فلسطینی مسئلے پر مغربی ممالک میں بڑھتا آپسی خلفشار

امریکہ کے ویٹو اقدام کی ایران و چین کے ساتھ فرانس و برازیل نے بھی کی مذمت

اسد مرزا
سینئر سیاسی تجزیہ نگار

اگر امریکی عوام ٹھان لیں تو پھر امریکہ بھی اسرائیل کا مخالف بن سکتا ہے
’’ 7؍ اکتوبر کے حملے کے بعد سے غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کاروائی کی وجہ سے اب تک 29,000 فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔
اس بڑھتی ہوئی تعداد اور اسرائیل کے سخت رویے کی وجہ سے اب اسرائیل کے مغربی اتحادی بھی اس کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘
گزشتہ پانچ ماہ سے فلسطین میں جاری جنگ نے اسرائیل کے مغربی اتحادیوں کو بھی اس کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں الجزائر کی پیش کردہ قرار داد کو امریکہ کی جانب سے روکنے کی ایران اور چین کے ساتھ فرانس اور برازیل جیسے مغربی ممالک نے بھی مذمت کی ہے۔ اس نئی پیش رفت کے بعد یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ جہاں ایک طرف گلوبل ساؤتھ چین، روس، ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک اسرائیل کے خلاف ہیں وہیں اب مغربی ممالک میں بھی اسرائیل مخالف رحجانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
الجزائر کی قرارداد کو روکنے کے امریکی فیصلے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے کہا کہ الجزائر کی تجویز کردہ قرارداد جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والی بات چیت کو ’’خطرے میں ڈال دے گی‘‘ دوسری طرف امریکہ نے اپنی عارضی جنگ بندی کی قرارداد پیش کی ہے جس میں اسرائیل کو رفح پر حملہ نہ کرنے کی تنبیہ بھی کی گئی ہے۔ بڑھتے ہوئے تشدد اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے درمیان امن کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے امریکہ کی مجوزہ قرارداد اسرائیلی قیدیوں کی رہائی سے منسلک محدود حمایت کا ہدف رکھتی ہے۔
ایران نے غزہ میں جنگ بندی کی ایک اور قرارداد کو ویٹو کرنے پر امریکہ کی مذمت کی ہے اور اسے ’سفارتی تباہی‘ قرار دیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے امریکہ پر صیہونی حکومت کی حمایت کرکے فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ عالمی احتساب پر زور دیتے ہوئے انہوں نے سوشل میڈیا پر واشنگٹن کے اقدامات پر تنقید کی۔ یو این ایس سی کی قرارداد کو امریکہ کا ویٹو، جس کی حمایت 13 ارکان نے کی ہے، اس طرح کا تیسرا اقدام ہے۔ وہیں پر برطانیہ کی عدم شرکت منقسم رائے کو واضح کرتی ہے۔
چین نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کرنے پر امریکہ کی کڑی تنقید کی ہے۔ بیجنگ نے کہا کہ اس اقدام نے ’’غلط پیغام‘‘ بھیجا ہے اور مؤثر طریقے سے ’’مسلسل قتل عام کو ہری جھنڈی‘‘ دکھائی ہے۔
امریکہ کے بعض اتحادیوں نے بھی الجزائر کی مجوزہ قرارداد کو ویٹو کرنے کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔ فرانس کے اقوام متحدہ میں ایلچی نکولس ڈی ریویئر نے افسوس کا اظہار کیا کہ ’’زمین پر تباہ کن صورتحال کے پیش نظر‘‘ قرارداد کو منظور نہیں کیا گیا، وہیں برطانیہ نے ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ رفح میں اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی ’’قتلِ عام‘‘ کا باعث بن سکتی ہے۔ اسرائیلی جنگی کابینہ کے رکن بینی گینٹز نے کہا کہ اگر حماس 10؍ مارچ تک تمام یرغمالیوں کو آزاد نہیں کرتا تو زمینی حملہ کیا جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی الجزائر کی قرارداد میں جنوری میں دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت (آئی سی جے) کی طرف سے دیے گئے عارضی اقدامات پر عمل درآمد کا بھی مطالبہ کیا گیا، جس میں اسرائیل کو ہدایت کی گئی کہ وہ شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنی جارحیت کو کم کرے، غزہ میں امداد کے بہاؤ میں رکاوٹیں نہ ڈالے اور نسل کشی کی زبان استعمال کرنے والے اسرائیلی سیاست دانوں کے خلاف کارروائی کرے۔ G20 کا موقف
21؍ فروری کو G20 کے وزرائے خارجہ ریو ڈی جنیرو میں غربت، موسمیاتی بحران اور بڑھتی ہوئی عالمی کشیدگی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ برازیل جس نے G-20 کی سالانہ صدارت سنبھال لی ہے، اس نے اپنی ترجیحات کا تعین کرلیا ہے جس میں خاص طور پر عالمی گورننس اداروں اور کثیر جہتی بینکوں میں ترقی پذیر ممالک کی مضبوط نمائندگی پر زور دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی برازیل نے غزہ اور یوکرین کی جنگوں پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مفلوج ہونے پر تنقید بھی کی ہے کیونکہ اس نے بدھ کے روز G20 اجلاس کا آغاز کیا جہاں بین الاقوامی برادری کی تقسیم صاف دکھائی دے رہی ہے۔
