ہریانہ فسادات: نوح میں ’’بلڈوزر انصاف‘‘ چوتھے روز بھی جاری، ایک تین منزلہ ہوٹل کو مسمار کیا گیا

نئی دہلی، اگست 6: ہریانہ کے نوح ضلع میں ’’بلڈوزر انصاف‘‘ اتوار کو چوتھے دن بھی جاری رہا، جب حکام نے 31 جولائی کے فرقہ وارانہ تشدد کے پیش نظر ایک ہوٹل کو بلڈوز کر دیا۔

ضلع انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ نوح میں تشدد اس وقت شروع ہوا جب غنڈوں نے سہارا ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ کی چھت سے ایک مذہبی جلوس پر پتھراؤ کیا۔ حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ تین منزلہ ہوٹل غیر قانونی طور پر بنایا گیا تھا۔

اس سے قبل جمعرات کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ضلع کے تورو قصبے میں 250 سے زائد مسلم مہاجر کارکنوں کی جھونپڑیوں کو مبینہ طور پر سرکاری زمین پر قبضہ کرنے کے الزام میں منہدم کردیا تھا۔ جمعے کے روز بھی اسی طرح کی بنیاد پر کئی مکانات اور دکانیں منہدم کر دیے گئے۔

ہفتہ کے روز تقریباً ایک درجن دکانیں، جن میں زیادہ تر فارمیسی کی تھیں، نہر میں شہید حسن خان میواتی گورنمنٹ میڈیکل کالج کے قریب مسمار کر دی گئیں۔

نوح کے ڈپٹی کمشنر دھیریندر کھڈگتا نے کہا ’’مختلف ایجنسیوں نے ان میں سے کچھ مالکان کو برج منڈل جل ابھیشیک یاترا کے دوران تشدد میں ملوث پایا ہے۔‘‘

دریں اثنا متعدد رہائشیوں نے گرفتاریوں کے خوف سے ’’انسداد تجاوزات مہم‘‘ کے دوران نوح کو چھوڑ دیا۔

ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ساکیت گوکھلے نے سب ڈویژنل مجسٹریٹ اشونی کمار سے پوچھا کہ انہدام ایسے وقت کیوں کیا جا رہا ہے جب نوح میں کرفیو نافذ ہے۔

انھوں نے پوچھا کہ ’’حکومت کو حالیہ تشدد کے بعد ہی کیوں احساس ہوا کہ یہ ’’غیر قانونی تجاوزات‘‘ ہیں؟ کیا قانون کے مطابق نوٹس بھیجے گئے؟‘‘

ہفتے کے روز پولیس نے دعویٰ کیا کہ جن عمارتوں کو مسمار کیا گیا تھا ان کے مالکان کو پہلے ہی نوٹس بھیجے جا چکے ہیں۔

ایک دن پہلے ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وج نے کہا تھا کہ ’’جہاں بھی ضروری ہو‘‘ بلڈوزر کا استعمال کیا جائے گا۔ انھوں نے اسے ’’علاج کا حصہ‘‘ قرار دیا تھا۔

نوح اور دیگر اضلاع میں پولیس کی کارروائی کے بارے میں تازہ ترین معلومات کا اشتراک کرتے ہوئے وج نے کہا کہ 102 فرسٹ انفارمیشن رپورٹس درج کی گئی ہیں اور اب تک 202 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور 80 احتیاطی حراست میں ہیں۔

دریں اثنا پولیس نے ہندوتوا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے پروپیگنڈے کو پھیلانے والے مشہور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کے دوران نوح کے نہر مندر میں پھنسی ہوئی کئی ہندو خواتین کی عصمت دری کی گئی تھی۔

ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس ممتا سنگھ نے اے این آئی کو بتایا ’’میں آپ کو بتانا چاہوں گی کہ یہ جھوٹی خبر ہے، مکمل افواہ ہے۔ میں پورے واقعے کے دوران وہاں موجود تھی۔ کسی عورت کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ایسی افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘‘