قرآن مجید : جامع دستور حیات

ایک رہنما کتاب جو انسانی ذہن میں ابھرنے والے تمام سوالات کا جواب دیتی ہے

ابوفہد، نئی دلّی

قرآن صحیفہ قانون بھی ہے اور صحیفہ اخلاق بھی، تاریخی دستاویزبھی ہے اور سوانح کی کتاب بھی، علم نفسیات کا دفینہ بھی ہے اور علم وحکمت خزینہ بھی ۔ پھر ان سب حیثیتوں کے بعد اوران سب حیثیتوں سے پہلے قرآن ہدایت اور روشنی ہے، علم اور نورہے اور آخری وحی ہے۔پھریہ ہدایت اور روشنی قرآن کی ہر حکایت میں، ہر حکم میں ،ہر تعلیم میں اور اس کی ہر تاریخی ودستوری اور سوانحی حیثیت میں ، سب میں موجود ہے۔ جس طرح اجسام میں روح موجود ہے ، زبان میں صفتِ تکلم موجود ہے ، ذہنوں میں خیال موجود ہے اوردعا میں اثر موجود ہے اور جس طرح دوا میں شفا ، گل میں خوشبو اور شاخ گل میں بادِ سحرگاہی کا نم موجود ہے۔
قرآن اپنے بیانیے کے اعتبار سے دعا بھی ہے اور رب سے مکالمہ بھی ہے۔ قرآن کی ابتدابھی دعا ہے اور انتہا بھی دعا ہے۔ابتدا میں صراط مستقیم کی دعا ہے اور صراط مستقیم کی پیروی کرنے والوں کی پیروی کرنے کی توفیق کا سوال ہے۔اور انتہا میں شیاطینِ جن وانس اور چیزوں کی بری خصلتوں اور تاثیر سے پناہ مانگنے کے دعائیہ کلمات ہیں ۔
قرآن زندگی کے بہت ہی ٹھوس حقائق سے بھرا ہوا بھی ہے، لہذاقرآن میں سائنس بھی ہے اور اسی قرآن میں مافوق الفطرت واقعات بھی ہیں۔قرآن میں ایسی چیزیں بھی ہیں جوانسان کی قوت ِادارک سے ماورا ہیں ۔ قرآن میں جتنا کچھ دنیا کے بارے میں ہے اس سے کہیں زیادہ آخرت کے بارے میں ہے۔
قرآن مکالمہ اس حیثیت سے ہے کہ اس میں لوگوں کے کہے اور اَن کہے سوالا ت کے جواب دیے گئے ہیں۔نزول قرآن کے وقت جن لوگوں نے رسول اللہﷺ سے سوالات کیے ،اللہ نے ان سب کے شافی وکافی جوابات دیے ہیں۔ قرآن کا معتدبہ حصہ انہی سوالات وجوابات پر مشتمل ہے۔ قرآن میں بعض ایسے سوالات کے جوابات بھی مل جاتے ہیں جو آپ کسی سے نہیں پوچھتے، بلکہ آپ سوچتے ہیں یا یوں کہیں کہ اپنے آپ سے ہی پوچھتے ہیں۔آپ پوچھتے ہیں:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیاہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ وعشوہ و ادا کیا ہے
سبزہ وگل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟
اور قرآن جواب دیتا ہے کہ یہ سب اللہ کی قدرت کاملہ اور رحمت عامہ کا مظہر ہے اور ان کی ایک غایت اور مقصد ہے۔ پھر قرآن وہ مقصد تفصیل سے بتاتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ اللہ نے کوئی بھی چیز عبث نہیں پیدا کی۔
’’ہم نے آسمان، زمین اور ان کے مابین کی کسی بھی شے کو بے فائدہ اور بے مقصد نہیں بنایا‘‘ (سورۃ ص: آیت:۲۷)
قرآن اس عظیم الشان کائنات کے خالق ومالک کا، یعنی اللہ کا کلام ہے، نزولِ قرآن کے اختتام کے ساتھ ہی اللہ کی طرف سے لوگوں کی شرعی رہنمائی اور گائیڈینس کی بھی تکمیل ہوگئی اور اللہ نے اس بات کا اعلان کرنا بھی ضروری سمجھا ہے ،اسی لیے فرمایا:
’’آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا ۔‘‘ (المائدۃ:۳)
یہاں دین کی تکمیل سے مراد دین کی اس تعلیم کی تکمیل ہے جو انبیاء کرام کے ذریعے انسانوں کو دی گئی۔ اس تعلیم کاآغاز نزول قرآن کے آغاز سے بہت پہلے سے جاری تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ نزولِ قرآن کا ایک آغاز ہے اور ایک اختتام بھی ہے۔ مگر دین کی تعلیم کا آغاز انسانی دنیا پر انسان کے نقش اول یعنی حضرت آدم وحوا سے ہی ہوگیا تھا اوراس کی تکمیل مختلف ادوار میں مختلف شریعتوں سے گزرتے ہوئے نزول قرآن کے اختتام پر ہوئی۔اللہ نے جب دین کو مکمل کیا اور نبوت اور وحی کے سلسلے کو ختم کیا تو تکمیل دین کا اعلان کیا۔جس طرح بوتل میں کسی بھی مطلوبہ مواد کی مطلوبہ مقدار بھرنے کے بعد اسے سیل بند کردیا جاتا ہے کہ اب اس میں مزیدکچھ نہیں بھرا جاسکتا، اسی طرح اللہ نے بھی وحی کا سلسلہ موقوف کرکے قرآن کو سیل بند کردیا۔ اب قرآن میں مزید کچھ نہیں لکھا جاسکتا، قیامت تک بھی نہیں۔ مگر چونکہ قرآن کے الفاظ جامد ہیں اور اس کی تعلیمات واحکامات غیر منصرف مگر ان کا جو مظروف ہے یعنی زمانہ، وہ ہرلحظہ متغیر اور غیر ثابت وسیارہے۔یہ ایک طرح سے دو مختلف،متضاد اور ایک دوسرے کے خلاف کھڑی ہونے والی چیزیں ہیں۔اس لیے اللہ نے ان دونوں متضاد حالتوں کے درمیان تطبیق اورانضباط پیدا کرنے کے لیے شریعت میں ’اجتہادات‘ کی ایک کھڑکی کھلی رکھ دی۔یہ ایک طرح سے قرآن کے جامد وثابت الفاظ اورغیر منصرف اوامر ونواہی کو منصرف حالت میں لانے جیساہے تاکہ صبا رفتارتہذیب و تمدن کی اخلاقی وتہذیبی رہنمائی کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا جاسکے۔
سلسلہ نبوت کے اختتام کے ساتھ ہی شرعی تعلیم کا سلسلہ بےشک بند ہوگیا مگر اللہ کی طرف سے انسانوں کو فطرت اور نیچر کے حوالے سے تعلیم دینے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ خود اللہ ہی کا فرمان ہے:
’’(آج بھلے ہی یہ لوگ قرآن کو جھٹلا رہے ہیں مگر)آنے والے وقتوں میں ہم انہیں اپنی ایسی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق (کائنات) میں بھی اور خود ان کے اپنے نفس کے اندر بھی، تب ان پر یہ پوری طرح واضح ہوجائے گاکہ یہ قرآن بر حق ہے۔‘‘ (فصلت: ۵۳)
آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل کو ایک پرندے (کوّے) کے ذریعہ تعلیم دینے کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔(المائدہ:۳۱) ۔ انسان کو تعلیم دینے کا یہ فطری طریقہ آج بھی جاری ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں اللہ انسانوں کو ایسی صلاحیتوں اور علوم وفنون سے نوازے گا جو ان کے لیے سوچ کی یہ راہ پید اکریں گے کہ وہ قرآن کی حقانیت کو سمجھ سکیں گے اور قرآن میں موجود اللہ کی ذات وصفات اور اس کی قدرت کاملہ کا صحیح معنیٰ میں ادراک کرسکیں گے۔آج جب نبی ﷺ کے ذریعے انہیں قرآن کی آیات سنائی جارہی ہیں تو ان کے دلوں نے اس کی حقانیت کو تسلیم نہیں کیا مگر آنے والے کل میں جب انسان کے علم وفن اور عقل وشعور میں اضافہ ہوگا، تجربات اور مشاہدات میں وسعتیں اور گہرائیاں پیدا ہوں گی تو اسی انسان کے ذہن اس بات کو قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
اللہ کیسا ہے؟ قرآن میں یہ بیان نہیں ہوا۔اللہ کی شان اور اس کی قدرت کیسی ہے ؟قرآن میں یہ بیان ہوا ہے۔قرآن میں اللہ سے متعلق جو کلام ہے وہ بہت مختصر ہے، آیۃ الکرسی، سورہ اخلاص اور دیگر آیات مل کر اللہ کی عظمت وشان بیان کرتی ہیں اور اللہ کی قدرت کاملہ کا ایک ہیولیٰ تشکیل دیتی ہیں اور ایک پیکر تراشتی ہیں تاہم یہ پیکر ایساہے کہ انسان اس کے بارے میں مکمل نہیں جان سکتا، کیونکہ اللہ کی شان اتنی اعلیٰ وارفع ہے کہ انسان کو عطاکی گئیں تمام کی تمام اِدراکی اور حسی قوتیں مل کر بھی اللہ کی شان کا ادراک نہیں کرسکتیں۔ اگر پورا قرآن صرف اور صرف اللہ کی قدرت، صفات ، ہیولیٰ اور اس کی شان ہی بیان کرتا تب بھی انسان اللہ کواس سے زیادہ نہیں سمجھ پاتا جتنا موجودہ قرآن کے ذریعہ سمجھ سکتا ہے، جس میں اللہ کاتفصیلی تعارف نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ کو نہ دیکھا جاسکتا ہے، نہ سنا جاسکتا ہے ،نہ چھوا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے ہم کلام ہوا جاسکتاہے۔ اللہ کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی صرف اس کی قدرت ہی کو محسوس کیا جاسکتا ہے، ذات کو محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ کی قدرت کواور اس کی شان کو ہر جگہ ، ہر وقت اور ہر چیز میں محسوس کیا جاسکتا ہے،قرآن کے سیپاروں میں اور آیتوں میں بھی، آفاق وانفس کی پنہائیوں میں بھی اوراس کی پنہائیوں میں بھی ، اسی طرح آفاق وانفس کی وسعتوں اور بے کرانیوں میں بھی، ذروں میں بھی اور قطروں میں بھی اور ان چیزوں میں بھی جو ذروں اور قطروں کی شکل میں نہ ہوں جیسے روح اور خوشبو، برقی رَو اور مقناطیسیت وغیرہ۔اللہ کی شان کو اور اس کی قدرت کو ان سب چیزوں میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔اس سے آگے انسان کی رسائی نہیں ہے۔
اگر یک سرِ موئے برترپرم
فروغ تجلی بسوزدپرم
قرآن ایسی گائیڈ بک ہے جو انسان کو دونوں جہانوں کے بارے میں گائیڈ کرتی ہے، دنیا کے بارے میں بھی اور آخرت کے بارے میں بھی۔ اس گائیڈ بک کی رہنما ہدایات کی روشنی میں ہر انسان دنیا وآخرت دونوں جگہ آسانی اور سہولت کے ساتھ سفر کرسکتا ہے۔اور اپنی دنیاوی زندگی کومزید خوبصورت اور اسے اپنے پیدا کرنے والے کی منشا ومرضی کے مطابق بناسکتا ہے۔
قرآن میں جزا وسزا کا بیان بھی ہے۔ جزاؤں کا بیان ہے تو وہ بھی اپنی انتہاؤں پر ہے، کہ انسان ایسی جزاؤں کےبارے میں کبھی سوچ بھی نہ سکے۔ اور سزاؤں کا ذکر ہے تو ایسی سزاؤں کا ذکر بھی ہے کہ انسان انہیں سن کر سر سے پیرتک لرز اٹھے۔جو سزائیں دنیا کی زندگی سے متعلق ہیں ممکن ہے انسان ان کے بارے میں یہ خیال کرے کہ ایسی سزائیں تو اس دنیا میں رات دن دی جاتی ہیں، جیلوں کے اندر بھی اورجیلوں کے باہر بھی، محلوں کے بنددروازوں کے پیچھے بھی اور سیاست کے ایوانوں کی کھلی چھتوں پر اور ان کے سامنے پھیلے تاحد نگاہ باغات اورصحرا نما میدانوں میں بھی۔ مگر قرآن میں آخرت سے متعلق جن سزاؤں کا بیان ہے اور جس جہنم کا ذکر ہے اور جہنم کی جن سزاؤں کا خلاصہ ہے اگر انسان ان پر سنجیدگی سے غورکرلے تو سر سے پیر تک لرزاٹھے۔پھر اس کے ساتھ ہی قرآن میں معافیوں کا اعلان بھی ہے، دنیا کے خالق کی رحمتوں کا بیان بھی ہے۔پھر یہ رحمتیں بھی اپنی انتہاؤں پر ہیں اور معافیاں بھی ۔ قرآن میں یہ بھی ہے کہ اللہ رحمان ورحیم ہے، ستار وغفار ہے ،کریم ہے اور بے نیاز ہے۔ اللہ کی رحمتیں بے حد وبے حساب ہیں،دنیا کا کوئی بھی انسان دنیا کے اپنے کسی بھی پیمانے سے اللہ کی رحمتوں کو ناپ نہیں سکتا،ناپنا تو دور کی بات ہے اللہ کی رحمتوں کی انتہاؤں کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
قرآن میں سیکڑوں آیات ہیں جو سائنس کا موضوع ہیں۔ بعض انسان کی اور کائنات کی تخلیق سے متعلق ہیں اور بعض کائنات وانسان کے راز ہائے سربستہ سے متعلق بھی ہیں ۔پھر انسان کی تخلیق کے جو مراحل ہیں ان سے متعلق ہیں۔ اور یہ سب سائنس کا موضوع ہیں۔علمائے اسلام نے سائنس کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی ورنہ موجودہ دور تک سائنس نے جتنی ترقی کرلی ہے اس کے سہارے قرآن میں تحقیقات کا ایک نیاباب کھل سکتا تھا۔ علمائے اسلام کی مہارتیں جن موضوعات میں سامنے آئی ہیں ان میں حدیث، فقہ ، لغت، عقائد، علم کلام ، منطق وفلسفہ ،تاریخ، صرف ونحو اور صنائع وبدائع جیسے علوم ہی رہے ہیں ۔ باوجود اس کے کہ مسلمانوں میں سائنسی علوم نے اپنے عروج کا زمانہ دیکھا ہے اور مسلمانوں میں اعلیٰ پائے کے درجنوں سائنسداں بھی پیدا ہوئے ہیں پھر بھی ایسا ہوا کہ قرآنی تشریحات میں سائنسی علوم کو بار نہیں مل سکا۔یہ ایک قومی المیہ رہا اور تاحال یہ المیہ ہی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 تا 11 دسمبر 2021