پی ایچ ڈی : عزت پانے کے لیے عزت نفس کا سودا نہ کریں

ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے پہلے کے کچھ کڑوے سچ

افروز عالم ساحل

آج جامعہ کو یاد کر رہا ہوں۔ اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ وجہ آپ کو حیران بھی کر سکتی ہے۔ مجھے بھی اس وجہ نے کافی وقت تک پس و پیش میں رکھا۔ مگر اس وجہ پر آنے سے پہلے جامعہ سے اپنے رشتے کی شروعات کو یاد کرتا چلوں۔

مجھے یاد ہے، جب جامعہ میں میرا داخلہ بی اے میں ہوا تھا تو ابا بہت ناراض ہوئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مجھے بتیا سے ہی آئی ٹی آئی کر لینا چاہیے دلی جانے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن میں نے جامعہ سے بیچلر مکمل کر لیا۔ اب گھر والوں کی خواہش تھی کہ گریجویشن کر لیا ہے تو اب روزگار سے لگ جاؤں۔ لیکن میں نے ان کی خواہش کے برعکس ایم اے میں داخلہ لے لیا۔ گھر والے ناراض تھے کہ معلوم نہیں یہ اور کتنا پڑھے گا؟

ایم اے آخری سال کا طالب علم تھا۔ تب ابا نے پوچھا کہ اب آگے کیا کرو گے؟ میں نے کہا میں ایم فل کروں گا۔ پھر یہ سوچ کر کہ انہیں ایم فل کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا ہو گا، میں نے کہا پی ایچ ڈی کروں گا۔ انہوں نے پوچھا پی ایچ ڈی کر کے کیا ہو گا؟ میرے لیے اس وقت ابا کو سمجھانا مشکل تھا۔ سو میں نے بس یوں ہی کہہ دیا کہ میرے نام کے آگے ڈاکٹر لگ جائے گا۔ بولے، مطلب تم لوگوں کا علاج کرو گے؟

ابا کا یہ سوال سن کر مجھے ہنسی آگئی۔ تب تک وہ بھی سمجھ چکے تھے کہ شاید کچھ گڑبڑ سوال پوچھ لیا ہے۔ تبھی وہ اچانک بولے۔ اچھا سمجھ گیا، تم مشرا جی کی طرح ڈاکٹر بنو گے؟

اب مشرا جی کی کہانی بڑی دلچسپ تھی۔ بیچارے ہندی میں پی ایچ ڈی کر کے گاؤں اپنے گھر لوٹے۔ فوکسبازی میں گھر کے باہر بورڈ لگا دیا۔ "ڈاکٹر راما شنکر مشرا” گاؤں میں ان کے نام کی خوب دھوم مچی۔ ہر جگہ ان کے نام کے چرچے تھے۔ تبھی اگلے دن کے دو بجے شب گاؤں میں ایک شخص شدید بیمار ہوا۔ گاؤں کے تمام لوگ جمع ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے۔ گاؤں کے تمام لوگوں نے ان کے گھر پر دستک دی۔ آنکھ ملتے ہوئے ان کی بیگم نے دروازہ کھولا۔ اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر گھبرا گئیں۔ سب نے ایک ساتھ پوچھا۔ ڈاکٹر صاحب ہیں؟

انہوں نے کہا ہاں ہیں۔ اب ڈاکٹر صاحب باہر آئے۔ اتنے بڑے ہجوم کو دیکھ کر ان کی نیند کوسوں دور بھاگ گئی۔ لوگوں نے اس بیمار شخص کی تکلیف بتائی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کا سیدھا سا جواب تھا۔ تو میں کیا کروں؟ اسے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔ اتنا سننا تھا کہ لوگ بھڑک گئے۔ بہرحال، بڑی مشکل سے اس ہجوم سے ان کی جان بچ پائی۔ اگلے دن گھر کے باہر کا نیم پلیٹ بھی غائب تھا۔

