فلسطینیوں کی لہو رنگ عید

غزہ کے بچوں کے پاک لہو نے فتحَ بیت المقدس کی تحریک کو مزید مقدس کر دیا ہے

مسعود ابدالی

24 گھنٹوں کے دوران 120 مقامات پر بمباری۔ ہانیہ خاندان کے 60 ارکان نے جام شہادت نوش کیا
نیتن یاہو کی خود غرض و خون آشام سیاست بے نقاب۔ مسلم انتہا پسندی کا شوشہ!
اپنے ہی خون میں غسل کرتے اہلِ غزہ کی عید بھی لہو رنگ رہی۔ آخری روزے کے افطار کے وقت سے شروع ہونے والا بمباری کا سلسلہ عید کے دن مغرب تک جاری رہا۔ ایک اندازے کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران 120 مقامات پر بمباری کی گئی۔ بچی کھچی مساجد اور کھلے مقامات پر عید کے اجتماعات ان بمباروں کے خاص ہدف تھے۔
شمالی غزہ کے پناہ گزینوں کے کیمپ مخیم الشاطی پر ٹھیک اس وقت حملہ کیا گیا جب وہاں لوگ عید مل رہے تھے۔ قائدِ غزہ اسماعیل ہانیہ کا خاندان ہدف تھا اور ان کے تین صاحبزادے حازم، عامر اور محمد، ہانیہ صاحب کی تین پوتیاں اور ایک پوتے سمیت درجنوں افراد اس حملے میں جاں بحق ہوئے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ ایک دہشت گرد کارروائی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ اسماعیل ہانیہ نے 62 برس پہلے اسی کیمپ میں جنم لیا اور یہاں آباد ان کا خاندان حملے کے آغاز سے ہی اسرائیل کے نشانے پر ہے۔ پہلے روز ایک حملے میں ان کے بھائی اور بھتیجے سمیت خاندان کے 14 افراد مارے گئے۔ نومبر کے آغاز پر ان کی جواں سال نواسی نشانہ بنی جس کے کچھ دن بعد ایک ڈرون ان کے کم عمر نواسے کو چاٹ گیا۔ سات اکتوبر سے اب تک ہانیہ خاندن کے 60 افراد شہید کیے جا چکے ہیں۔
عید کے دن ہونے والی کارروائی کی اطلاع جناب ہانیہ کو اس وقت ملی جب وہ قطر کے ایک ہسپتال میں اپنی اہلیہ کی عیادت کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے خبر سنتے ہی اللہ کی حمد بیان کی اور کہا ‘اللہ کا شکر کہ جس نے میرے خاندان کو شہادت کا افتخار عطا کیا۔ میرے بچوں کا لہو غزہ میں قتل کیے جانے والے ہزاروں بچوں کے لہو سے زیادہ قیمتی نہیں تھا۔ ہمارے بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کو قتل کرکے اگر دشمن سمجھتا ہے کہ ہم ہتھیار ڈالدیں گے تو یہ اس کی بھول ہے۔ غزہ کے بچوں کے پاک لہو نے فتحَ بیت المقدس کی تحریک کو مزید مقدس کر دیا ہے۔’ دعائیہ کلمات کے بعد اسماعیل ہانیہ صاحب نے عیادت جاری رکھی اور وہ مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ دعائے شفا پڑھتے ہوئے مریضوں کی پیشانیاں سہلاتے رہے۔ اپنی اہلیہ کو تین بیٹوں اور پوتے پوتیوں کی شہادت کی اطلاع انہوں نے خود دی۔ خبر سنتے ہی بیگم اسماعیل ہانیہ نے ہاتھ بلند کرکے اپنے بیٹوں کی بلندی درجات کی دعا کی اور انگلیوں سے فتح کا نشان بنایا۔
