نیتی آیوگ کی رپورٹ : دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی
کیا حکومت کارکردگی کے بجائے اشتہارات کے پہیوں پر چلتی ہے؟
ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
کثیر جہتی غربت انڈیکس میں بہار اور یوپی سر فہرست ، منصوبوں کے اعلانات پر زیادہ اور کام پر کم توجہ
نیتی آیوگ (یعنی پلاننگ کمیشن کا نیا چہرہ) نے اپنی تازہ رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ مذکورہ ادارے کی بنیادی ذمہ داری منصوبہ بنانا اور اس کا جائزہ پیش کرنا ہے۔ اس نے اپنے کام کو تو انجام دے لیا لیکن ٹائمنگ غلط ہوگئی۔کرکٹ میں دلچسپی رکھنے والے ٹائمنگ کی اہمیت سے خوب واقف ہیں۔ اسی ٹائمنگ کی بدولت کوئی گیند میدان سے باہر جا کر سکسر بن جاتی ہے اور یہی کسی کھلاڑی کو میدان سے باہر کر دیتی ہے۔ اس رپورٹ سے جو نقصان ہوا اگر اس کا اندازہ مودی اور یوگی کو ہوجائے تو بعید نہیں کہ اس کا نائب چیرمین راجیو کمار ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اتر پردیش کے انتخابات سے قبل وزیر اعظم ہر ہفتہ بلکہ کبھی تو ہفتے میں دوبار ریاست کا دورہ فرما کر کسی نہ کسی سرکاری پراجکٹ کا افتتاح کرتے ہیں یا سنگ بنیاد رکھ آتے ہیں۔ اس سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یو پی میں وکاس (ترقی) کی گنگا بہہ رہی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں یو پی نمبر ’ون‘ کا غلغلہ ہے۔ نیتی آیوگ کی رپورٹ نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ غریب مسکین لوگ اسی صوبے میں رہتے ہیں۔ اس سچائی کی پردہ پوشی کے لیے اشتہار بازی کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ حکمراں جماعت کی مجبوری ہے کیونکہ بقول عندلیب شادانی (ترمیم کے لیے معذرت کے ساتھ)؎
نادانی اور مجبوری میں یارو کچھ تو فرق کرو
اک بے بس انسان کرے کیا ’کرسی کھسکی‘ جائے
تو بھارتیہ جنتا پارٹی نے جب سے مرکز میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ہے وہ ہر صوبے میں انتخابی مہم میں ’ڈبل انجن‘ سرکار پر زور دیتی ہے۔ یعنی اگر ریاست میں بھی اسی پارٹی کی حکومت ہو جو مرکز میں اقتدار پر فائز ہے تو ترقی کی رفتار دوگنا بلکہ کئی گنا بڑھ جائے گی۔ مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والے ایک سرکاری ادارے کا تحقیق وتفتیش کے بعد اعداد وشمار کی بنیاد پر پیش کیا جانے والا جائزہ اس دعوے کی قلعی کھول دیتا ہے اور الفاظ کے فریب کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ وطن عزیز میں بی جے پی کی حکومت کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اشتہار بازی کے پہیوں پر چلتی ہے۔ دنیا کی سب سے امیر پارٹی بی جے پی کے لیے فی زمانہ یہ کام بہت آسان ہو گیا ہے کیونکہ مختلف زبانوں اور ہندی کے ہی کئی علاقائی چینلس کا شمار کیا جائے تو کم و بیش تین درجن اکیلے مکیش امبانی کی کمپنی ریلائنس کے پاس ہیں۔ اس کے علاوہ دو درجن چینل مودی نواز ’’زی‘‘ گروپ کے ہیں جو چاپلوسی میں سرکاری چینلس سے آگے نکل گیا ہے۔ آنند بازار پتریکا گروپ کے اے بی پی نیوز جیسے چینل پر کنچن گپتا جیسا سنگھ پریوار کا وفادار اپنا اثر ورسوخ رکھتا ہے اور دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو کا تو فرضِ منصبی ہی حکومت کا ڈنکا پیٹنا ہے کیونکہ آج کل اپنی ملازمت کو خطرے میں ڈالنے کا خطرہ کوئی مول نہیں لیتا۔ بکاو صحافیوں کا تو یہ حال ہے؎
دولت کے بدلے میں ہم تو بیچ دیں اپنا چینل تک
کوئی ملے تو قلم کا گاہک کوئی بھاو لگائے تو
اتر پردیش کی یوگی حکومت ذرائع ابلاغ پر کس طرح پانی کی طرح روپیہ بہاتی ہے اس کا اندازہ ایک آر ٹی آئی کے تحت پوچھے جانے والے سرکاری جواب سے کیا جا سکتا ہے۔ پچھلے معاشی سال یعنی اپریل 2020 سے مارچ 2021 کے درمیان یو پی حکومت نے اشتہار بازی پر 160.31 کروڑ روپے خرچ کیے۔ ان میں سے نام نہاد قومی چینلس کی جیب میں 88.68 کروڑ روپے گئے اور علاقائی چینلس کے حصے میں 71.63 کروڑ روپے آئے۔ ایسے میں اگر کوئی چینل والا سروے کر کے یوگی ادتیہ ناتھ کو ملک کا سب سے فعال اور قابل وزیر اعلیٰ قرار دے اور ان کو مقبول ترین رہنما کے تمغہ سے نوازے تو حقِ نمک ادا کرنا ہی کہلائے گا۔ اس مالِ مفت کی تقسیم بھی دلچسپ ہے کہ سب سے زیادہ 28.82 کروڑ روپے امبانی سیٹھ کو ملے یعنی ٹیکس بچا کر جو چندہ انہوں نے بی جے پی کو دیا تھا اسے دوسرے راستے سے وصول کر لیا۔ اس کے بعد زی میڈیا کے آگے 23.48 کروڑ روپے ڈالے گئے۔ اے بی پی جو تھوڑا بہت تنقید بھی کر دیتا ہے صرف 18.19 کروڑ روپیوں کا حقدار بنا۔ آج تک کے انڈیا ٹوڈے گروپ کو کو 10.64 کروڑ روپیوں پر اکتفاء کرنا پڑا۔ جہاں ارنب جیسا وفادار پانچویں نمبر پر ہو وہاں بیچارہ این ڈی ٹی وی تو ساتویں نمبر تک شمار میں ہی نہیں ہے۔ موجودہ ہندوستان میں یہ ہے غیر جانبداری اور سچ دکھانے کی قیمت۔ اس کے باوجود این ڈی ٹی وی کے مالک پرنوئے رائے اور رویش کمار جیسے لوگ قابلِ مبارکباد ہیں۔ وہ دلیر لوگ اس شعر کے مصداق ہیں ؎
سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر بیتی ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو
مذکورہ اعداد وشمار کورونا دَور کے ہیں۔ اس لیے اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ یہ سرمایہ عوام میں وباء سے متعلق بیداری پیدا کرنے پر صرف کیا گیا ہے تو اس کے ہاتھ مایوسی ہی لگے گی کیونکہ اس کام پر تو صرف 6.3 کروڑ روپے ہی خرچ کیے گئے۔ مودی جی کے خود کفیل ہندوستان کا جھوٹ پھیلانے کی خاطر ایک سو ساٹھ کروڑ روپے پھونک دیے گئے۔ اتر پردیش میں کس ڈھٹائی کے ساتھ کذب بیانی کی جاتی ہے اس کی مثال جیور میں بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 25 نومبر کو دلی سے متصل اتر پردیش میں ایشیا کے سب سے بڑے جیور انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔ انتخاب کے سبب یہ کام اس قدر جلد بازی میں کیا گیا کاغذ پر اس کا نقشہ تک موجود نہیں تھا۔ عصر حاضر میں چونکہ لوگ پڑھنے پڑھانے کے بجائے تصاویر دیکھتے دکھاتے ہیں اس لیے تقریباً سبھی وزراء نے چین کے بیجنگ میں واقع ہوائی اڈے کی تصویر بلا تکلف ٹویٹ کر دی۔ اس پر ایک چینی اہلکار نے اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ :’’مجھے یہ جان کر حیرانی ہو رہی ہے کہ حکومت ہند کے افسروں کو اپنی حصولیابی گنانے کی خاطر چین کے ڈیکسنگ انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی تصاویر کا سہارا لینا پڑ رہا ہے‘‘۔ اس ٹویٹ کے ساتھ سرپیٹتا ہوا ’اموجی‘ بھی شیئر کیا گیا جو بی جے پی کے لیے شرمناک بات ہے۔ غالب سے معذرت کے ساتھ؎
ووٹ کس منہ سے مانگو گے یوگی
شرم تم کو مگر نہیں آتی