برازیل، جس نے دسمبر میں ہندوستان کے بعد G20 کی صدارت سنبھالی ہے، اس نے امید کا اظہار کیا ہے کہ یہ گروپ ایسے سوالات پر پیش رفت کرنے کا ایک فورم ہو سکتا ہے، جن کے ذریعہ عالمی امن کو یقینی بنایا جا سکے اور اس کے لیے سب سے اہم اقدام فلسطین میں جنگ کا خاتمہ ہے۔برازیل کے صدر لولاڈاسلوا امریکہ کے دیرینہ مخالف رہے ہیں اور ان کی صدارت کے دوران G20 کو امریکہ مخالف پوزیشن لینے کے امکانات بہت قوی لگتے ہیں۔
وہیں دوسری جانب اسرائیل کے رویے نے امریکہ کے اہم اتحادی برطانیہ کی داخلی سیاست میں بھی اپنا نقش چھوڑنا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہاؤس آف کامنس میں اس وقت افراتفری کا نظارہ دیکھنے کو ملا جب ہاؤس آف کامنس کے اسپیکر لنڈسے ہوئل نے فلسطین معاملے پر پیش کی گئی قرارداد پر لیبر اورکنزرویٹیو دونوں پارٹیوں کو ترامیم کی تجویز پیش کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس کے بعد ایک غیر معمولی اقدام میں، ہوئل نے ان دونوں ترامیم کو ووٹ دینے کے لیے منتخب کیا، اس نظیر کو توڑتے ہوئے جس کے تحت ایک اپوزیشن پارٹی دوسری کی تحریک کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ عام طور پر، صرف حکومتی ترمیم کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ برطانیہ نے اس بات کے بھی اشارے دیے ہیں کہ اگر اسرائیل نے رفح کی ناکہ بندی ختم نہیں کی اور شہر پر اپنی مجوزہ فوجی کارروائی منسوخ نہیں کی تو برطانیہ اسے ہتھیاروں کی برآمد بھی منسوخ کرسکتا ہے۔ ان دونوں واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ جو کہ امریکہ کا سب سے اہم اور نزدیکی اتحادی ہے جب اس ملک میں عوامی و سیاسی سطح پر اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں اور ساتھ ہی فرانس جیسے ممالک نے بھی اسرائیل کی مذمت شروع کر دی ہے تو اب وہ دن دور نہیں جب اس مسئلے پر خود مغربی ممالک میں پھوٹ پڑ سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں اقوامِ متحدہ کو اپنی سرپرستی میں مختلف ممالک کی حمایت کے ساتھ اسرائیل کو اس کی جارحیت روکنے کے لیے کافی مدد بھی مل سکتی ہے اور اس قضیے کا حتمی تصفیہ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔
وزارتی ذرائع نے کہا کہ اگرچہ کہ ہتھیاروں کے برآمدی لائسنس کی معطلی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے، برطانیہ کے پاس فوری جواب دینے کی صلاحیت ہے، اگر وزراء کو قانونی مشورے میں کہا گیا کہ اسرائیل بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔برطانیہ نے دوسرے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اسرائیل پر رفح میں زمینی حملے سے بچنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔ منگل کو شائع ہونے والے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات کے کنٹرول کے بارے میں خارجہ امور کی سلیکٹ کمیٹی کو لکھے گئے خط میں سیکرٹری خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ وہ یہ نہیں دیکھ سکتے کہ رفح میں حملہ عام شہریوں کو نقصان پہنچائے اور گھروں کو تباہ کیے بغیر کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔
مجموعی طور پر اس تاثر میں اضافہ ہو رہا ہے کہ جہاں امریکہ کے اتحادی اس کے خلاف موقف اپنا رہے ہیں وہیں ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں جیسا کہ حالیہ امریکی قرار داد میں سامنے آیا ہے کہ خود امریکہ بھی اسرائیل کو رفح پر حملہ نہ کرنے کی تنبیہ دے رہا ہے، لیکن وہ کھل کر سامنے نہیں آرہا ہے۔ اس پس منظر میں یہ امید کہ جلد ہی امریکہ بھی اسرائیل کے خلاف ہو سکتا ہے، ایک ناقابلِ فہم بات لگتی ہے۔ لیکن اگر صدر بائیڈن کو امریکیوں کی حمایت حاصل نہ ہوئی تو پھر یہ بات حقیقت بھی بن سکتی ہے۔
***

 

***

 اس تاثر میں اضافہ ہو رہا ہے کہ جہاں امریکہ کے اتحادی اس کے خلاف موقف اپنا رہے ہیں وہیں ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں جیسا کہ حالیہ امریکی قرار داد میں سامنے آیا ہے کہ خود امریکہ بھی اسرائیل کو رفح پر حملہ نہ کرنے کی تنبیہ دے رہا ہے، لیکن وہ کھل کر سامنے نہیں آرہا ہے۔ اس پس منظر میں یہ امید کہ جلد ہی امریکہ بھی اسرائیل کے خلاف ہو سکتا ہے، ایک ناقابلِ فہم بات لگتی ہے۔ لیکن اگر صدر بائیڈن کو امریکیوں کی حمایت حاصل نہ ہوئی تو پھر یہ بات حقیقت بھی بن سکتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 مارچ تا 9 مارچ 2024