یہ تو ایک واقعہ تھا۔ غزہ سے اسرائیلی فوج کی وحشت و بربریت کی ہولناک خبریں روز ہی آرہی ہیں۔ بچوں اور عورتوں کے قتل عام کے ساتھ طبی سہولتوں کو ہدف بنا کر تباہ کیا جا رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق اپریل کے آغاز سے اب تک انتہائی تجربہ کار ڈاکٹروں سمیت طبی عملے کے 489 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ 600 سے زیادہ زخمی اور 310 افراد گرفتار کرکے عقوبت کدوں کو بھیج دیے گئے ہیں۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ ہسپتال اور شفا خانے تباہ ہوچکے ہیں جبکہ غیر موثر کردیے جانے والے طبی مراکز کی تعداد 32 ہے۔ مشہور الشفا ہسپتال کے بڑے حصے کو سرنگ تلاش کرنے کے نام پر نذر آتش کر دیا گیا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ایمبولینسوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کم از کم 126 ایمبولینسوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب ان میں مریض سوار تھے۔
بچوں اور خواتین کے قتل عام، گھروں میں گھس کر سامان کی توڑ پھوڑ اور وہاں موجود نہتی خواتین سے نا زیبا حرکتوں کی خبریں بھی عام ہیں اور بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ ناشائستہ سمعی و بصری تراشے اسرائیلی سپاہی سوشل میڈیا پر خود پیش کر رہے ہیں۔ ان خبروں اور تراشوں سے دنیا بھر کے سلیم الفطرت انسان تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس تشویش کا ‘دف’ مارنے کے لیے اب اسلامی انتہا پسندی کا کارڈ کھیلا اور اسلاموفوبیا کا ہوّا کھڑا کیا جا رہا ہے۔ 23 مارچ کو ماسکو کی رقص گاہ میں ہونے والی کارروائی سے اس نئی مہم کا آغاز ہوا ہے جس میں 145 قیمتی جانیں ضایع ہوئیں۔ ماسکو واردات کے ملزمان تو مسلمان اور مبینہ طور پر داعش سے وابستہ ہیں لیکن چاروں ملزمان فرار ہوتے ہوئے یوکرین کی سرحد کے قریب سے گرفتار ہوئے اور روسی خفیہ ایجنسی کا خیال ہے کہ پورا ٹولہ یوکرین سے آیا تھا۔ یورپ میں کئی جگہ دہشت گردی کے خطرات کو بہانہ بنا کر فلسطین کے حق میں مظاہروں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ جگہ جگہ معبدوں اور گرجا گھروں کے قریب ‘مشتبہ سرگرمی’ کے شوشے عام ہیں۔
جمعرات 11؍ اپریل کو کانگریس کی ذیلی کمیٹی برائے تفویض (Appropriation) کے روبرو وفاقی ادارہ تحقیقات (FBI) کے سربراہ کرسٹوفر رے نے امریکہ میں ماسکو کی طرز کی ایک خوف ناک اور بہت ی منظم دہشت گرد کارروائی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ضروری قانون سازی پر زور دیا۔ اس سے موصوف کی مراد 9/11 کے بعد منظور کیے جانے والا غیر ملک سراغ
رسانی و نگرانی ایکٹ یا FISA تھا، جس کی صدر بائیڈن تجدید چاہتے ہیں۔ اس قانون کے تحت امریکی اہلکار امریکہ اور امریکہ سے باہر بلا وارنٹ کسی بھی غیر امریکی کی نقل و حرکت کی نگرانی کرسکتے ہیں جس میں فون ریکارڈنگ اور برقی خط اور سوشل میڈیا کی جاسوسی بھی شامل ہے۔