مشرا جی کی اس کہانی کے باوجود میں نے ایم فل میں داخلہ لیا۔ میں نے اب تک تعلیم کا مطلب یہی سمجھا تھا کہ تمہاری پڑھائی اسی وقت فائدہ مند ہے جب تم کسی مظلوم کے کام آؤ۔ بس میں نے اپنی یونیورسٹی انتظامیہ سے کچھ تحریری سوال کر ڈالے۔ یونیورسٹی کو میرا سوال پسند نہیں آیا۔ میں نے اس سوال کو این ڈی ٹی وی کے پرائم ٹائم کے بحث میں اٹھایا۔ بس پھر کیا تھا لیگل نوٹس پانے کا سکھ حاصل ہو گیا۔ یہ دو پیسے کا انسان اب پچاس لاکھ کا بن چکا تھا۔

ادھر بے زبان طلبہ کو آواز دینے یعنی طلبہ یونین کی بحالی کی کوشش میں مَیں عدالت چلا گیا تو عدالت میں کہا گیا کہ میں تو پڑھنے والا طالب علم ہوں ہی نہیں۔ حاضری صرف 47فیصد ہے۔ اتفاق سے نوٹس بورڈ پر چسپاں کاغذ 74 فیصد حاضری بتا رہا تھا۔ بس میں نے وہ کاغذ ہی نوٹس بورڈ سے غائب کر دیا۔ پھر میں نے ایک آر ٹی آئی داخل کر کے یہ جانکاری مانگ لی کہ مجھے میری حاضری کے ساتھ ساتھ سنٹر میں موجود تمام اساتذہ کی حاضری بھی دی جائے۔ بس پھر کیا تھا، انسانی حقوق کی بڑی بڑی باتیں کرنے والوں کی سٹی گم ہو گئی۔ کہنے لگے کہ یہ تم نے کیا کر دیا؟ ہماری حاضری مانگنے کی کیا ضرورت تھی؟

خیر، یہ کہانی کافی لمبی ہے اور میں یونیورسٹی کا پہلا طالب علم بن گیا، جس نے یہ یونیورسٹی لکھ کر چھوڑ دی کہ یہ یونیورسٹی میرے لائق نہیں ہے یا میں اس یونیورسٹی کے لائق نہیں ہوں۔ حالانکہ بعد میں مجھے اسی یونیورسٹی سے نوکری کی پیشکش کی گئی، کہا گیا کہ اپنا ایم فل مکمل کرلو۔ لیکن مجھے یہ گوارا نہیں ہوا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ میرے اصولوں کے خلاف ہے۔

اب اس کہانی کو کئی سال گزر چکے ہیں۔ یونیورسٹی کا سارا نظام بدل چکا ہے۔ میں بھی سات کتابیں لکھ چکا ہوں۔ کئی ریسرچ پیپر شائع ہو چکے ہیں۔ کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ تم پی ایچ ڈی کر ہی لو۔ میں نے بھی سوچا کہ دوستوں کا مشورہ نیک ہے۔ کیوں نہ جو خواب ایم اے میں دیکھا تھا، اسے پورا کر لیا جائے۔ بس بغیر نیٹ جے آر ایف کے پی ایچ ڈی کا فارم بھر دیا۔ تھوڑی سی محنت کے بعد ٹیسٹ کوالیفائی کر لیا۔

میں نے اب تک سن رکھا تھا کہ پی ایچ ڈی کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اگر آپ کے رشتہ دار یونیورسٹی میں پروفیسر، ریڈر یا لیکچرار ہوں۔لیکن مجھے اس بات پر یقین نہیں تھا، اور ویسے بھی میرے خاندان میں تو کسی نے آج تک پی ایچ ڈی کی ہی نہیں۔ میں نے سوچا کہ یونیورسٹی کے اساتذہ کیا میرے رشتہ دار سے کم ہیں؟ آخر کتنا اعتماد کرتے ہیں وہ مجھ پر؟ اس لیے میں نے سوچ لیا کہ ٹیسٹ کوالیفائی کرکے کسی سے نہیں کہوں گا۔ سیدھے انٹرویو کے لیے جاؤں گا۔ اگر میرے اندر قابلیت ہوگی تو یقیناً کوئی نہ کوئی پروفیسر مجھے ضرور لے گا۔ لیکن دوستوں نے صاف طور پر بتا دیا تھا کہ ایسی غلطی کبھی نہ کرنا۔ انٹرویو میں جانے سے پہلے کسی نہ کسی پروفیسر سے بات ضرور کر لینا۔۔۔

