’’پولیس نے ہمیں مسجد کے دروازے بند کرنے پر مجبور کیا‘‘: حکام کے ذریعے سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں نماز جمعہ کی اجازت نہیں دیے جانے پر لوگوں میں غم و غصہ
سرینگر، اکتوبر 16: جمعہ کے روز حکام کی جانب سے جامع مسجد میں داخلے کی اجازت نہ دینے کے بعد دل دہلا دینے والے مناظر دیکھنے میں آئے۔
جمعہ کے روز سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں اجتماعی نماز کی اجازت نہیں دی گئی۔ خواتین مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہ ملنے پر رو پڑیں۔ دور دراز علاقوں سے عقیدت مند طویل عرصے کے بعد جامع مسجد میں نماز پڑھنے کی امید لے کر پرانے سرینگر شہر پہنچے تھے۔
انجمن اوقاف جامع مسجد نے کہا کہ ریاستی حکام نے جامع مسجد میں نماز جمعہ کی اجازت نہیں دی۔
اوقاف نے کہا کہ پورے علاقے میں صبح سے ہی فورسز کی بھاری تعیناتی کی گئی تھی۔
انجمن نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے ملازمین کو مسجد کے دروازے بند کرنے پر مجبور کیا۔
انجمن نے کہا ’’نمازیوں کے ایک بڑے گروہ نے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے جو مسجد کے باہر جمع ہوئے تھے اس آمرانہ اقدام کے خلاف شدید احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ انھیں نماز پڑھنے کے لیے اندر جانے کی اجازت دی جائے۔‘‘
انجمن نے مزید کہا کہ جامع مسجد میں مسلمانوں کو جمعہ کی نماز پڑھنے سے روکنے کے لیے کووڈ وبائی مرض کا بہانہ اب مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔
انھوں نے کہا ’’یہ افسوس ناک اور ناگوار ہے کہ وادی کے مسلمانوں کو وحشیانہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مرکزی مسجد میں نماز پڑھنے سے روکنا تکلیف اور غم کا سبب بنتا ہے۔ وادی کے مسلمان اس ناانصافی اور مذہبی آزادی میں مداخلت کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔‘‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب جامع مسجد کو نماز کے لیے بند کیا گیا ہو۔ 5 اگست 2019 کے بعد مسجد کو مسلسل 17 ہفتوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا جب مرکز نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ 2016 کی بدامنی کے دوران، پرانے سرینگر شہر کے نوہٹہ علاقے میں واقع تاریخی جامع مسجد میں 16 ہفتوں تک جمعہ کی نماز نہیں ہو سکی تھی۔
کشمیر کے معروف مذہبی پیشوا اور اعتدال پسند حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق 5 اگست 2019 سے گھر میں نظر بند ہیں۔