پروفیسر سائی بابا کی دس سال بعد رہائی
شک کی بنیاد پر ناقابلِ ضمانت قید ، حقوقِ انسانی کو پامال کرنے کے مترادف ہے
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
ملزم کو ضمانت دی جائے اور قید استثنائی ہو نہ کہ قید یقینی ہو اور ضمانت استثنائی !
پچھلے دنوں ممبئی ہائی کورٹ نے پروفیسر سائی بابا پر لگائے گئے الزامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم جاری کردیا ہے۔ ماؤسٹوں سے تعلقات کے شک میں دلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا کو 2014 میں گرفتار کیا گیا تھا، اس وقت سے اب تک یعنی رہائی کا فیصلہ آنے تک وہ جیل میں ہی تھے، یعنی تقریباً دس سال انہوں نے جیل ہی میں گزاردیے، اور پھردس سال بعد ممبئی ہائی کورٹ نے ان پر لگائے گئے الزام کو غلط قرار دیتے ہوئے انہیں جیل سے رہا کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ایک ایسا شخص جو جسمانی طور پر معذور ہے جس کا جسم تقریباً 80 فیصدمعذور ہے اور جو ملک کی سرکردہ یونیورسٹی میں پروفیسر کی خدمات انجام دے رہا تھا محض شک کی بنیاد پر اسے گرفتار کیا جاتا ہے اور اس پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی فرد جرم عائد کی جاتی ہے اور ملک کے بدنام زمانہ قانون یو اے پی اے کے تحت گرفتار کرلیا جاتا ہے اور دس سال تک مقدمہ چلتا ہے! اس مقدمے میں مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے ماؤسٹوں سے مل کر ہندوستان کے خلاف بندوق لے کر لڑائی لڑی، یہ انکاؤنٹروں میں بھی شامل رہے، پولیس کے خلاف انہوں نے ماؤسٹوں کا ساتھ دیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو تقریباً 80 تا 90 فیصد جسمانی طور پر معذور ہے بھلا وہ کیسے بندوق لے کر جنگلوں میں ماؤسٹوں کا ساتھ دیتے ہوئے پولیس کے خلاف لڑا ہوگا؟ بات عقل سے پرے ہے، محض ماؤسٹوں سے تعلقات ہونے کے شک کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا اور دس سال قید میں رکھا گیا، بالآخر ممبئی ہائی کورٹ انہیں ان تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے رہائی کا حکم دے دیا۔ یاد رہے کہ یہ یو اے پی اے ایک ایسا قانون ہے جس کے تحت شک کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو گرفتار کیا جاسکتا ہے اور اسے ضمانت بھی نہیں دی جاتی۔
2022 میں بھی ممبئی ہائی کورٹ نے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا لیکن حکومت نے ان کی رہائی کے خلاف دوسرے ہی دن سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو سپریم کورٹ نے بھی اسی دن ان کی رہائی پر روک لگادی تھی۔ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ ممبئی ہائی کورٹ نے انہیں رہا کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کا اس سلسلے میں کیا اقدام ہوتا ہے۔ بہر حال اس معاملے میں چند سوالات غور طلب ضرور ہیں۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کےخلاف سخت قوانین بنائے جانے چاہئیں، ایسے لوگ اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کرلیں کہ دہشت گردی کے خلاف سخت قوانین ہونے تو چاہئیں لیکن اس کی آڑ میں بے گناہوں کو اذیت دینا ،ان پر بے بنیاد الزامات لگا کر گرفتار کرنا، محض شک کی بنیاد پر دہشت گرد مخالف قانون کے تحت انہیں قید میں رکھنا، یہ کہاں تک انصاف پر مبنی ہے؟ آپ نے مطالبہ تو بس یہ کیا کہ دہشت گردی مخالف قانون بنے لیکن بے گناہوں کو اس کی سزا نہ ملے اس جانب توجہ ہی نہیں دی، آپ نے حکومت کو کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ جسے چاہے اسے گرفتار کر سکتی ہے اور وہ بھی محض شک کی بنیاد پر، جن کے گھر پر ایسا لٹریچر پایا گیا جو حکومت کی نظر میں قابل اعتراض ہے، انہیں گرفتار کیا جاتا ہے، فقط کچھ اشتہاری مواد ملنے کی بنیاد پر یہ مان لینا کہ انہیں کسی ایسی تنظیم سے ہمدردی ہے جو ملک مخالف ہے ،پھر اسی بنیاد پر انہیں اتنے سخت قوانین کے تحت گرفتار کرنا جس میں ملزم کو ضمانت بھی نہیں دی جاتی کہاں تک انصاف پر مبنی ہے؟ جب کہ قانون کی روح یہ کہتی ہے کہ ملزم کو ضمانت ملے اور جیل تو استثنائی صورت ہے۔ لیکن یہاں تو صورت حال بالکل الٹی ہوئی ہے، جیل کسی بھی صورت میں یقینی بنائی جاتی ہے اور ضمانت استثنائی صورت میں دی جاتی ہے۔ کم از کم یو اے پی اے جیسے قانون کی یہی حالت ہے، ایسے سیکڑوں ملزمین جن کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر یو اے پی اے قانون کے تحت الزامات لگائے گئے ہیں وہ سب کئی سال سے ضمانت کے منتظر ہیں، کوئی دس سال سے قید میں ہے تو کوئی آٹھ سالوں سے جیل کی صعوبتیں برداشت کررہا ہے۔ ایسی صورت میں سماجی حقوق کی کیا صورت حال ہوگی اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ محض دہشت گرد تنظیم سے راست تعلقات رکھنے کے شک کی بنیاد پر یو اے پی اے جیسے خطرناک قانون کے تحت فرد جرم کیوں کر عائد کی جاسکتی ہے؟ اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ کیا ایسے ملزم کوضمانت دینے سے انکار کیا جاسکتا ہے؟ کیا کئی سال تک اسے قیدی بنا کر رکھا جاسکتا ہے؟ یہ اور اس قسم کے کئی گمبھیر سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں۔ اگر ایسی ہی صورت حال رہی تو پھر ملک میں کوئی بھی حکومت کی غلط پالیسیوں پر سوال نہیں اٹھا سکتا، حکومت کے خلاف آواز اٹھانا، سوال کرنا ہی اگر جرم قرار دیا جائے گا تو ملک میں جمہوری اقدار کہاں باقی رہیں گے؟ حکومت سے سوال کرنے کو دہشت گردی قرار دینا فاشسٹ حکمرانوں کا کام تو ہو سکتا ہے جمہوری نظام چلانے والوں کا نہیں۔ اختلاف کو جرم کی طرف دھکیلنا جمہوریت کے خلاف ہے، دہشت گردی سے نمٹنے کے نام پر مخالفین حکومت کو، ملک مخالف قرار دینا، اینٹی نیشنل قرار دینا اور سخت ترین قوانین کے تحت ان پر الزمات عائد کرنے سے ملک مضبوط نہیں ہوگا بلکہ ملک کا جمہوری نظام ہی تباہ ہو جائے گا۔ بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے سے یہی بات واضح ہوتی ہے۔ پروفیسر سائی بابا کے فیصلے میں بامبے ہائی کورٹ نے یہی کہا کہ ان پر لگائے گئے الزامات کے کوئی ثبوت نہیں ہیں، محض شک کی بنیاد پر دس سال قید اور وہ بھی یو اے پی اے جیسے قانون کے تحت قید کوئی معمولی قید نہیں ہوتی، بغیر کسی حفاظتی اقدامات کے اس طرح کے خطرناک قانون کا شک کی بنیاد پر اطلاق کرنا انسانی حقوق کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 مارچ تا 23 مارچ 2024