امتحان کوالیفائی کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آگئی کہ پی ایچ ڈی کرنے کے لیے یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ آپ کتنے قابل ہیں۔ آپ نے کتنے ریسرچ پیپر یا کتابیں لکھی ہیں؟ بلکہ یہ بات معنی رکھتی ہے کہ آپ پروفیسر کے پیچھے کتنے دنوں سے چکر کاٹ رہے ہیں۔ آپ ان کے رشتہ دار ہیں یا نہیں؟ آپ کتنا ان کی ہاں میں ہاں ملا سکتے ہیں۔۔۔

ان تمام باتوں کے باوجود میں خوش قسمت رہا کہ مجھے ایک بیحد شاندار گائیڈ ملے جن کا میں رشتہ دار نہیں تھا۔ کبھی ان کے آگے پیچھے چکر نہیں لگائے۔ کبھی ان کی جی حضوری نہیں کی لیکن پھر بھی انہوں نے مجھے اس قابل سمجھا کہ میں ان کی رہنمائی میں پی ایچ ڈی کر سکتا ہوں۔

میں ان کا شکر گزار ہوں کہ اب میں پی ایچ ڈی کے لیے منتخب ہو چکا ہوں۔ لیکن ایک سوال بار بار میرے ذہن میں گھوم رہا ہے کہ آخر ایسا کب تک چلے گا؟ آخر تعلیم یافتہ نوجوان یہ سوال کیوں نہیں اٹھاتے کہ بھائیو، پی ایچ ڈی کے لیے میری قابلیت تو دیکھو۔ اگر میں اس قابل نہیں ہوں تو مجھے پی ایچ ڈی کرنے کا حق مت دو۔ آخر ہمارے ملک کی اعلیٰ تعلیم میں اقربا پروری کب تک جاری رہے گی؟ کیا قابلیت کوئی معنی نہیں رکھتی؟ یا پھر میرے اندر صرف ایک ہی قابلیت ہونی چاہیے کہ میں پروفیسر کے آگے پیچھے کتنا گھوم سکتا ہوں یا ان کے گھر کا کتنا کام کر سکتا ہوں؟

میں جانتا ہوں کہ میرے گائیڈ مجھ سے اپنے گھر کے کام نہیں کرائیں گے۔ مجھے شاید ان کے آگے پیچھے گھومنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ لیکن پھر بھی میں نے فیصلہ کیا کہ میں پی ایچ ڈی نہیں کروں گا۔ مجھے اپنے نام کے آگے فرضی ڈاکٹر نہیں لگانا ہے، جو معاشرے میں پائی جانے والی معمولی بیماریوں کا علاج تک نہ کر سکے۔

سوال یہ بھی ہے کہ آپ نے کتنے پروفیسروں کو حکومت کے ظلم کے خلاف بولتے یا لکھتے دیکھا ہے؟ آپ نے کتنے پروفیسروں کو جے این یو میں ’کاؤنٹر ٹیررازم‘ کے نام سے شروع کیے گئے نئے کورس کے خلاف بولتے یا لکھتے دیکھا ہے؟

جب ہم اتنا پڑھ لکھ کر بھی اس لائق نہیں بن پائے کہ حق کی تائید میں بول سکیں یا لکھ سکیں تو پھر ایسی ڈگری کا فائدہ ہی کیا ہے؟ آخر کس کام کے ہیں یہ دانشور؟ یونیورسٹیوں میں اگر کچھ غلط ہو رہا ہے تو اس کے خلاف کون بولے گا؟ کم از کم ان پروفیسروں کی یہ ذمہ داری تو بنتی ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز بلند کریں۔

ایسی ڈگری کا کیا فائدہ جہاں ایک پروفیسر کے سامنے ایک طالب علم یہ کہے کہ سر! میں نے کئی تحقیقی مقالے لکھے ہیں۔ میں جس عنوان پر پی ایچ ڈی کرنے جارہا ہوں اسی سے متعلق میرے ایک ریسرچ پیپر کا حوالہ مشہور مورخ رامچندر گوہا جی نے اپنی نئی کتاب میں دیا ہے، اور یہ سنتے ہی پروفیسر بھڑک جائے؟ ایسا میرے ساتھ ہوا ہے۔ سو ایسے سسٹم میں ڈگری لے کر فائدہ بھی کیا ہے جہاں پہلے سے ہی لوگوں کے ذہن میں یہ بات بھری ہو کہ میں کسی کو کاٹ کر کسی کو قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

