پریاگ راج: ہندوتوا شدت پسندوں نے ’’سنت سمیلن‘‘ میں ہریدوار نفرت انگیز تقاریر کیس کے ملزمین کی رہائی اور ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا مطالبہ کیا

نئی دہلی، جنوری 31: انڈیا ٹوڈے کی خبر کے مطابق ہندوتوا شدت پسند لیڈروں نے ہفتہ کو یتی نرسنہا نند گیری اور شیعہ وقف بورڈ کے سابق سربراہ جتیندر نارائن تیاگی کی رہائی کا مطالبہ کیا، جنھیں نفرت انگیز تقاریر کے معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے۔

مذہبی رہنماؤں نے یہ مطالبہ اتر پردیش کے پریاگ راج شہر میں ایک ’’سنت سمیلن‘‘ میں کیا۔ یہ کانفرنس اتراکھنڈ کے ہریدوار شہر میں اسی طرح کی ’’دھرم سنسد‘‘ کے انعقاد کے ایک ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد منعقد کی گئی تھی، جس کے دوران ہندوتوا گروپ کے اراکین اور پیروکاروں نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کی ترغیب دی تھی۔

اتراکھنڈ پولیس نے تیاگی کو 13 جنوری کو اور گیری کو 15 جنوری کو ہریدوار کیس کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔ تیاگی نے حال ہی میں ہندو مذہب اختیار کیا تھا اور اپنا نام تبدیل کر لیا تھا۔ وہ پہلے وسیم رضوی کے نام سے جانے جاتے تھے۔

ہفتہ کو ’’سنت سمیلن‘‘ کے شرکاء نے تین قراردادیں منظور کیں – ہندوستان کو ایک ہندو ملک قرار دینا، مذہب کی تبدیلی کے لیے سزائے موت اور گیری اور تیاگی کی غیر مشروط رہائی۔

نیوز پورٹل Ten Directions News کی ایک ویڈیو کے مطابق ایک سادھو آنند سوروپ نے اس تقریب میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ اگر ’’ہمارے دو مذہبی جنگجوؤں’’ [گیری اور تیاگی] کو ایک ہفتے میں رہا نہیں کیا گیا تو احتجاج بہت جارحانہ ہو جائے گا۔ آنند نے مزید کہا ’’یہ ممکن ہے کہ اسمبلی میں جیسا بھگت سنگھ نے کیا تھا، کچھ ویسا ہی ہندو جنگجوؤں کی گرفتاریوں کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔‘‘

سادھو 8 اپریل 1929 کو دہلی میں سنٹرل لیجسلیٹو اسمبلی کے اندر کم شدت والے بم پھینکنے والے آزادی پسندوں بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت کا حوالہ دے رہا تھا۔

آج تک کی خبر کے مطابق مہاتما گاندھی کے حوالے سے نریندر نند نامی ایک اور سادھو نے کہا کہ ’’قوم کا بیٹا‘‘ ہو سکتا ہے لیکن قوم کا باپ نہیں ہو سکتا۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق نریندر نند نے مزید کہا کہ اسلامی جہاد انسانیت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے چین جیسی پالیسیوں کو اپنانا ہوگا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت نہیں ہیں اور مطالبہ کیا کہ ان کی اقلیتی حیثیت کو ختم کیا جائے۔