پنجاب: ’’کسان مزدور ریلی‘‘ میں ایک لاکھ سے زیادہ کسانوں اور مزدوروں نے شرکت کی، یونین رہنماؤں نے مظاہرین سے دہلی پہنچنے کی اپیل کی

پنجاب، فروری 22: دی ٹربیون کی خبر کے مطابق اتوار کے روز پنجاب کے ضلع برنالہ میں ایک لاکھ سے زائد کسان اور مزدورنئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک ریلی کے لیے جمع ہوئے۔

اس ’’کسان مزدور ریلی‘‘ کا انعقاد بھارتی کسان یونین (ایکتا اُگرہن) اور پنجاب کھیت مزدور یونین نے کیا تھا۔ نئے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرے دہلی کی حدود پر منتقل ہونے کے بعد سے یہ پنجاب میں سب سے بڑی ریلیوں میں سے ایک تھی۔ خبر رساں ادارے ریوٹرز کے مطابق پولیس نے اندازہ لگایا کہ اس ریلی میں 1،20،000 سے 1،30،000 افراد نے شرکت کی۔

ریلی میں کسان یونین کے رہنماؤں نے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ 27 فروری کو دہلی کے باہر بڑی تعداد میں جمع ہوں۔

بھارتیہ کسان یونین (ایکتا اگرہن) کے رہنما جوگیندر اگرہن نے کہا کہ ’’ہم یہاں کسانوں کو دہلی میں ہونے والی تحریک سے آگاہ کرنے کے لیے برنالہ آئے تھے۔ ہم انھیں بتانے آئے ہیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے اور آگے کیا ہوگا۔‘‘

دی ٹریبون کے مطابق جوگیندر اُگرہن نے ریلی میں کہا کہ یہ پہلا موقع تھا جب لوگوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی ’’فاشسٹ اور فرقہ پرست حکومت‘‘ کو چیلنج کیا تھا۔ اُگراہن نے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ اپنی تحریک کو موقع پرست سیاسی جماعتوں کی مداخلت سے بچانے کے لیے متحد رہیں۔

اگرہن نے یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر ریلی کے دوران ہوئے تشدد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت کسانوں کے احتجاج کو فرقہ وارانہ بنانے میں ناکام رہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بڑے کارپوریٹ اداروں کے خلاف کسانوں کی جد وجہد ہی ’’حقیقی حب الوطنی‘‘ ہے۔

کسان رہنما بلبیر سنگھ راجیوال نے بھی مظاہرین سے ذات پات اور مذہبی اختلافات پر قابو پانے کا مطالبہ کیا۔ ٹائمز آف انڈیا کے حوالے سے کہا گیا کہ ، "کسان جو دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہے ہیں وہ اپنے صبر اور قربانی سے فتح کی فتح حاصل کریں گے۔”

خبر کے مطابق مظاہرین میں سے کچھ نے ریلی میں شرکت کے لیے کئی کلومیٹر کا سفر کیا۔ ریلی کے لیے 30 کلومیٹر کا سفر کرنے والے 52 سالہ کسان بلجیندر سنگھ نے کہا ’’ہمارا مقصد یہ ہے کہ مودی حکومت کے ذرعیے نافذ کیے گئے کالے قوانین کو کالعدم قرار دیا جائے۔‘‘

معلوم ہو کہ ہزاروں کسان تقریباً تین ماہ سے دہلی کے سرحدی مقامات پر ڈیرے لگائے ہوئے ہیں اور ستمبر میں منظور شدہ زرعی قوانین کو واپس لینے کے خواہاں ہیں۔

کسانوں کا ماننا ہے کہ نئے قوانین ان کی روزی روٹی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور کارپوریٹ سیکٹر کے لیے زرعی غلبہ حاصل کرنے کی راہیں کھول دیتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت کا موقف ہے کہ نئے قوانین سے کسانوں کو اپنی پیداوار کو بیچنے میں زیادہ سے زیادہ آپشن ملیں گے اور انھیں غیر منصفانہ اجارہ داریوں سے آزاد کیا جائے گا۔