یہاں تو ٹیچر کی انا کو یہ سوچ کر ہی چوٹ لگ جاتی ہے کہ میرا شاگرد مجھ سے بڑا کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کا کام مجھ سے زیادہ اہم کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ ٹیچر پہلے ہی آپ کو بتا دے گا کہ تم میرے بارے میں معلوم کر لینا اور اپنی انا کو گھر چھوڑ کر آنا۔ جبکہ حقیقت میں اسی کی انا کو ٹھیس پہنچ رہی ہوتی ہے۔

ٹیچر آپ کو بتائے گا کہ میں نے کبھی اپنے گائیڈ یا سپروائزر کو بیگ اٹھانے نہیں دیا جبکہ در حقیقت وہ چاہتا ہی یہ ہے کہ آپ اس کا بیگ اٹھائیں۔ اور یہ سب کچھ استاد شاگرد کی روایت کے نام پر ہوتا ہے۔ آخر طلبہ کا استاد شاگرد کی روایت کے نام پر کب تک استحصال ہوتا رہے گا؟

لڑکے تو برداشت کر لیتے ہیں لیکن سنا ہے کہ لڑکیوں کو بعض جگہوں پر جسمانی زیادتی کا بھی شکار ہونا پڑتا ہے۔ وہ بیچاریاں کچھ بول بھی نہیں پاتیں نہ کچھ کر پاتی ہیں۔ آخر ایسا کب تک چلتا رہے گا؟

ایسے سسٹم میں مجھے ڈگری نہیں لینی ہے۔ یہ ڈگری میرے کسی کام کی نہیں ہے۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مجھے پی ایچ ڈی میں داخلہ نہیں لینا ہے۔ لیکن پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے والوں سے میری اپیل ہے کہ وہ میرے سوالوں پر غور کریں۔ اگر کوئی ٹیچر آپ سے اپنا کام کروائے تو پلٹ کر کہہ دیجیے گا کہ یہ میرا کام نہیں ہے، میرا کام ریسرچ ہے۔

یہ تبھی ہو گا جب آپ کا انتخاب آپ کی قابلیت کی بنیاد پر ہو گا۔ اگر آپ نے چمچہ گیری کرکے داخلہ لیا ہے تو آپ یہ نہیں کر پائیں گے۔ اس کے باوجود اگر کوئی آپ کا استحصال کرتا ہے تو اس کے خلاف آواز اٹھائیے۔ ممکن ہو تو ایف آئی آر درج کروائیے کیونکہ وہ استاد نہیں ہے بلکہ استاد کی شکل میں بھیڑیا ہے۔ اور ہاں! یہ ضرور سوچیے کہ آپ کی پی ایچ ڈی اس ملک کے عام لوگوں کے کس طرح کام میں آئے گی۔

جامعہ کی تاریخ اس ملک کی جنگ آزادی کی تاریخ ہے۔ جامعہ نے اس ملک اور معاشرے کو ایک نئی سمت دی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آج جب کچھ عناصر اس عظیم تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کرنے پر آمادہ ہو جائیں، تو پھر پوری طاقت سے آواز اٹھائی جائے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ آواز کہاں تک جائے گی لیکن یہ ایک آگ ہے۔ آج میرے سینے میں جل رہی ہے کل آپ کے سینے میں جلے گی۔ اسے جلنا ہی چاہیے۔ دشینت کمار کے الفاظ میں:

میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی

ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہیے

 

***

 آپ نے کتنے پروفیسروں کو حکومت کے ظلم کے خلاف بولتے یا لکھتے دیکھا ہے؟ آپ نے کتنے پروفیسروں کو جے این یو میں ’کاؤنٹر ٹیررازم‘ کے نام سے شروع کیے گئے نئے کورس کے خلاف بولتے یا لکھتے دیکھا ہے؟
جب ہم اتنا پڑھ لکھ کر بھی اس لائق نہیں بن پائے کہ حق کی تائید میں بول سکیں یا لکھ سکیں تو پھر ایسی ڈگری کا فائدہ ہی کیا ہے؟ آخر کس کام کے ہیں یہ دانشور؟ یونیورسٹیوں میں اگر کچھ غلط ہو رہا ہے تو اس کے خلاف کون بولے گا؟ کم از کم ان پروفیسروں کی یہ ذمہ داری تو بنتی ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز بلند کریں


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021