اتر پردیش میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ ڈھائی ماہ قبل انڈین ایکسپریس جیسے موقر اخبار میں یوگی کا اشتہار چھپا تو اس میں مغربی بنگال کا پُل نظر آگیا۔ اس بھول چوک کے لیے اخبار والوں نے معافی مانگی لیکن کیا یوگی اور ان کے عملہ نے اسے نہیں دیکھا اور کیوں ان پر کارروائی نہیں کی گئی۔ اس وقت اکھلیش یادو نے طنز کرتے ہوئے لکھا تھا ’’وزیر اعلیٰ یوگی کے جھوٹ کی پھر پول کھل گئی ہے۔ اشتہارات میں عوام کا پیسہ پانی کی طرح بہانے والوں کے پاس دکھانے کے لیے اپنا کیا ہوا کوئی کام نہیں ہے تو کولکاتا میں تعمیر شدہ فلائی اوور کی تصویر چھاپ کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ شرمناک ہے اور بی جے پی حکومت جھوٹ بولنے میں نمبر ایک ہے‘‘ عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے بھی یوگی حکومت کے اشتہار پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا، ’’ایسا وکاس نہ سنا ہوگا نہ دیکھا ہوگا۔ کولکاتا کا فلائی اوور کھینچ کر لکھنؤ لے آئے ہمارے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ جی۔ بھلے ہی اشتہار میں لے آئے لیکن لائے تو سہی۔‘‘ اس اشتہار پر عندلیب شادانی کا یہ شعر من وعن صادق آتا ہے؎
کیوں یہ مہر انگیز تبسم مد نظر جب کچھ بھی نہیں
ہائے کوئی انجان اگر اس دھوکے میں آ جائے تو
اس تمہید کے بعد نیتی آیوگ کے کثیر جہتی غربت انڈیکس (این پی آئی) پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے وکاس پُرش کہلانے والے نتیش کمار کے بہار میں غریبوں کی فیصدی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد بہار سے الگ ہونے والے جھارکھنڈ اور پھر اتر پردیش کا نمبر آتا ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق بہار کی 51.91 فیصد آبادی غریب ہے اس کے بعد جھارکھنڈ میں 42.16 فیصد اور یو پی میں 37.79 فیصد لوگ غریب ہیں۔ چوتھا نمبر مدھیہ پردیش کا ہے جہاں غریبوں کا فیصد 36.65 اور پھر میگھالیہ آتا جہاں 32.67 فیصد لوگ غربت کا شکار ہیں۔ ان پانچ میں سے چار کے اندر بی جے پی یا اس کے حلیف برسرِ اقتدار ہیں یعنی کہیں بی جے پی کی واحد اکثریتی حکومت ہے یا کہیں مخلوط حکومت ہے۔آبادی میں فیصد کے بجائے غریبوں کی تعداد کو دیکھیں تو 2011 کی مردم شماری کے مطابق یو پی کی آبادی 19.98 کروڑ ہے اور اس کے 37.79 فیصد یعنی 7.55 کروڑ لوگ غریب ہیں جبکہ بہار کی آبادی 10.4 کروڑ ہے اس لیے وہاں صرف 5.4 کروڑ آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ اس طرح اتر پردیش پہلے نمبر پر آجاتا ہے اور اشتہار بازی سے بنا گیا مایا جال تہس نہس ہو جاتا ہے۔
یہ رپورٹ تین مشترکہ جہتوں صحت، تعلیم اور معیار زندگی کو پیش نظر رکھ کر تیار کی گئی ہے۔ اس میں غذائیت، بچوں اور نوعمر بچوں کی شرح اموات قبل از پیدائش زچہ کی دیکھ بھال، اسکول میں حاضری، گھریلو ایندھن، صفائی، پینے کا پانی، بجلی، رہائش، املاک اور بینک کھاتے جیسے بارہ اشاریوں کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس کے مطابق غربت کا قومی اوسط25.01 فیصد بنتا ہے مگر ریاستوں کی صورتحال قدرے درست تصویر پیش کرتی ہے۔ اسی طرح اگر ضلعی سطح پر جائیں تو اتر پردیش کے تین ضلعوں میں غربت ستر فیصد سے زیادہ ہے۔ ضلع شراوستی میں یہ فیصد 74.38 ہے جو ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ بہرائچ 71.88 فیصد پر ہے اور پھر بلرام پور آتا ہے جہاں یہ تناسب 69.45 فیصد ہے۔ دارالحکومت لکھنو میں غریب سب سے کم اور اس سے قریب کانپور کا بھی یہی حال ہے۔ اسی طرح دلی سے لگے غازی آباد میں غربت کی شرح کم ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں سیاستداں رہتے بستے ہیں وہاں غربت کم ہو جاتی ہے اور دور دراز کے علاقے نظرانداز ہو جاتے ہیں۔ اتر پردیش کے علاوہ بہار میں پانچ غریب ترین اضلاع ہیں اور مدھیہ پردیش میں دو اس طرح ملک کے دس مفلس ترین اضلاع جہاں ساٹھ فیصد سے زیادہ غربت ہے، بی جے پی اور اس کے حلیف کی ریاستوں میں واقع ہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم نریندر مودی نے پلاننگ کمیشن کے خاتمہ کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ اس کی جگہ نئے ہندوستان کے عزائم اور ضرورتوں کا احاطہ کرنے والا نیتی آیوگ قائم کیا جائے گا۔ اس نئے ادارے کے تعلق سے جو شکوک وشبہات تھے ان کو دور کرنے کے لیے بتایا گیا کہ یہ حکمرانی اور پالیسی سازی کے نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرے گا۔ آئین ہند کے بنیادی اصولوں، تہذیبی تاریخ کے علم اور موجودہ سماجی، ثقافتی اور معاشی تناظر میں پا لیسی وضع کرے گا تاکہ اس سے نیا ماحول بنے اور بے مثال تبدیلیاں نمو دار ہوں۔ اس پالیسی ساز ادارے کی تشکیل سے قبل وزرائے اعلیٰ اور ماہرین معاشیات سے وسیع پیمانے پر صلاح ومشورہ کیا گیا۔
نیتی آیوگ کے تحت حکمرانی میں بہتری کی شرط ِاول عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانا قرار دیا گیا۔ اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا کہ دنیا کی بہتر چیزوں کو قبول کیے بغیر ہندوستان میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی نیز ترقی کے لیے اپنی حکمت عملی تلاش کرنے کی ذمہ داری نیتی آیوگ کو سونپی گئی ہے۔ اس کے ساتھ تمام سطحوں پر عوامی شراکت کے ذریعہ خدمات کی فراہمی کو بہتر بنا نے پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے مقاصد کے حصول کی خاطر شہریوں کی شمولیت کو یقینی بنا کر حکومت کو صاف شفاف اور جوابدہ بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کی بات کی گئی ۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اقتصادی محاذ کے امور کو شامل کیا گیا نیز قومی و بین الاقوامی ماہرین اور پیشہ وروں کے اشتراک سے معلومات مجتمع کرنے اور اسے جدت پسندی کے ساتھ پالیسی سازی کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
نیتی آیوگ نے مذکورہ بالا خطوط کی روشنی میں نہایت معروضی طریقہ پر حقیقت حال کا جائزہ لے کر یہ رپورٹ تیار کی مگر اس کو ایسے وقت میں پیش کر دیا گیا جس سے حقیقت حال کھل کر سامنے آگئی اور جھوٹ پھیلانے کا سرکاری منصوبہ زمین بوس ہو گیا۔ اس کے نتیجے میں قوم کے سامنے تو آئینہ آگیا لیکن اس میں یوگی اور مودی کے کریہہ عکس دیکھ کر ان دونوں کو بہت غصہ آیا ہو گا۔ نیتی آیوگ سے یہ غلطی دوسری بار ہوئی ہے۔ پچھلے سال بہار اسمبلی انتخاب سے قبل اس نے رپورٹ شائع کرکے بی جے پی کے لیے مشکلات کھڑی کر دی تھیں۔ اس بار یوپی الیکشن کی تیاری کے دوران یہ رپورٹ آگئی ہے۔ مودی جی نے اس وقت سوچا بھی نہیں ہو گا کہ یہ نیا ادارہ کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے گا جو ان کے سیاسی مفادات سے متصادم ہو گا لیکن ایسا ہو رہا ہے اس لیے بعید نہیں کہ جلد ہی اس کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے کیونکہ سرکاری خزانے کا استعمال حکومت کے خلاف ہو یہ بی جے پی کے لیے جلد یا بہ دیر ناقابلِ قبول ہو جائے گا۔
