قرآن مجید انسانی زندگی کا رہبرِ کامل

مصنف مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مرحوم نے اس کتاب میں قرآن مجید کو انسانی زندگی کے رہبر کامل کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کا خطاب نوع انسانی سے ہے اور یہ ہدی للنّاس اور رحمۃ للعالمین ہے۔

نام کتاب: قرآن مجید انسانی زندگی کا رہبرِ کامل
مصنف: مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی
ناشر:دارالرشید، لکھنؤ
سن اشاعت:۲۰۱۲ء
صفحات:۳۶۸
قیمت:۲۵۰ روپے
مبصر : ابو سعدا عظمی

مسلم پرسنل لا کے سابق صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ان کے وفات کے بعد البعث الاسلامی، الرائد، تعمیر حیات، اقلام الہند، تذکیر وغیرہ نے ان کی حیات وخدمات پر مشتمل خصوصی نمبرز شائع کیے۔ ان میں ان کی حیات وخدمات اور علمی فتوحات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ’’رہبر انسانیت‘‘ کے نام سے انہوں نے سیرت پر ایک اہم کتاب تالیف کی جسے غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ زیر تعارف کتاب میں اس بات کی شعوری کوشش کی گئی ہے کہ قرآن کریم کو ساری انسانیت کے رہبر کامل کی حیثیت سے متعارف کرایا جائے۔ قرآن مجید اور علم، قرآن مجید اور انسان، خالق کائنات کی تابعداری، انبیاء کرام کی بعثت، قرآن آخری کتاب ہدایت، فضائل قرآن، علوم ومباحث، قرآن مجید کی اعجازی خصوصیات، تعلیمات قرآن، نبی آخر الزماں کا مقام وکام اورحسن سیرت اور اخلاق حسنہ کے لیے قرآنی ہدایات کے عناوین سے مسلسل گیارہ ابواب میں اس کتاب کو رہبر کامل کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پیش لفظ میں فاضل مصنف نے صراحت کی ہے کہ ’’قرآن مجید میں صرف عبادت ہی کی ہدایت نہیں دی گئی ہے بلکہ انسان اور اس کے خالق کے مابین جو تعلق وربط ہوسکتا ہے، اس کے لیے انسانوں کی فطری حالت وصلاحیت کا لحاظ رکھتے ہوئے زندگی کے تمام عقائد اور اعمال کے سلسلہ میں ایسی رہنمائی کی گئی ہے جس میں انسانی زندگی کے تقاضے اور ضرورت کا پورا احاطہ کیا گیا ہے‘‘۔ (ص۱۴)مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ نے مقدمہ میں قرآن کریم کی جامعیت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا کہ ’’قرآن کریم اعجاز بیانی کے ساتھ رشد وہدایت، علم وفکر، اخبار بالغیب، امم سابقہ کا تذکرہ، غلط تصورات اور معتقدات کی تصحیح، خلق انسان، کائنات کے اسرار اور خدا کی مخلوقات کی خصوصیات، طبیعت انسانی کے رجحانات، اعمال انسانی کے نتائج و اثرات اور اس طرح انسانی زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں رہنمائی کرنے والی کتاب ہے‘‘۔ (ص۲۱)مولانا محمد واضح حسنی نے مقدمہ میں ہر عصر میں قرآن کریم پر ہونے والی اہم تصنیفی خدمات کا اجمالی تذکرہ کرتے ہوئے اس کتاب کے سبب تالیف پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
اس کتاب کا پہلا باب’’قرآن مجید اور علم ‘‘ کے عنوان سے ہے۔قرآنی آیات کی روشنی میں علم کی اہمیت واضح کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں ’’علم کی نعمت وہ نعمت ہے جس کے ذریعہ انسان کو دوسری مخلوقات پر فوقیت عطا ہوئی۔چنانچہ اس دنیا میں ترقی وتمدن کی جو بہاریں اور ترقیات و سر بلندیاں نظر آرہی ہیں وہ انسان کے پڑھنے ہی کا نتیجہ ہیں‘‘۔ (ص۳۵-۳۷)آگے لکھتے ہیں’’یہ علم جو ہم کو قرآن مجید کے ذریعہ عطا ہوا، اس میں انسان کے ماحول، انسان کے مزاجی حالات اور نفسیاتی کیفیات، اجتماعی زندگی کے تقاضے، اس کی دشواریاں اور ان کے مناسب حل بڑے موثر اور اعلیٰ اسلوب کلام میں پیش کیے گئے اور اچھے برے کا فرق بتایا گیا اور انسان کو ایسی ایسی معلومات دی گئیں، جن کا پتہ لگانا انسان کی اپنی ذاتی کوشش سے ممکن نہیں تھا۔(ص۴۰)علم ہی انسان کو حقیقی رب کی معرفت عطا کرتا ہے۔اس ضمن میں فاضل مصنف نے کائنات کی وسعت کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ کائنات میں غور وفکر کرنے والا اس حقیقت کا ادراک ضرور کرلیتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے جو یکتا اور بے مثل ہے۔
’’قرآن مجید اور انسان‘‘ کے عنوان سے دوسرے باب میں جن وانس کی تخلیق، انسان کی فضیلت، انسانی نفسیات اور رویوں کا قرآنی آیات کے تناظر میں نقشہ کھینچا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ قرآن کریم میں انسان کا معیار بلندی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’قرآن جہاں عبادت کے دائرہ میں شرک سے روکتا ہے اور ایک خدا کی عبادت کی تلقین کرتا ہے وہاں وہ اخلاق وکردار کے دائرہ میں جھوٹ بولنے، وعدہ خلافی، خیانت وبد دیانتی، بدی، غیبت، حرص وطمع اور ناپ تول میں کمی، رشوت، سود خوری، بغض وحسد اور دوسری برائیوں سے بھی منع کرتاہے۔ قرآن مجید ان بری باتوں کے برخلاف جن خوبیوں کو اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے ان میں سچ بولنا، عفت وپاکبازی، امانت ودیانت داری، شرم وحیا، عدل وانصاف، عہد کی پابندی، عفو ودرگزر اور ایثار وقربانی جیسے نیک اوصاف ہیں، انسان جس حد تک ان اوصاف سے متصف ہوجائے، اسلام اسے اس حد تک انسان کے معیار کی بلندی قرار دیتاہے‘‘۔ (ص۷۴)اس ضمن میں قرآن مجید کا تصور انسان کے حوالہ سے بڑی وقیع گفتگو کی ہے اور اخلاق حسنہ کے مختلف مظاہر کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ وہ فضائل ہیں جو اسلام کے تصور انسان میں داخل ہیں اور ان کی خالق کائنات نے اپنے کلام مقدس میں تلقین کی ہے(ص۷۷)اس باب کے اختتام پر ان کا یہ جملہ بار بار پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ’’اسلام کا تصور انسان اپنے ماننے والوں میں صرف عاجزی، انکساری اور مسکینی ہی پیدا نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ عزم، بلند ہمتی، استقلال، ثبات، عزتِ نفس اور خود داری کے جوہر بھی اجاگر کرتاہے‘‘۔ (ص۷۹)
’’خالق کائنات کی تابعداری‘‘ میں انس وجن اور طاغوت کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا ہے ایک بڑی تعداد نے طاغوت سے متاثر ہو کر خواہشات نفس کی اتباع کی اور انبیاء کرام کی مخالفت کا رویہ اختیار کیا جس کے نتیجہ میں انہیں ہلاک وبرباد کر دیا گیا۔ اسلامی نظام کی جامعیت اور اس میں فطرت انسانی کے لحاظ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اسلام میں زندگی کا ایک جامع نظام عمل ہے، جس میں دنیا کی صحیح ضرورتوں کا بھی لحاظ ہے اور عبادت کے مختلف پہلوؤں کی بھی وضاحت ہے اور ان دونوں کو جمع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔رسول ﷺ نے اسی کو اس بلیغ تعبیر میں ادا کیا ہے کہ آپ پر آپ کے جسم کا حق ہے اور آپ پر آپ کی بیوی کا حق ہے‘‘۔ (ص۸۷)
