جمہوریت کے تحفظ کے لیے ایک بہترین اقدام

الیکٹوریل بانڈز کے نظام کا خاتمہ انتخابات میں کسی قدر شفافیت لا سکتا ہے

زعیم الدین احمد حیدرآباد

سپریم کورٹ نے پچھلے دنوں سات سال پرانے انتخابی فنڈنگ کے نظام کو ختم کر دیا ہے، یعنی انتخابی بانڈز کو روک دینے کا فیصلہ کردیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ ایک ایسا نظام تھا جس کے تحت جو افراد یا کمپنیاں سیاسی جماعتوں کو چندہ دیتی تھیں، ان کے ناموں کو مخفی رکھا جا سکتا تھا اور دیے جانے والے چندے کی کوئی حد بھی مقرر نہیں تھی۔ عام انتخابات سے قبل اس فیصلے نے وزیراعظم نریندر مودی کو اور خاص طور پر بی جے پی کو ایک بڑا دھچکا دیا ہے۔ مودی حکومت نے 2018 میں اس قانون کو متعارف کرایا تھا اور اسی قانون کے تحت بی جے پی کو انتخابی چندے وصول کرنے میں سب سے زیادہ فائدہ بھی ہوا تھا۔ اس مخفی انتخابی فنڈنگ کے نظام کو اپوزیشن جماعتوں اور سماجی تنظیموں کے ایک گروپ نے چیلنج کیا کیوں کہ اس نظام میں عوام کو یہ جاننے کا کوئی حق ہی نہیں تھا کہ آخر سیاسی پارٹیوں کو چندے کہاں سے آتے ہیں؟ کون ان سیاسی پارٹیوں کو اتنی بھاری مقدار میں چندہ دیتا ہے؟ یہ نظام قانون حق معلومات یعنی "رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ” کے خلاف بھی تھا۔ آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر یہ انتخابی بانڈز کیا ہیں؟
دراصل یہ ایکٹ 2018 میں مودی حکومت نے متعارف کروایا تھا۔ یہ بانڈز اسٹیٹ بینک آف انڈیا (SBI) سے خریدے جاتے ہیں اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ بانڈز خریدنے والے کے نام کو مخفی رکھا جاتا ہے، یعنی یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کون سے شخص نے پارٹی کو عطیہ یا چندہ دیا ہے۔ اگرچہ کہ انتخابی بانڈز کے جو عطیہ دہندگان ہوتے ہیں تکنیکی طور پر گمنام ہی ہوتے ہیں لیکن SBI جو کہ ایک پبلک سیکٹر بینک ہے، اس نے برسرِ اقتدار پارٹی کو اپنے ڈیٹا تک غیر اعلانیہ طور پر رسائی حاصل کرنے کی اجازت دی تھی، تاکہ ایسے بڑے عطیہ دہندگان جو حزب اختلاف یعنی اپوزیشن پارٹیوں کو انتخابی بانڈز کے ذریعے چندہ دیتے ہیں ان پر نگاہ رکھی جا سکے۔
الیکٹورل بانڈز (EBs) کرنسی نوٹوں کی طرح "بریئر” ہوتے ہیں، یعنی جسے عام زبان میں ڈینامینیشن بھی کہا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ہزار، دس ہزار، ایک لاکھ، دس لاکھ روپے یا ایک کروڑ روپے، کے برئیر، یہ بانڈز ان ہی قیمتوں میں فروخت ہوتے ہیں۔ ان بانڈز کو کوئی فرد، کوئی گروپس یا کارپوریٹ کمپنیاں بھی خرید سکتی ہیں اور اپنی پسند کی پارٹی کو عطیہ کر سکتی ہیں، اور یہ بانڈز جس پارٹی کو بھی عطیہ کیے گئے ہیں وہ پارٹیاں انہیں پندرہ دنوں بعد بلا سود کے چھڑوا بھی سکتی ہیں۔
قانون یہ ہے کہ اگر کوئی سیاسی پارٹی کو بیس ہزار روپے سے بڑھ کر نقد رقم دیتا ہے تو ان تمام عطیات کا حساب اسے دینا ہوگا اور عطیہ دہندے کی شناخت بھی ظاہر کرنی ہوگی، اس کے برعکس جو لوگ انتخابی بانڈز کے ذریعے عطیہ دیتے ہیں، ان کے ناموں کو ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، چاہے رقم کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ یہ ہے الکٹورل بانڈز کی حقیقت۔
اب جانتے ہیں کہ ان بانڈز سے اور اس کے نظام سے کس کو کتنا فائدہ ہوا؟
ایک غیر سرکاری تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (ADR) کے تجزیہ کے مطابق 2018 سے 2022 تک کے دورانیے میں، خفیہ عطیہ دہندگان نے بانڈز کے ذریعے برسرِ اقتدار بی جے پی کو پانچ ہزار دو سو ستر کروڑ روپے یعنی باون ارب ستر کروڑ سے زیادہ کے عطیات دیے ہیں۔ اور ایک خاص بات یہ ہے کہ جتنے انتخابی بانڈز کے ذریعے عطیات دیے گئے ہیں ان کا ستاون فیصد حصہ بی جے پی کو ملا ہے۔
2017 میں مرکزی بینک، ریزرو بینک آف انڈیا (RBI) نے مودی حکومت کو اس بات سے خبردار کیا تھا کہ شیل کمپنیاں "منی لانڈرنگ کی سہولت” کے لیے بانڈز کا غلط استعمال کر سکتی ہیں۔ اسی طرح 2019 میں، الیکشن کمیشن آف انڈیا (ECI) نے اس نظام کو عطیات کی شفافیت کے حوالے سے انتہائی بیچیدہ اور غیر معقول قرار دیا تھا۔ جب سے یہ انتخابی بانڈز کا نظام متعارف ہوا ہے یہ سیاسی فنڈنگ کا بنیادی ذریعہ بن گیا ہے۔ ای ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں سیاست کے حوالے سے جو بھی فنڈنگ ہوتی ہے اس کا 56 فیصد حصہ انہی انتخابی بانڈز سے آتا ہے۔ کیوں کہ اس میں عطیہ دہندے کے نام کو مخفی رکھا جاتا ہے اسی لیے یہ بہت ہی پسندیدہ طریقہ کار بنا ہوا ہے، لیکن اس کی یہی راز داری بہت سے لوگوں کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے اور با شعور افراد اسے غیر جمہوری کہتے ہیں اور بدعنوانی کو چھپانے کا ذریعہ بھی تصور کرتے ہیں۔
