنے اور کھانے کا حق دیا ہے اور انہیں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی دی ہے، ایسے میں کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے کہ کسی خاص مذہب کی مقدس ہستیوں کے متعلق ناشائستہ زبان استعمال کی جائے؟ یہ براہ راست آئین کے خلاف ہے۔
گلبہار اس وقت بی اے، ایل ایل بی آخری سال کے طالب علم ہیں۔
کانگریس کے سینئر لیڈر آنند شرما کا خط امت شاہ کے نام
کانگریس کے سینئر لیڈر اور داخلی امور سے متعلق پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سربراہ آنند شرما نے ہندوستان میں نفرت انگیز تقاریر کے بڑھتے معاملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے گزشتہ 20 جنوری کو مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو ایک خط لکھا ہے، جس میں نفرت بھرے بول اور اس طرح کی بڑھتی روش پر قدغن لگانے کی گزارش کی گئی ہے۔
آنند شرما نے خط میں لکھا ہے کہ اشتعال انگیز تقریروں سے بہتر انداز میں نمٹنے کے لیے تعزیرات ہند کی کچھ دفعات میں ترمیم سمیت اہم آئینی اقدام کی ضرورت ہے۔
اشتعال انگیز تقریروں کے بڑھتے واقعات کی طرف امیت شاہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے آنند شرما نے کہا کہ اس طرح کی باتوں کا مقصد سماج کے کچھ طبقات، خصوصاً اقلیتی طبقہ اور خواتین کو نشانہ بنانا ہوتا ہے اور یہ موضوعِ فکر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی زبان بولنے والے لوگ عدم تحفظ اور عدم اعتماد کا ماحول پیدا کرنے کے لیے لوگوں کے جذبات مشتعل کر رہے ہیں۔
خط میں کانگریس لیڈر نے امیت شاہ کو یہ بھی لکھا کہ ’’نفرت بھرے جملوں کا استعمال مذہب، ذات اور نسل کی بنیاد پر مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کو فروغ دینے کے ہتھیار کی شکل میں کیا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں اگر اس پر قدغن نہیں لگائی گئی تو یہ قانون کے حکمرانی کو کمزور کر دے گا اور ہمارے شہریوں کی زندگی کے بنیادی حقوق اور آزادی کے لیے خطرہ پیدا کر دے گا۔‘‘
بھارت انسداد نسل کشی متعلق 1948 کے عالمی کنونشن کا پابند
ملک کے ہر شہری کو یہ جاننا ضروری ہے کہ ہندوستان دنیا کے ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہے جنہوں نے 9 دسمبر 1948 کے نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق کنونشن Convention on the Prevention and Punishment of the Crime of Genocide, 9 December 1948 پر دستخط کیے ہیں۔
اگر آج ملک میں دھرم سنسد منعقد کرکے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کی جارہی ہے تو یقیناً یہ اس عالمی کنونشن کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ اس عالمی کنونشن کا آرٹیکل I واضح طور پر کہتا ہے کہ :
The Contracting Parties confirm that genocide, whether committed in time of peace or in time of war, is a crime under international law which they undertake to prevent and to punish.
واضح رہے کہ نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق یہ کنونشن اقوام متحدہ کے پہلے کنونشنوں میں سے تھا جو انسانی مسائل کو حل کرتے ہیں۔ اسے 1948 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والے مظالم کے جواب میں اپنایا گیا تھا۔ اس سے قبل 21 دسمبر 1947 کو اقوام متحدہ نے تسلیم کیا تھا کہ ’’نسل کشی ایک بین الاقوامی جرم ہے جس میں انفرادی افراد اور ریاستوں کی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘‘ تب سے کنونشن کو بین الاقوامی برادری نے بڑے پیمانے پر قبول کیا ہے اور ریاستوں کی بھاری اکثریت سے اس کی توثیق کی گئی ہے۔
ہندوستان نے اس کنونشن پر 27 اگست 1959 کو اپنی توثیق دی تھی۔ اس کنونشن کے آرٹیکل IX کے متعلق حکومت ہند نے اعلان کیا تھا : ”کنونشن کے آرٹیکل IX کے حوالے سے حکومت ہند یہ اعلان کرتی ہے کہ اس آرٹیکل کے لحاظ سے کسی بھی تنازعہ کو بین الاقوامی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار میں پیش کرنے کے لیے ہر صورت میں تنازعہ کے تمام فریقین کی رضامندی ضروری ہے”
’’With reference to article IX of the Convention, the Government of India declares that, for the submission of any dispute in terms of this article to the jurisdiction of the International Court of Justice, the consent of all the parties to the dispute is required in each case.‘‘
وہیں اس کنونشن کے آرٹیکل III میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ درج ذیل اعمال قابل سزا ہوں گے:
(1) نسل کشی
(2) نسل کشی کی سازش
(3) نسل کشی کے لیے براہ راست عوام کو اکسانا
(4) نسل کشی کرنے کی کوشش کرنا
(5) نسل کشی میں ملوث ہونا
اس کنونشن کے تعلق سے انڈین یونین مسلم لیگ کی جانب سے راجیہ سبھا میں رکن عبدالوہاب نے گزشتہ 9 فروری 2022 کو راجیہ سبھا میں سوال کیا کہ کیا ہندوستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور شدہ نسل کشی کنونشن (1948) کی توثیق کی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا حکومت نے نسل کشی سے متعلق کوئی قانون اس ملک میں نافذ کیا ہے؟ اور اگر نہیں، تو ایسے کسی قانون کو اس ملک میں نافذ نہ کرنے کی وجہ؟ اور کیا حکومت 1948 کے نسل کشی کنونشن کے حوالے سے قانون سازی کے لیے پرعزم ہے؟
اس سوال کے جواب میں داخلی امور کے وزیر مملکت نتیا نند رائے نے تحریری طور پر کہا کہ ’ہندوستان نے 29 نومبر 1949 کو "نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق کنونشن، 1948” پر دستخط کیے تھے اور 27 اگست 1959 کو اس کنونشن کی پوری حمایت کی تھی اور اس کے مطابق نسل کشی کو ایک بین الاقوامی جرم سمجھا تھا۔ کنونشن میں درج اصول مشترکہ بین الاقوامی قانون کا حصہ ہیں اور اس طرح پہلے سے ہی ہندوستان کے مشترکہ قانون کا حصہ ہیں۔ تعزیرات ہند کی دفعات بشمول کوڈ آف کریمنل پروسیجر، اس زمرے کے جرائم کے مرتکب افراد کو موثر سزا دینے اور ان کارروائیوں کا نوٹس لینے کے لیے فراہم کرتی ہیں جو بصورت دیگر نسل کشی کی نوعیت میں قابل سزا جرم تصور کیے جاسکتے ہیں۔‘
اس سے قبل 2 مارچ 2016 کو، مہاراشٹر کے راجیہ سبھا رکن اویناش پانڈے نے بھی اقوام متحدہ کے اس کنونشن کے مطابق قانون بنانے کے حکومت کے منصوبوں کے بارے میں سوال اٹھایا تھا، تب داخلی امور کے وزیر مملکت کرن رجیجو نے بھی یہی جواب دیا تھا، جو جواب ابھی نتیا نند رائے نے دی ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 فروری تا 26فروری 2022