’’انبیاء کرام کی بعثت ‘‘کے عنوان سے چوتھے باب میں انہوں بعثت انبیاء کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی دعوت توحید کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ’’انہوں نے ہمیشہ یہ پیغام انسانوں کو دیا کہ وہ یہ عقیدہ رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کا خالق ومالک اور تنہا پروردگار ہے، کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں، اور اس کو جو فائدے پہنچ رہے ہیں ان کو وہ اپنے رب اللہ تعالیٰ ہی کا احسان مانیں اور اپنے عمل سے شکر کا اظہار کریں ‘‘۔ (ص۹۲-۹۳)اس کے بعد متعدد انبیاء کرام مثلاً حضرت نوح، ہود، صالح، شعیب، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کی دعوت، قوم کا رویہ، ان کی انکار وسرکشی کی روش اور بالآخر عذاب الٰہی سے دوچار ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔اس باب کے آخر میں حضرت محمدﷺ کی صفات و خصوصیات کو اجاگر کرتے ہوئے آپ کی دعوت اور آپ کے اصحاب کی طرف اجمالی اشارہ کیا گیا ہے۔
’’قرآن آخری کتاب ہدایت‘‘ کے عنوان سے قرآن کریم کا تعارف، نزول قرآن اور اس کی حفاظت، قرآن کے مختلف اسماء، وحی الٰہی کے نزول کی مختلف صورتیں، اول وآخر قرآنی آیات، مکی ومدنی سورتیں، منزلیں، سورتوں اور آیات کی ترتیب وتقسیم، کتابت قرآن، جمع وتدوین وغیرہ عناوین پر مفید اور جامع گفتگو کی گئی ہے جس سے قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے اور ہر طرح کے شکوک وشبہات سے محفوظ ہونے کا یقین اور پختہ ہوجاتا ہے۔
’’فضائل قرآن ‘‘کے عنوان سے متعدد قرآنی آیات نقل کرکے یہ واضح کیا گیا ہے کہ قرآن کریم شک سے پاک اور ہدایت کا ذریعہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو موعظت، شفاء، ہدایت، خیر، رحمت اور اپنا فضل قرار دیا ہے، یہ تمام جہانوں کے لیے ذکر اور نصیحت ہے، سراسر حق ہے، لوگوں کو حق کی دعوت دیتا ہے اور اس کی تمام باتیں حق وصداقت پر مبنی ہیں۔ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود اپنے اوپر لی ہے۔ وہ اپنے معانی مطالب کے اعتبار سے نہایت آسان ہے،اس کو سمجھنے اور یاد کرنے میں کوئی دقت حائل نہیں ہوتی۔ وہ لوگوں کو ایسی فکری اور عملی راہ پر گامزن کرتا ہے جو ہر اعتبار سے سیدھی اور استوار ہے۔(ص۱۶۱-۱۶۳)اس ضمن میں دیگر آسمانی کتابوں کے درمیان قرآن مجید کا مقام واضح کرنے کے بعد اس کی صداقت کے حق میں دشمنوں کے دلائل بھی نقل کیے ہیں۔ (۱۶۵-۱۶۶)اس کے بعد (صفحہ۱۶۹-۲۰۲) تک کلام ربانی اور عربی زبان نیز خصوصیات وامتیازات کے عناوین سے عربی زبان کی وسعت، فصاحت وبلاغت، نفسیات انسانی کی تصویر کشی، پھر قرآن کے کتاب مبین اور ہدی للناس ہونے، عظمت وتقدس، کلام معجز ونورانی، بلیغ وپراثر کلام اور قرآن میں اقناع کی صفت جیسے ذیلی عناوین قائم کرکے قرآن کی خصوصیات وامتیازات کو اجاگر کیا گیا ہے۔
علوم ومباحث کے ضمن میں شاہ ولی اللہ کے حوالہ سے علم الکلام، علم مخاصمہ، تذکیر باللہ، تذکیر بایام اللہ، علم تذکیر موت کا ذکر کیا گیا ہے۔پھر مشکلات قرآن یعنی حروف مقطعات، اقسام القرآن، محکمات ومتشابہات، مسئلہ ناسخ ومنسوخ، قرآن کے اسلوب بیان کی طرفہ طرازیوں کی نشاندہی کی ہے۔اس کے بعد قرآن مجید کے مباحث کا تنوع کے تحت تعبیر الرؤیا، علم الامثال، علم الاخلاق، علم النفس، سیاحت واسفار، آسمانی تحقیقات، تاریخی معلومات، معاشی پہلو، تحقیقی انداز، لباس انسانی، تغذیہ، دھاتی صنعتیں وغیرہ سے متعلق قرآنی آیات نقل کی ہیں۔
آٹھویں باب میں قرآن مجید کی اعجازی خصوصیات پر اظہار خیال کیا ہے۔ اعجاز کے مختلف وجوہ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم کے اعجاز بیانی، فواصل کا اعجاز اور اس کے حیرت انگیز عددی اعجاز پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
