قرآن کے ادبی اسالیب: افادات فراہی کی روشنی میں قلم بند کی گئی کتاب
اسالیب قرآن کی نئی جہتوں اور قرآنی نکات سے روشناس کرنے والی ایک اہم تصنیف
نام کتاب: قرآن کے ادبی اسالیب
مصنف: علامہ خالد مسعودؒ
ناشر: ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹریبیوٹرس نئی دہلی، سن اشاعت:۲۰۲۴ صفحات:۱۸۴ قیمت:۲۵۰ روپے
مبصر: ابوسعد اعظمی (ادارہ علوم القرآن، شبلی باغ، علی گڑھ)
علامہ خالد مسعودؒ اپنی کتاب ’’حیات رسول امی‘‘ کی وجہ سے علمی حلقوں میں مقبول ہیں۔انہوں نے تا زندگی تلمیذ اصلاحی کا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ لگایا اور مولانا امین احسن اصلاحی کے دست وبازو بنے رہے۔ ماہنامہ ’تدبر‘ کی اشاعت میں ان کا اہم کردار رہا اور انہوں نے افادات فراہی کے مستقل کالم کے تحت مولانا فراہی کے قرآنی مباحث سے اردو قارئین کو بھی روشناس کرایا۔ زیر تعارف کتاب بھی درحقیقت مولانا فراہی کی ناتمام عربی تصنیف ’’اسالیب القرآن‘‘کی روشنی میں قلم بند کی گئی ہے ۔اس کا پیش لفظ ماہر قرآنیات مولانا عنایت اللہ اسد سبحانی کے قلم سے ہے۔فہم قرآن میں اسالیب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا سبحانی لکھتے ہیں’’حقیقت یہ ہے کہ قرآنی اسالیب کو سمجھے بغیر قرآن پاک کی بلاغت کو سمجھنا، اس کے خوبصورت اور موثر انداز بیان سے لطف اندوز ہونا، اور ان میں اسرار وحکم کے جو سمندر موج زن ہیں، ان کا مشاہدہ کرنا ممکن نہیں ہے‘‘۔(ص۶) کتاب کا مقدمہ مدرسۃ الاصلاح میں حدیث کے استاذ مولانا نسیم ظہیر اصلاحی نے لکھا ہے۔انہوں نے صراحت کی ہے کہ مولانا فراہی کی اس تشنۂ تکمیل مگر اہم تصنیف کا پہلا ایڈیشن ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا۔۱۹۹۱ء میں دائرہ حمیدیہ نے مولانا کی بعض کتابوں کا پہلا مجموعہ ’رسائل الامام الفراہی‘ کے نام سے شائع کیا تو یہ کتاب بھی اس کا حصہ بنی۔(ص۷)مولانا نسیم ظہیر اصلاحی نے مقدمہ میں اسالیب کی نزاکتوں اور ان کی باریکیوں پر نظر نہ ہونے کے سبب تراجم وتفاسیر میں جو تسامحات در آئے ہیں ان کا حوالہ دیتے ہوئے اسالیب کے مسائل کو ایک مستقل فن کی حیثیت سے مرتب کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا ہے اور مولانا فراہی ان کے نزدیک پہلے عالم ہیں جن کو اس کمی کا شدت سے احساس ہوا اور انہوں نے اس کو ایک مستقل فن کی حیثیت سے مرتب کرنے کا منصوبہ بنایا۔(ص۹) اس ضمن میں انہوں نے واو بیانیہ اور حذف کے متعدد اسلوب کی مثالیں پیش کرکے فہم قرآن میں اسالیب کی معنویت کو اجاگر کیا ہے۔
اس کتاب میں اسالیب قرآن، فصل، تنوعِ خطاب، التفات، اعتراض، تضمین، حذف، حذفِ فعل، معطوف علیہ کا حذف، مقابل کا حذف، اجمال کے بعد تفصیل، مخاطب کو متوجہ کرنے والے اسالیب کے عناوین سے گفتگو کی گئی ہے۔
اسالیب قرآن کے تحت زبان کے فہم میں الفاظ کے معانی اور جملوں کی ساخت سے واقفیت پر گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ معیاری ادب میں بعض اسالیب ایسے پائے جاتے ہیں جو محض گرامر کی گرفت میں نہیں آتے۔ قرآن کریم جو عربی زبان کی سب سے زیادہ فصیح وبلیغ کتاب ہے اس کے اسالیب کلام میں بڑا مفہوم مضمر ہوتا ہے۔ایک شخص اگر ان اسالیب سے واقف نہ ہو تو وہ الفاظ اور جملوں پر سے سرسری طور پر گزر جاتا ہے اور اس کی رسائی ان معانی تک نہیں ہو سکتی جو فی الواقع ان جملوں کے ہوتے ہیں۔ (ص۱۹)علامہ خالد مسعود نے واضح کیا ہے کہ امام فراہی نے اپنی کتاب میں ۳۲ عنوانات قائم کرکے قرآن کریم کے اسالیب پر روشنی ڈالی ہے۔ہر اسلوب کی مثالیں بھی فراہم کی ہیں، لیکن یہ کتاب امام فراہی کی بعض دوسری تصانیف کی طرح مرتب کتاب نہیں ہے بلکہ اشارات ہیں جن پر غور کرکے ایک شخص اپنے لیے فہم قرآن کی راہ نکال سکتا ہے۔(ص۱۹)اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہی انہوں نے امام فراہی کے اس فکر کو مرتب کرنے اور ہر اسلوب کی مزید نظائر فراہم کرکے کتاب کو آسان اور قابل فہم بنانے کی کوشش کی ہے۔
علامہ خالد مسعود نے سب سے پہلے قِران (یعنی دو کلمات یا دو جملوں کا ساتھ ساتھ آنا،خواہ ان کے درمیان کوئی حرف عطف آیا ہو یا نہ آیا ہو)سے بحث کی ہے۔پھر قِران بلا حرف عطف اور قِران بحرف عطف (و،فا، ثم،حتی، او، ام ،بل)کی تعریف او رمثالیں پیش کی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حرف عطف کے بغیر قِران کا اسلوب اس بات پر دلیل ہوتا ہے کہ تمام قرینوں کا حکم بیک وقت پایا جاتا ہے۔مثال کے طور پرسورہ فاتحہ میں رب العالمین، الرحمن الرحیم، مالک یوم الدین قرین ہیں اور بغیر عطف کے ہیں لہٰذا یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات ہیں جو اس کی ذات میں بیک وقت موجود ہیں۔قرآن میں اللہ کی صفات عام طور پر قِران کے اسلوب میں آئی ہیں۔
فصل کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ دو جملوں کے درمیان جب حرف عطف نہ لایا جائے تو یہ صورت فصل کہلاتی ہے۔(ص۳۵)اس کے بعد فصل کے خاص وعام مواقع کا مثالوں کے ساتھ ذکر کیا ہے۔اسی سیاق میں معنوی فصل کی بھی وضاحت کی ہے۔(ص۳۵-۴۱)
خطاب قرآن کریم کا ایک معروف اسلوب ہے۔ تنوعِ خطاب کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’قرآن مجید میں خطاب کا رخ اتنی تیزی سے بدلتا ہے کہ یہ متعین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اس کا مخاطب کون ہے۔۔۔جہت خطاب کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں بعض آیات کی تاویل میں یہ حادثہ بھی پیش آگیا ہے کہ جو خطاب مشرکین سے ہے اس میں روئے سخن نبی ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی طرف سمجھ لیا گیا ہے۔۔۔خطاب میں جہاں واحد کا صیغہ استعمال ہو اہے وہاں عام طور پر لوگوں کا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ خطاب کا رخ نبی کریم ﷺ کی طرف ہے کیوں کہ آپ ہی وحی کے اولین مخاطب تھے لیکن یہ بات قطعیت کے ساتھ ہر جگہ نہیں کہی جاسکتی‘‘۔(ص۴۲)اس کے بعد قرآنی مثالوں کے ذریعہ تنوعِ خطاب کی متعدد مثالیں پیش کرکے اس سلسلہ کلام کی دلیل فراہم کی گئی ہے۔
التفات کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’قرآن مجید ایک ایسا آسمانی خطیب ہے جس کے پیش نظر دنیا بھر کے انسانوں کی اصلاح ہے۔اسے حق کو واضح کرنا ہے، اس کے بارے میں انسانوں کے جس طبقے میں بھی کوئی غلط فہمی پائی جاتی ہے اس کو رفع کرنا ہے اور ان کے رویوں پر نکتہ چینی کرنی ہے، اس کی قرآن مجید کے لیے خطیبانہ اسلوب ہی موزوں تھا اور التفات اسی اسلوب کا مظہر ہے‘‘۔