جب انتخابی بانڈز کا قانون بنایا گیا تو وزیر اعظم مودی نے سیاسی فنڈنگ میں شفافیت لانے اور اس کو بہتر بنانے کے بجائے اس کو مزید غیر شفاف بنا دیا اور شفافیت لانے والے بہت سے تقاضوں کو بھی ختم کر دیا: جیسے پہلے کارپوریٹ عطیات کو روکنے والا ایک قانون تھا اسے مودی نے ختم کر دیا، اب کمپنیوں کو اپنے عطیات ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ پہلے قانون تھا کہ غیر ملکی کمپنیوں کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ ہندوستانی سیاسی پارٹیوں کو فنڈ دیں، اب اس نئے قانون کے تحت وہ اپنی ہندوستان میں موجود ذیلی کمپنیوں کے ذریعے عطیات دے سکتی ہیں۔
ان بانڈز کی فروخت کے ضابطوں میں بھی مودی حکومت نے تبدیلی کردی۔ ای بی کے قوانین کے مطابق بانڈز کی فروخت ہر نئی سہ ماہی کے پہلے دس دنوں میں ہی کی جاسکتی ہے، یعنی جنوری، اپریل، جولائی اور اکتوبر کے پہلے دس دنوں میں، لیکن مودی حکومت نے اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کو توڑتے ہوئے عطیہ دہندگان کو مئی اور نومبر 2018 میں (جس وقت دو اہم انتخابات منعقد ہونے والے تھے) بانڈز خریدنے کی اجازت دے دی۔ لہٰذا سپریم کورٹ میں جو مقدمہ چل رہا ہے یہ نکتہ بھی اس کیس کا حصہ رہا ہے۔
انڈین نیوی کے ریٹائرڈ کمانڈر لوکیش بترا جو کہ انتخابات میں شفافیت لانے والی مہم کے سربراہ بھی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ "معنوی اعتبار سے تو انہیں انتخابی بانڈ کہا جا سکتا ہے، لیکن قانونی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ پیسہ تو صرف انتخابات کے لیے ہی استعمال کیا جانا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہوتا” جس پارٹی کو بھی زیادہ رقم ملتی ہے، اس کو وہ انتخابات کے دوران سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا وغیرہ پر بے دریغ اشتہارات میں صرف کرتی ہے۔ جب ایک بار کسی کے پاس پیسہ زیادہ مقدار میں جمع ہو جائے گا تو وہ اسے کہیں بھی استعمال کر سکتا ہے‘‘
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پچھلے دنوں کہا کہ یہ نظام "غیر آئینی” ہے اور ریاست کے زیر انتظام چلنے والے اسٹیٹ بینک آف انڈیا (SBI) کو ہدایت دی کہ وہ ان بانڈز میں سے مزید کوئی بانڈ جاری نہ کرے، اور ان کے خریداروں کی شناخت کی تفصیلات پیش کرے، اور سیاسی پارٹیوں کے ذریعے فروخت کیے گئے بانڈز کی ساری تفصیلات فراہم کرے۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پیسے اور سیاست کے درمیان کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے، یہ ممکن ہے کہ مالیاتی شراکتیں "کوویڈ پرو کووارینجمنٹس کا باعث بنیں گی”۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ "کسی کمپنی کی سیاسی شراکت داری انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کسی فرد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ کیوں کہ کمپنیوں کی جانب سے کی جانے والی شراکتیں خالصتاً کاروباری نوعیت کی ہوتی ہیں جس کے بدلے میں وہ فوائد حاصل کرنا چاہتی ہیں‘‘
بہر حال سیاسی پارٹیوں کی سیاسی عیاشی پر اس فیصلے کا اثر تو پڑے گا ہی اور ساتھ ہی سیاسی پارٹیوں کی نیندیں بھی حرام ہوں گی کیونکہ عام انتخابات سر پر ہیں، اور خاص طور پر عام انتخابات سے قبل اس طرح کا فیصلہ برسر اقتدار پارٹی کو بھی کسی قدر پریشان ضرور کر سکتا ہے۔

 

***

 جب انتخابی بانڈز کا قانون بنایا گیا تو وزیر اعظم مودی نے سیاسی فنڈنگ میں شفافیت لانے اور اس کو بہتر بنانے کے بجائے اس کو مزید غیر شفاف بنا دیا اور شفافیت لانے والے بہت سے تقاضوں کو بھی ختم کر دیا۔ جیسے پہلے کارپوریٹ عطیات کو روکنے والا ایک قانون تھا اسے مودی نے ختم کر دیا، اب کمپنیوں کو اپنے عطیات ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ پہلے قانون تھا کہ غیر ملکی کمپنیوں کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ ہندوستانی سیاسی پارٹیوں کو فنڈ دیں، اب اس نئے قانون کے تحت وہ اپنی ہندوستان میں موجود ذیلی کمپنیوں کے ذریعے عطیات دے سکتی ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 فروری تا 2 مارچ 2024