اہل غزہ کی منظم نسل کشی کے ساتھ اسرائیل کے طول و عرض میں قیدیوں کی واپسی کے لیے مظاہرے جا رہے ہیں، چھ ماہ مکمل ہونے پر تل ابیب میں ایک لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا۔ جلوس میں شامل لواحقین فریاد کر رہے تھے کہ ’بی بی جی!! جنگ بند کرو، ہتھیار رکھو، ہتھیار ڈالو، غزہ سے واپس آجاو، سارے فلسطینی قیدی رہا کر دو یا اور جو کچھ ممکن ہے کرو لیکن ہمارے پیاروں کو دوبارہ ہم سے ملا دو‘۔ ایک بڑے بینر پر لکھا تھا ’بائیڈن! ہمارے قیدیوں کو نیتن یاہو کی انا سے بچاو‘ ۔بی بی کے لیے دلدل سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ان کے قدامت پسند اتحادی ’فتح مبین‘ یعنی رفح کی پامالی اور مستضعفین کے مکمل خاتمے سے کم پر راضی نہیں۔ دو دن پہلے ان کے اہم شراکت دار اتامر بن گوئر نے کہا کہ ’اگر وزیر اعظم رفح پر حملے اور دشمن کو فنا کیے بغیر جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کا حق حکم رانی (مینڈیٹ) ختم ہو جائے گا۔ 120 رکنی پارلیمان میں جنگجو انتہا پسندوں کی 14 نشستیں، نتن یاہو کی حکومت گرانے کے لیے کافی ہیں۔
دوسری طرف اسرائیلی حزب اختلاف اور قیدیوں کے لواحقین ابتدا ہی سے شاکی ہیں کہ وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو المعروف بی بی کو اپنے قیدیوں کی بحفاظت واپسی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بی بی اپنے جرنیلوں پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ قیدیوں کو طاقت کے بل پر رہا کرایا جائے اور اس کوشش میں کم از کم پانچ قیدی خود اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔
ان کی خود غرض طبیعت کا بھانڈا 11 اپریل کو اس وقت پھوٹا جب مشہور اینکر الانا دایان Ilana Daan نے چینل 12 پر اپنے پروگرام ‘حقیقت ‘(عبرانی حفضہ یا Uvda) پر اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کے دو سینئر ارکان کی گفتگو نشر کی جنہوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے A اور D کے فرضی نام استعمال کیے۔ ان کی تصاویر دھندلی اور آواز بدل دی گئی تھی۔
دونوں نے انکشاف کیا کہ ’نتن یاہو اسرائیلی قیدیوں کی قسمت کے بارے میں لا تعلق دکھائی دیتے ہیں اور ان کے اس رویہ کی وجہ سے رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی بی عوام کے سامنے جو بیانیہ رکھ رہے پیں وہ ان کے عملی اقدامات سے بالکل مختلف ہے۔
دسمبر کے بعد سے ہمیں اشارے ملنے لگے تھے کہ وزیر اعظم مذاکرات نہیں چاہتے اور جنوری کے اختتام پر ہمیں یقین ہوگیا کہ وزیر اعظم مذاکرات کی کامیابی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ قیدیوں کی حالت زار کے بارے میں بی بی کے رویہ کو ’سرد بے حسی‘ کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔سفارتی حکمت عملی کے باب میں نتن یاہو نئے خیالات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
الانا کے ایک سوال کے جواب میں D کھل کر بولے ’’یہ کہنا مشکل ہے کہ نیتن یاہو کے بغیر اب تک کوئی معاہدہ ہوچکا ہوتا، لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ نتن یاہو کے بغیر معاہدہ کرنے کے امکانات بہتر ہوں گے‘‘ ۔ D نے مزید کہا ’’ایسا کئی بار ہوا کہ ہمیں دن میں مینڈیٹ ملا اور پھر رات کو وزیر اعظم نے فون کرکے کہا ‘ایسا مت کہو، یہ شرط نہ مانو، اس کی اجازت نہ دو‘‘ D صاحب کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے حکم پر اسرائیلی ٹیم ناممکن مطالبات کرنے پر مجبور ہوگئی ہے، جیسے مارچ میں زندہ یرغمالیوں کی فہرست کا مطالبہ، جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ اہل غزہ راضی نہیں ہوں گے۔ یہ مطالبہ انتہائی مضحکہ خیز تھا، اس لیے کہ ہمارے پاس پہلے سے یہ فہرست موجود ہے۔ معلوم نہیں ہم مستضعفین سے یہ مطالبہ کیوں کر رہے ہیں۔
