پٹنہ ہائی کورٹ نے بہار حکوت کے ذات پات پر مبنی سروے پر 3 جولائی تک روک لگائی
نئی دہلی، مئی 4: پٹنہ ہائی کورٹ نے جمعرات کو بہار میں جاری ذات پات پر مبنی سروے پر 3 جولائی تک روک لگا دی۔
ریاست میں نتیش کمار کی قیادت والی مخلوط حکومت نے 7 جنوری کو ذات پات کی بنیاد پر سروے شروع کیا تھا۔
سروے کے پہلے مرحلے میں ریاست کے کل گھرانوں کی گنتی شامل تھی۔ آرڈر کے وقت سروے کا دوسرا مرحلہ جاری ہے۔ دوسرے مرحلے کے ایک حصے کے طور پر شمار کنندگان تمام ذاتوں، مذاہب اور معاشی پس منظر کے لوگوں کے ساتھ ساتھ ریاست کے اندر اور باہر رہنے والے خاندان کے افراد کی تعداد جیسے دیگر پہلوؤں سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کر رہے تھے۔
تاہم ہائی کورٹ کے سامنے تین درخواستیں دائر کی گئی تھیں، جن میں سے ایک یوتھ فار ایکویلٹیی نامی تنظیم کی طرف سے دائر کی گئی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ذات پر مبنی سروے مردم شماری کے مترادف ہے، جس پر صرف مرکز کا استحقاق ہے۔
درخواست گزاروں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ سروے کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا کو انتخابی فہرستوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے سیاسی جماعتوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
ایک اور عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ سروے ووٹ بینک کی سیاست کے لیے ذات پات کے ساتھ لوگوں کے درمیان سماجی انتشار پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
تاہم ایڈوکیٹ جنرل پی کے شاہی نے بہار حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ یہ کوئی لازمی مشق نہیں ہے اور جواب دہندگان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا ڈیٹا شیئر کرنے سے انکار کر دیں۔
چیف جسٹس کے ونود چندرن اور جسٹس مدھریش پرساد کی ڈویژن بنچ نے جمعرات کو کہا کہ پہلی نظر میں ریاست کے پاس ذات پر مبنی سروے کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
عدالت نے کہا ’’ہم جاری کردہ نوٹیفکیشن میں یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حکومت ریاستی اسمبلی کی مختلف جماعتوں، حکمراں جماعت اور اپوزیشن پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ ڈیٹا شیئر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو کہ بہت تشویش ناک بات ہے۔‘‘
بنچ نے یہ بھی کہا کہ رازداری کے حق کا مسئلہ بھی اس سروے سے پیدا ہوتا ہے جس کی جانچ کی ضرورت ہے۔
ہائی کورٹ کا یہ حکم تقریباً ایک ہفتہ بعد آیا جب سپریم کورٹ نے اسے یوتھ فار ایکویلیٹی کی عبوری درخواست پر جلد سے جلد فیصلہ کرنے کو کہا۔ ہائی کورٹ کی طرف 18 اپریل کو اس معاملے میں عبوری راحت دینے سے انکار کیے جانے کے بعد تنظیم نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔
سروے کے پہلے مرحلے کے آغاز پر وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے کہا تھا کہ اس مشق سے تمام برادریوں کو فائدہ پہنچے گا۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ سروے ریاست میں ذاتوں اور برادریوں کا تفصیلی ریکارڈ ہوگا، جس سے ان کی ترقی میں مدد ملے گی۔
ہندوستان نے آخری بار 1931 میں تمام ذاتوں کے گروہوں کی آبادی کو شمار کرنے کی مشق کی تھی۔ آزاد ہندوستان میں مردم شماری کی رپورٹوں میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی آبادی کو نوٹ کرتے ہوئے اعداد و شمار شائع کیے گئے ہیں لیکن دیگر ذاتوں کے اعداد و شمار نہیں۔