(ص۵۴) اس سلسلہ میں اہل بلاغت کے تصور التفات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں’’اہل بلاغت عموماً جس چیز کو التفات شمار کرتے ہیں وہ ضمیروں کا وہ انتشارہے جس کے تحت کلام متکلم سے مخاطب، مخاطب سے غائب اور غائب سے متکلم یا مخاطب کی طرف برابر بدلتا رہتا ہے‘‘۔(ص۵۴-۵۵) اس کے بعد آیات میں التفات، آیات کے مجموعوں میں التفات اور سورتوں میں التفات کی مثالیں پیش کرکے لکھتے ہیں’’التفات کے اسلوب کا عام فائدہ سامع کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنا اور اس کو چونکا کر اپنی بات سنانا ہے۔ انسان کا حال یہ ہے کہ وہ اس چیز کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس سے اس کی کوئی غرض وابستہ ہوتی ہے۔یہ رویہ اگر پختہ ہو کر ایک عادت بن جائے تو آدمی بسااوقات اس چیز کو بھی نہیں دیکھتا جو اگرچہ قریب ہو لیکن اس سے اس کی کوئی غرض وابستہ نہ ہو۔التفات کا اسلوب انسان کے اس جمود کو توڑتا اور اس کو غور وفکر کے لیے تیار کرتا ہے‘‘۔(ص۶۲-۶۳)
اعتراض (عبارت میں جملہ معترضہ کا داخل ہونا) کے عنوان سے جملہ معترضہ کی تعریف کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں یہ اسلوب بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ معترضہ عبارت کبھی تو صرف ایک لفظ پر مشتمل ہوتی ہے، کبھی مکمل جملے پر اور کبھی کبھی طویل عبارتیں بھی اسی اسلوب کے تحت آتی ہیں۔اس کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں۔کبھی یہ تنزیہ، تعظیم، تاکید اور عظمت واہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے آتا ہے تو کبھی تائید حاصل کرنے ، تسلی، اظہار تعجب، استثنا، رفع شک، تنبیہ اور تردید کے لیے آتا ہے۔اس کے بعد ہر ایک کی مثال پیش کرکے اس کو مزید موکد کیا ہے۔
اس کے بعد انہوں نے تضمین کے عنوان سے گفتگو کی ہے۔کسی لفظ کے ساتھ کسی حرف یا کسی عبارت کے ساتھ عبارت کا اضافہ کرکے ان کے ظاہر مفہوم میں کچھ دوسرے معانی شامل کرنے کو تضمین کہتے ہیں۔(ص۷۸)تضمین کی فاضل مصنف نے دو صورتیں بیان کی ہیں:(۱) فعل سے اس کے صلہ کی عدم مناسبت کی صورت (۲) سلسلہ کلام کے اندر بعض آیات کے اضافہ کی صورت۔ پھر تضمین کی دوسری قسم کے چار مقاصد بیان کیے ہیں۔ (۱) کلام کو مطابق حال کرنا (۲) کلام کی تائید کرنے کے لیے اس کو مدلل لانا (۳) کلام کی تکمیل کرنا (۴) کلام کے کسی پہلو کی وضاحت کرنا۔ پھر ہر ایک کی انہوں نے مثالیں بھی پیش کی ہیں جن سے پوری طرح ان کی وضاحت ہوجاتی ہے۔
عربی زبان کا ایک معروف اسلوب حذف ہے۔ کلام میں غیر ضروری الفاظ کو ساقط کردینے کا اسلوب حذف کہلاتا ہے۔غیر ضروری الفاظ سے مراد وہ الفاظ ہیں جن کے بغیر بھی کلام قابل فہم رہتا ہے اور سننے والا اس سے متاثر ہوتا ہے۔(ص۹۱)قرآن میں حذف کا اسلوب کاعام استعمال ہوا ہے۔اس اسلوب سے ناواقف آدمی کلام کے صحیح مفہوم تک رسائی نہیں پاتا اور اگر حذف سے واقف ہے لیکن اس کے مقدر معانی کھولنے میں غلطی کردیتا ہے تو وہ کلام کے معانی ہی کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔(ص۹۴)اس کے بعد انہوں نے حذف مبتدا وخبر، حذف فاعل ومفعول، حذف مضاف اور شرطیہ جملوں میں حذف کو مثالوں سے واضح کیا ہے۔ انہوں نے مندرجہ امور کوجواب شرط کے حذف کے بڑے مواقع کی صورت میں ذکر کیا ہے:
غایت وضاحت یا جواب شرط کا پہلے سے مخاطب کی معلومات میں ہونا،سیاق کلام میں اس کا تذکرہ ہونا، کلام میں دوسرے مقام میں وضاحت ہونا،شدت تاثر کو قائم رکھنے کی غرض ہونا، جواب شرط کا کسی ایسے مضمون پر مشتمل ہونا جس کی تعبیر سے کلام قاصر ہو، مبالغہ کے لیے جہاں تخیل کی جولانی کو حرکت میں لانا ضروری ہو۔پھر ان تمام مواقع کی انھوں نے مثالیں بھی پیش کی ہیں۔
حذف فعل کے عنوان سے انہوں نے واضح کیا ہے کہ حذف فعل کی متعدد شکلیں ہیں۔التفات کے انداز کا حذف، فعل ناقص کا حذف ، اسم منصوب سے متعلق فعل کا حذف، اذ،ذلک اور کذلک کے ساتھ فعل حذف، فعلیہ جملے کا حذف، لام سے پہلے حذف، مشابہ فعل کا حذف وغیرہ کے ذیلی عناوین سے حذف فعل کی خوبصورت مثالیں پیش کی ہیں۔اس کے بعد معطوف علیہ کے حذف کے تین مواقع بیان کیے ہیں۔(ص۱۳۴)پھر حرف عطف واو، فا، ثم اور ام کے ساتھ حذف کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔(ص۱۳۵-۱۴۰)اس کے بعد مقابل کے حذف پر روشنی ڈالی گئی ہے اور قرآن مجید میں یہ اسلوب جن مواقع پر استعمال ہوا ہے ان کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔(ص۱۴۲-۱۵۰)
اسلوب کی ایک اہم بحث اجمال کے بعد تفصیل کے عنوان سے ہے۔اجمال وتفصیل قرآن کی اہم خصوصیت ہے اور یہی خصوصیت اس کے اسلوب بیان میں بھی نمایاں ہوتی ہے کہ پہلے کوئی لفظ، کوئی حقیقت، کوئی واقعہ ، کوئی پیغام مجمل طریقہ سے آتا ہے، اس کے بعد وضاحت کرکے اس کو کھولا جاتا ہے تاکہ ان میں سے ہر چیز کی وضاحت بھی ہوجائے اور کوئی بات مبہم نہ رہے۔(ص۱۵۲)پھر الفاظ ، اصولی حقیقت ، واقعہ اور پیغام کی تفصیل کے عناوین سے متعدد مثالیں پیش کرکے اسے مزید مبرہن کیا گیا ہے ۔ اس ضمن میں (ص۱۶۷) پر اجمال کے بعد تفصیل کے اسلوب کے فوائد بھی نکات کی شکل میں پیش کردیے گئے ہیں۔
کتاب کے آخر میں مخاطب کو متوجہ اور متنبہ کرنے والے اسالیب کا ذکر کیا گیا ہے۔لکھتے ہیں’’قرآن مجید میں متعدد ایسے اسالیب کلام اختیار کیے گئے ہیں جو مخاطب کو کسی حقیقت کی طرف متوجہ کرنے، اس کو جھنجھوڑنے اور ضد چھوڑ کر اصل حقائق کا مواجہہ کرنے کی دعوت دینے کے لیے ہیں‘‘۔(ص۱۶۸)اس کے بعد تنہا مبتدا کا استعمال، ماادراک کا استعمال، ارایت کا استعمال اور ترجیع کے استعمال کے بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔
کتاب کے سلسلہ میں مولانا نسیم ظہیر اصلاحی کا یہ تبصرہ مبنی بر حقیقت ہے کہ’’اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف اسالیب قرآن کی نئی نئی جہتیں اور انمول قرآنی نکات سامنے آتے ہیں بلکہ قرآن مجید کی زبان وبیان کی جامعیت، تہ داری، دل آویزی اور دوسری زبان پر اس کے امتیازی تفوق کا اظہار بھی ہوتا ہے۔یہ کتاب اپنے موضوع پر اردو زبان میں پہلی اور منفرد کتاب ہے‘‘۔(ص۱۵)البتہ اردو زبان میں یہ پہلی کتاب نہیں ہے بلکہ پروفیسر عبیداللہ فراہی نے بھی امام فراہی کے افادات ہی کی روشنی میں ’’قرآن مبین کے ادبی اسالیب‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی ہے۔
***
***
اجمال وتفصیل قرآن کی اہم خصوصیت ہے اور یہی خصوصیت اس کے اسلوب بیان میں بھی نمایاں ہوتی ہے کہ پہلے کوئی لفظ، کوئی حقیقت، کوئی واقعہ ، کوئی پیغام مجمل طریقہ سے آتا ہے، اس کے بعد وضاحت کرکے اس کو کھولا جاتا ہے تاکہ ان میں سے ہر چیز کی وضاحت بھی ہوجائے اور کوئی بات مبہم نہ رہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 مارچ تا 16 مارچ 2024