پریاگ راج قتل کا معاملہ: ایک خاندان کے چار افراد کے قتل کے الزام میں آٹھ اعلیٰ ذات کے افراد رہا، ایک دلت نوجوان کو عدالتی حراست میں بھیجا گیا

نئی دہلی، نومبر 30: دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق اتر پردیش پولیس نے پیر کے روز پریاگ راج ضلع کے گوہری گاؤں میں درج فہرست ذات کے خاندان کے چار افراد کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار تمام آٹھ اعلیٰ ذات کے مردوں کو رہا کر دیا۔ تاہم پولیس نے اس معاملے میں تین دلت نوجوانوں کو حراست میں لے لیا ہے۔

جمعرات کی صبح ایک خاندان کے چار افراد کو قتل کیا گیا تھا۔ پولیس نے ایک 50 سالہ شخص، اس کی 45 سالہ بیوی اور ان کے دو نابالغ بچوں کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دی تھیں۔ پولیس نے ابتدائی طور پر 11 لوگوں کے خلاف الزامات طے کیے تھے، جن میں آٹھ اعلیٰ ذات کے تھے اور تین دلت۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پولیس نے پیر کے روز کہا کہ باپ بیٹے کو کلہاڑی کے وار سے قتل کیا گیا جو کہ جائے وقوعہ سے قبضے میں لیا گیا تھا، جب کہ ماں کے سر پر کند چیز سے وار کیا گیا تھا اور بیٹی کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔

پریاگ راج کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سروشریسٹھ ترپاٹھی نے کہا کہ ڈاکٹروں کو شبہ ہے کہ نابالغ لڑکی کی عصمت دری کی گئی تھی کیوں کہ انھیں اس کے اعضاء پر ’’مردانہ مادہ‘‘ پایا ہے۔

پولیس نے یہ بھی کہا کہ ایک 19 سالہ نوجوان، جو تین زیر حراست دلت مردوں میں سے ایک ہے، خاندان کے قتل اور نابالغ لڑکی کی عصمت دری کرنے کا مرکزی ملزم ہے۔ ملزم کو عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا ہے۔ نامعلوم پولیس حکام نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ دیگر دو کو جلد ہی رہا کر دیا جائے گا۔

اتوار کو پریاگ راج کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس پریم پرکاش نے کہا تھا کہ 19 سالہ نوجوان، لڑکی کا پیچھا کر رہا تھا۔ ’’وہ لڑکی کو ہراساں کر رہا تھا۔۔۔ آخری پیغام اور حالاتی شواہد کی بنیاد پر اسے گرفتار کیا گیا۔‘‘

آخری پیغام جو 16 سالہ لڑکی نے اس دلت نوجوان کو بھیجا تھا وہ یہ تھا ’’میں تم سے نفرت کرتی ہوں‘‘۔

تاہم ایک نامعلوم سینئر پولیس اہلکار نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ وہ فارنسک اور ڈی این اے رپورٹس کا انتظار کر رہے ہیں کیوں کہ ان پر مشتبہ شخص کے خلاف ثبوت کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہے۔

وہیں 19 سالہ مرکزی ملزم کی بہن نے الزام لگایا کہ اسے اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیوں کہ وہ ’’دلت اور غریب‘‘ ہے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ جب اس خاندان کو قتل کیا گیا تو اس کا بھائی گھر پر تھا۔

دریں اثنا قتل کے متاثرین کے متعلقین نے کہا کہ انھیں ان آٹھ اعلیٰ ذات کے مردوں کی طرف سے ہراساں کیے جانے کا خدشہ ہے جنھیں پیر کو رہا کیا گیا۔ لواحقین نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس اعلیٰ ذات کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو متوفی کے خاندان کے ساتھ زمین کے تنازع میں ملوث ہیں۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق قتل کے متاثرین کے لواحقین نے 19 سالہ دلت شخص کی گرفتاری پر بھی شبہ ظاہر کیا۔

مقتول کے بھائی نے پوچھا ’’ایک لڑکا کیسے چار لوگوں کو خود ہی مار سکتا ہے؟ اور اگر دوسرے لوگ بھی ملوث تھے تو وہ کہاں ہیں، کون ہیں؟… اور اگر لڑکے کو میری بھانجی [قتل کی گئی 16 سالہ لڑکی] کے ساتھ کوئی مسئلہ تھا، تو وہ اسے مارتا، باقی تینوں کو کیوں؟‘‘