پسند کی شادی اور اسلام

معاشرے میں رائج بعض غلط خیالات کی نشاندہی

حمیراعلیم

خاندان کی تشکیل اور وجود کے لیے نکاح کی مشروعیت، نکاح جیسے جائز اور مسنون عمل کی طرف ترغیب، اس کے بے شمار سماجی فوائد، اس پر اجر و ثواب کا وعدہ، ناجائز رشتوں کی قباحت و حرمت، اس کی مذمت، اس پر دنیوی سزا اور اخروی عذاب کو بیان کیا گیا اوراس طرح نکاح و شادی کے بعد ازدواجی تعلق کو نہایت مہذب شائستہ اور مطلوب طریقہ قرار دے کر اس کو نہایت آسان بنادیاگیا ہے۔
نکاح مرد اور عورت کا خالص نجی اور ذاتی معاملہ ہی نہیں، بلکہ یہ نسل انسانی کے وجود، قیامت تک اس کی بقا و دوام اور بے شمار انسانی وسماجی ضرورتوں اور تقاضوں کی فراہمی اور تکمیل کے لیے اللہ اور رسول کی طرف سے متعین کردہ نہایت مہذب اور شائستہ طریقہ ہے اس لیے آئیے جائزہ لیں کہ نکاح سے کن انسانی و سماجی ضرورتوں کی فراہمی اور تکمیل ہوتی ہے اور اس کے کیا فوائد اور اس کے نہ ہونے کے کیا نقصانات ہیں تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ نکاح اور شادی انسانوں کے لیے کیوں ضروری ہے۔
اسلام میں نکاح کو کسی نامحرم سے پیار و محبت اور جائز تعلق کی بنیاد قرار دیا گیا اور اسے زندگی کی بہت سی اہم ترین ضروریات کی تکمیل، سکون و اطمینان اور باہمی الفت و مودت کا ذریعہ بنادیا گیا۔ ’’اللہ نے تمہاری ہی نسلوں سے تمہارے لیے جوڑا بنا کر ایک دوسرے کے سکون اور آپسی پیار و محبت کا انتظام فرمایا اور اس کو اللہ کی نشانیوں میں اہم نشانی قرار دیا۔‘‘ الروم21
نکاح صرف انسانوں کی نجی ضرورت اور ان کا اختیاری مسئلہ و فیصلہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کو اللہ نے بے شمار سماجی ضرورتوں اورعفت و پاک دامنی کی خاطر مطلوب و مسنون قرار دیا اور فرمایا ” پسند آنے والی خواتین سے نکاح کرو ۔‘‘
سورہ النساء 3
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے :
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیئے۔ ‘‘ النسا
متعدد احادیث میں نکاح کرنے کا حکم مذکور ہے عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ ’’نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے جوانو کی جماعت! تم میں جو شخص خانہ داری کا بوجھ اٹھانے کی قدرت رکھتا ہو اس کو نکاح کرلینا چاہیے کیونکہ نکاح کو نگاہ کے پست ہونے اور شرمگاہ کے محفوظ رہنے میں خاص دخل ہے اور جو شخص قدرت نہ رکھتا ہو اس کو روزہ رکھنا چاہیے۔‘‘ مسلم
حدیث مبارکہ ہے:’’جب بندہ نکاح کرلیتا ہے تو آدھا دین مکمل کر لیتا ہے، اب اس کو چاہیے کہ نصف دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے ۔‘‘
اس طرح مختلف احادیث میں شادی نہ کرنے پر وعید آئی ہے ایک حدیث میں مذکور ہے کہ جو شخص باوجود تقاضائے نفس وقدرت کے نکاح نہ کرے وہ ہمارے طریقہ سے خارج ہے کیونکہ یہ طریقہ نصاری کا ہے کہ وہ نکاح کو وصول الی اللہ میں مانع سمجھ کر اسے ترک کرنے کو عبادت سمجھتے ہیں۔
ایجاب وقبول کے مخصوص الفاظ کے ذریعہ مرد وعورت کے درمیان ایک خاص قسم کا دائمی تعلق اور رشتہ قائم کرنا نکاح کہلاتا ہےجو دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کے صرف دو لفظوں کی ادائیگی سے منعقد ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نکاح کو عبادت کا درجہ دیا۔ اسے برائی سے حفاظت کا ذریعہ اور محصن قرار دیا ہے۔سورہ النساء کی آیت 25میں فرمان ربی ہے۔
’’اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں (محصنات) سے نکاح کر سکے اسے چاہیے کہ تمہاری اُن لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر لے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں اللہ تمہارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے، تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو، لہٰذا اُن کے سرپرستوں کی اجازت سے اُن کے ساتھ نکاح کر لو اور معروف طریقہ سے اُن کے مہر ادا کر دو، تاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ (محصنات) ہو کر رہیں، آزاد شہوت رانی کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں پھر جب وہ حصار نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اُس سز ا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں (محصنات) کے لیے مقرر ہے یہ سہولت تم میں سے اُن لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے جن کو شادی نہ کرنے سے بند تقویٰ کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘
تمام مذاہب میں نکاح کو حلال قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور اپنے آخری پیغمبر محمدﷺ کی زبانی جابجا نکاح کے لیے اپنے بندوں کو ترغیب دی ہے کیونکہ یہ نسل انسانی کی بقا اور افزائش کا ذریعہ بھی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے اکثر خبروں میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو قتل کر دینے کی خبر سنائی دیتی ہے۔ اسلام کسی بھی صورت میں ایسے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔اس لیے غیرت کے نام پر قتل کسی بھی طرح سے جائزنہیں ہے۔ لیکن پسند کی شادی کے بارے میں جو خیالات ہمارے معاشرے میں رائج ہیں وہ بھی غیر شرعی ہیں۔ اگر کوئی لڑکا لڑکی بات چیت میل ملاقات کے بعد ایک دوسرے کو پسند کر کے شادی کرنا چاہیں اور والدین اجازت نہ دیں تو وہ گھر سے بھاگ کورٹ میرج کر لیتے ہیں۔ احادیث میں ہے کہ نبی ؐنے لڑکا، لڑکی کی رضامندی کے بعد نکاح کی اجازت دی ہے اور اگر کسی ایک فریق کی رضامندی شامل نہ ہو تو اسے نکاح فسخ کرنے کی اجازت ہے۔
’’ایک کنواری لڑکی نبیؐ کی خدمت اقدس میں آئی اور عرض کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کسی شخص کے ساتھ زبردستی کر دیا ہے۔ آپ ؐ نے اسے اختیار دے دیا چاہے تو نکاح برقرار رکھے اور چاہے تو اسے فسخ کر دے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓسے روایت بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
2۔ بیہقی، السنن الکبری، 7: 114
رسول اللہ ﷺنے بالغہ (کنواری) اور بیوہ (یا طلاق یافتہ) عورتوں کے نکاح اس وجہ سے فاسد فرما دیے کہ اُن کے والدین نے اُن کے نکاح ان کی مرضی کے خلاف کر دیے تھے، لہٰذا نبی ﷺ نے اُن دونوں کے نکاح کو رَد کر دیا۔
حضرت عطاء بن ابی رباح سے مروی ہےکہ
رسول اللہ ﷺنے ایک بالغہ عورت اور اس کے خاوند کے مابین تفریق کروا دی کیونکہ اس کے باپ نے اپنی مرضی سےاس کا نکاح کیا تھا اور وہ اس خاوند کو ناپسند کرتی تھی۔
مگر نوجوان نسل اس کا مطلب نہایت غلط اخذ کر لیتی ہے۔ ان کے خیال میں اگر وہ کسی لڑکے یالڑکی کو دیکھتے ہیں اور وہ انہیں اچھا لگے اور ان کی بات چیت میل ملاقات شروع ہو جائے اور کئی کئی سال اس سلسلے کو جاری رکھیں اور پھر نکاح کی خواہش کریں تو یہ ہے پسند کی شادی جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ قرآن و احادیث کی رو سے عورت کو نامحرم سے ایسا پردہ کرنا چاہیے کہ اس کی زیب و زینت بھی نامحرم کے سامنے ظاہر نہ ہو اور وہ اس سے میل ملاقات اور خفیہ دوستی تو کجا غیر ضروری بات چیت بھی نہ کرے۔
سورہ نور کی آیت 31 میں ہے۔
’’اور اے نبیؐ ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘
اور مرد کو غض بصر اور نامحرم سے کسی بھی قسم کے تعلق سے منع فرمایا گیا ہے۔ حدیث کی رو سے ایک نظر غلطی سے پڑ بھی جائے تو فوراً پھیر لی جائے۔
صحیح مسلم میں ہے حضرت جریر بن عبداللہ بجلی ؓنے نبی ﷺ سے اچانک نگاہ پڑجانے کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا ’’اپنی نگاہ فورا ہٹا لو۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ مومنات چھپے دوست نہیں بناتیں ۔ایک آیت مبارکہ میں ارشاد ربانی ہے۔
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ۔
اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں زنا کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیاہے ۔ یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔
نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’جب مرد زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا ہے تواُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔
(ابوداؤد4690 )