نویں باب میں تعلیمات قرآن کے تحت اخلاق حسنہ کی تلقین کے حوالہ سے سورہ نحل آیت ۹۰ کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں جگہ جگہ اعلیٰ انسانی اخلاق و کردار کی تلقین ملتی ہے اور وہ سادہ انداز میں اور دل کو موہ لینے والے اسلوب میں بیان کی گئی ہے۔(ص۲۲۶)اس کے بعد قرآن کریم کی بنیادی تعلیمات کے عنوان سے سب سے پہلے عقیدہ توحید پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ توحید سے متعلق متعدد قرآنی آیات نقل کرکے خلاصہ کلام ان الفاظ میں پیش کیا ہے کہ’’توحید ہی دین وایمان کی درستگی کا اصل سرچشمہ ہے۔۔۔اگر عقیدہ توحید نہ ہو تو نہ انسان میں دل کا نور پیدا ہوسکتا ہے نہ دماغ کی روشنی۔۔۔عقیدہ توحید کا اجتماعی زندگی پر یہ اثر ہوتا ہے کہ انسانی معاشرت کی بنیاد کامل عدل وصحیح مساوات پر استوار ہوتی ہے۔ دنیا کی موجودہ ابتری وتباہی کا بنیادی سبب یہی ہے کہ انسان توحید خداوندی پر دل سے پوری طرح یقین نہیں رکھتا‘‘۔ (ص۲۵۱-۲۵۷)اس کے بعد قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات کے تحت ایمان، نماز، زکوٰۃ اور صدقات کی اہمیت، حج، جہاد کا تصور قرآن مجید میں وغیرہ عناوین کے تحت مفید اور جامع گفتگو کی گئی ہے۔
باب دہم میں متعدد قرآنی آیات کے تناظر میں نبی آخر الزماںﷺ کے مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کی سیرت وکردار کے چند نمایاں پہلو کواخلاص، سچی توبہ، صبر وتحمل، عفو ودرگزر، اللہ تعالیٰ کا استحضار، تقویٰ، قول وعمل میں استقامت، یقین وتوکل، تمسک بالکتاب والسنۃ، تعاون علی البر والتقویٰ، مواخاۃ واخوت، مصالحت ونرم خوئی، مدارات وتواضع، امید وبیم اور خوف ورجاء، زہد وقناعت اور ایثار وقربانی وغیرہ عناوین قائم کرکے واضح کیا گیا ہے۔
آخری باب میں حسن سیرت اور اخلاق حسنہ سے متعلق قرآنی ہدایات نقل کی گئی ہیں۔اس ضمن میں فضائل اخلاق اور رذائل اخلاق کی تقسیم کرکے تقویٰ شرم وحیا، عدل وانصاف، عفو ودرگزر وغیرہ کو فضائل اخلاق کی حیثیت سے پیش کرکے ان پر جامع گفتگو کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں قلب کی اہمیت کا تذکرہ کے عنوان سے واضح کیا ہے کہ قرآن مجید میں قلب کا تذکرہ بہت زیادہ فعال اور اثر انگیزی رکھنے والے عضو کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔اس کے بعد متعدد قرآنی آیات سے اس بیان کو موکد کیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں قرآن مجید کا حکایتی اسلوب اور ذرائع ابلاغ قرآن مجید کی روشنی میں کے عنوان سے دو اہم اور وقیع مضمون شامل ہیں۔
کتاب کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ آسان زبان میں قرآن مجید کو انسانی زندگی کے رہبر کامل کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کا خطاب نوع انسانی سے ہے اور یہ ہدی للناس اور رحمۃ للعالمین ہے۔

 

***

 بخل واسراف سے اجتناب کے قرآنی حکم کی آج
مسلم معاشرہ میں جس طرح پامالی اور خلاف ورزی ہورہی ہے اس پر
فاضل مصنف نے گہرے کرب ودرد کا اظہار کیا ہے۔اسی طرح شرک کی حقیقت واضح کرنے کے بعد اپنے درد کو اس انداز میں الفاظ کا قالب عطا کیا ہے:’’آج اکثریت نے توحیدکو صرف عبادات میں اور مسجد میں قید کردیا ہے، باقی سارے معاملات میں باطل کی بالا دستی کو قبول کرلیا ہے، جس کے نتیجہ میں پوری دنیا میں مسلمان پست وذلیل اور کمزور ہیں، جب تک مکمل دین کی طرف رجوع نہیں کرتے، تب تک اللہ کی طرف سے نصرت کی امید کرنا خام خیالی ہے‘‘۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 فروری تا 17 فروری 2024