جناب A نے جذباتی انداز میں کہا ’جب مجھے احساس ہوا کہ ریاست وہ سب کچھ نہیں کر رہی ہے جو وہ کر سکتی ہے تو میں رو پڑا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ معاہدہ ہونے تک کون زندہ ہوگا یا کیا باقی رہ جائے گا‘
’قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ دو ماہ پہلے ہوسکتا تھا، میں قوم کو کیسے بتاوں کہ خاکم بدہن، قیدیوں کی رہائی کا وقت ختم نہیں ہو رہا ہے بلکہ ختم ہو چکا‘بی بی نے فلسطینیوں سے نفرت کی آگ بھڑکا کر اسرائیلی قوم کو عدم برداشت کی جس کھائی میں گرا دیا ہے اس کی ایک مثال پر گفتگو کا اختتام کروں گا۔ اسرائیلی پولیس جامعہ تل ابیب کی سینئر لیکچرر ڈاکٹر اناث مطار (Anat Matar) کے خلاف دہشت گردی کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری کے الزامات کی تحقیق کر رہی ہے۔ ڈاکٹر مطار ایک راسخ العقیدہ یہودی اور 2004 سے یہاں فلسفے کی لکچرر ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ پر الزام ہےکہ انہوں نے ممتاز فلسطینی ادیب و دانشور ولید دقہ کے وفات پر ان کے خاندان سےتعزیت کرتے ہوئے فیس بک پر لکھا کہ ‘ڈاکٹر دقہ میرے عزیز دوست اور حوصلہ مندی کا استعارہ تھے۔ دقہ دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے کہ 7؍ اپریل کو ان کا دوران حراست انتقال ہوگیا۔ ولید دقہ نے بی اے اور ایم اے جیل سے کیا تھا۔ پی ایچ ڈی میں ان کی ایڈوائزر ڈاکٹر مطار تھیں لیکن تکمیل سے پہلے ہی دقہ چل بسے۔
فیس بک پوسٹ دیکھ کر جامعہ کے انتہا پسندوں نے زبردست مظاہرہ کیا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر اناث مطار کو ولید دقہ کی خالی کوٹھری بھیج دیا جائے۔ خبر ہے کہ جامعہ نے تحقیقات مکمل ہونے تک ڈاکٹر صاحبہ کو بلا تنخواہ جبری تعطیل پر بھیج دیا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ جامعات تحقیق و جستجو کا مرکز ہوتی ہیں اور آزادی اظہار کے بغیر محققین کام کیسے کر سکتے ہیں؟ ستم ظریفی نے امریکی و یورپی ماہرین تعلیم کا اب تک اس حوالے سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 اہل غزہ کی منظم نسل کشی کے ساتھ اسرائیل کے طول و عرض میں قیدیوں کی واپسی کے لیے مظاہرے جارے ہیں، چھ ماہ مکمل ہونے پر تل ابیب میں ایک لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا۔ جلوس میں شامل لواحقین فریاد کر رہے تھے کہ ’بی بی جی!! جنگ بند کرو، ہتھیار رکھو، ہتھیار ڈالو، غزہ سے واپس آجاو، سارے فلسطینی قیدی رہا کر دو یا اور جو کچھ ممکن ہے کرو لیکن ہمارے پیاروں کو دوبارہ ہم سے ملا دو‘۔ ایک بڑے بینر پر لکھا تھا ’بائیڈن! ہمارے قیدیوں کو نتن یاہو کی انا سے بچاو‘۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024