ابوہریرہ ؓسے روایت ہے :’’تین شخصوں سے اللّٰہ تعالیٰ نہ کلام فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ اُن کی طرف نظر ِرحمت فرمائے گا اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ بوڑھازانی ،جھوٹ بولنے والا بادشاہ اور تکبر کرنے والا فقیر۔‘‘ مسلم کتاب الایمان 107
بدکاری کا مطلب صرف یہی نہیں کہ مرد و عورت ایک دوسرے کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرکے بُرائی کریں بلکہ اس کے علاوہ انسان آنکھ ، کان، زبان، ہاتھ اور پاؤں کے ذریعے جو مختلف قسم کے گُناہ کرتا ہے حدیثِ پاک میں اُنہیں بھی بدکاری ہی قرار دیا گیاہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ابن آدم کے ذمے اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے جسے وہ لا محالہ پالے گا، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے۔ زبان کا زنا بولنا ہے۔ کانوں کا زنا سننا ہے۔ ہاتھوں کا زنا تھامنا ہے۔ پیروں کا زنا چلنا ہے۔ دل خواہش تمنا اور آرزو کرتا ہے۔ پھر شرمگاہ تو سب کو سچا کردیتی ہے یا سب کو جھوٹا بنا دیتی ہے۔‘‘ البخاری
ان سب سے مراد یہ ہے کہ کسی نا محرم سے بات چیت اور ملاقات بھی زنا ہی کے زمرے میں آتا ہے۔
مندرجہ بالا آیات و احادیث کی روشنی میں آپ خود فیصلہ کیجئے کہ کیا آجکل کے لڑکے لڑکیوں کے افیئر جائز ہیں؟؟
ان سب کے بعد جب والدین اپنے تجربے کی بناء پر کسی لڑکے لڑکی کو اپنے بچے کے لیے مسترد کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ بطور شریک حیات ان کے بچے کے لیے مناسب نہیں تو بچے ان کا نقطہ نظر سمجھنے کی بجائے ہوس میں اس قدر اندھے ہو جاتے ہیں کہ گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کر لیتے ہیں۔ علماء کی رائے کے مطابق قرآن ولی کی موجودگی اور اجازت کے بغیر ہونے والے نکاح کو درست قرار نہیں دیتا۔اور وہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو ولدالزنا قرار دیتے ہیں۔نبی ﷺ نے فرمایا۔
’’ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں۔‘‘
عائشہ ؓ سے روایت کرتے ہیں۔
’’بغیر ولی اور دو باکردار گواہوں کے نکاح نہیں ہوتا۔‘‘
والد یا کوئی بھی محرم مرد ہی ولی ہوسکتا ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا
” کوئی عورت جو اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے اس کا نکاح فسخ ہے۔” آپ نے اسے تین بار دہرایا۔
اس صورت میں کورٹ میرج کی شرعی حیثیت کیا ہے؟؟
کسی مغربی ملک میں جہاں اسلامی نکاح ممکن نہ ہو اور شادی کی رجسٹریشن کورٹ میں ہی کروانی لازمی ہو وہاں بھی ولی کی موجودگی اور اس کی اجازت ضروری ہے۔ اسلام کی رو سے نکاح میں فریقین کی پسندیدگی سے مراد یہ ہے کہ جب والدین کسی لڑکے یا لڑکی کو اپنے بچے کے لیے شریک حیات کے طور پہ منتخب کریں تو ان دونوں کی والدین کی موجودگی میں ایک ملاقات کروادی جائے تاکہ وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح سے دیکھ پرکھ لیں۔ ایک دوسرے سے کچھ پوچھنا چاہیں تو پوچھ لیں۔ کوئی شرائط مقرر کرنا چاہیں تو کر لیں۔ اس کے علاوہ کسی ملاقات یا بات چیت کی اجازت نہیں ہے۔
’’جب کوئی عورت تمہیں پیغامِ نکاح دے تو اگر اسے دیکھنا ممکن ہو تو دیکھ لو۔‘‘
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓنے ایک عورت سے نکاح کا ارادہ کیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔‘‘
کیا آج کے دور کی لو میرج اس تعریف پہ پوری اترتی ہے؟ مندرجہ بالا احادیث اور آیات قرآنی کو بھی ذہن میں رکھیے صرف اپنی مرضی اور پسند کا اسلام اختیار کرنے کی بجائے مکمل اسلام جانیے اور اس پہ عمل کی کوشش کیجیے۔

 

***

 اسلام کی رو سے نکاح میں فریقین کی پسندیدگی سے مراد یہ ہے کہ جب والدین کسی لڑکے یا لڑکی کو اپنے بچے کے لیے شریک حیات کے طور پہ منتخب کریں تو ان دونوں کی والدین کی موجودگی میں ایک ملاقات کروادی جائے تاکہ وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح سے دیکھ پرکھ لیں۔ ایک دوسرے سے کچھ پوچھنا چاہیں تو پوچھ لیں۔ کوئی شرائط مقرر کرنا چاہیں تو کر لیں۔ اس کے علاوہ کسی ملاقات یا بات چیت کی اجازت نہیں ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022