وزیر اعظم کی سربراہی میں کام کرنے والے نیتی آیوگ نے گزشتہ سال پائیدار ترقیاتی ہدف 2019-20 رپورٹ الیکشن سے قبل جاری کر دی تھی۔ اس میں باسٹھ نکات کی کسوٹی پر ملک کی اٹھائیس ریاستوں کا جائزہ پیش کیا تو بہار کو انتہائی پسماندہ پایا گیا تھا۔ اس وقت کانگریس نے اسے نتیش کمار کے لیے وزیر اعظم مودی کا تحفہ قرار دیا تھا۔ کانگریس نے اس بے حد شرمناک اور تکلیف دہ نتائج کے سبب بہار حکومت کو ’پھسڈی‘ کہا تھا کیونکہ تقریباً سبھی پیمانوں میں نتیش بابو کی قیادت ناکام ثابت ہوئی تھی۔ اس وقت بھی بہار ہندوستان میں سب سے زیادہ غریب ریاست تھی اور اب بھی ہے لیکن حالت مزید دگرگوں ہو گئی ہے۔ پچھلے سال بہار کی 33.74 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے تھی اس سال یہ تناسب بڑھ کر 51.91 فیصد ہو گیا ہے۔ ایک سال قبل حزب اختلاف کو جس طرح بہار حکومت پر تنقید کا موقع ملا تھا اس بار یوگی کے خلاف مل گیا ہے۔
نتیش کمار نے تو خیر اس بار نیتی آیوگ کی رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا مگر بہار کے صوبائی وزیرِ توانائی بجیندر پرساد یادو اور بی جے پی کے ترجمان رنجن پٹیل نے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر زمینی حقیقت کے خلاف بتایا۔ ان لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ اس ادارے کا سربراہ ان کی اپنی پارٹی کا وزیر اعظم ہے۔ یہ رپورٹ اگر جھوٹی ہے تو اس پر مہر لگانے اور اس کو پھیلانے کے لیے مودی جی ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔ بہار کی اس حالتِ غیر کی کئی وجوہات سامنے آئی تھیں مثلاً وہاں ملک میں سب سے کم تربیت یافتہ اسکولی اساتذہ تھے۔ بارہویں درجہ میں اسکول ڈراپ آؤٹ یعنی تعلیم چھوڑ دینے والے طلباء کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم میں دوسرے صوبوں کی بہ نسبت سب سے کم طلباء داخلہ لیتے تھے۔ مودی جی کے پسندیدہ شعبے یعنی اسکولوں میں طالبات کے لیے بیت الخلاء کے معاملہ میں بھی بہار آخری پائیدان پر تھا۔ اس چشم کشا رپورٹ کے بعد ایک سال بیت گیالیکن کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ نہ تو نتیش کی حکومت بدلی اور نہ بہار بدلا بلکہ وہ تو غربت کے آخری پائیدان پر جما رہا۔
تعلیم کے علاوہ روزگار کے شعبے میں بھی بہار کا برا حال ہے۔ منریگا کے تحت محنت کش مزدوروں کو سب سے کم کام بہار میں ملتا ہے ۔ سولہ سے چونسٹھ سال کی آبادی کے لیے کام کی فراہمی ملک میں سب سے کم اسی صوبے میں ہے۔ بہار میں بینکوں کی سہولت اور رسائی بھی سب سے کم ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا اور ایل پی جی گیس استعمال کے معاملے میں بھی بہار سب سے پسماندہ ہے۔ بہار میں سب سے زیادہ بچے عدم غذائیت کے شکار ہوتے تھے اور بڑی ریاستوں میں خون کی کمی کی شکار حاملہ خواتین سب سے زیادہ بہار میں تھیں مگر اس سال یوگی کے اتر پردیش نے اس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور وہ پہلے نمبر پر آگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتی آیوگ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے حزب اختلاف کے رہنما اکھلیش یادو نے کہا کہ اتر پردیش کی بی جے پی کے لیے غریبی پر آنے والے نتائج ایک شرمناک تمغہ ہے۔ اتر پردیش کو غربت میں دھکیلنے والے کیا کسی کی آمدنی دوگنی کریں گے؟
لالو پرساد یادو نے الزام لگایا تھا کہ نتیش جی نے ان کے ذریعہ تعمیر کردہ ہزاروں طبی مراکز بند کر دیے اور اسکولوں کو گیرج میں تبدیل کردیا۔ اس کے سبب نام نہاد ڈبل انجن حکومت بہاریوں کے لیے پریشانی کا انجن بن گیا ۔اس بار وہ بولے پچھلے سولہ سالوں میں کوئی قابلِ ذکر ترقی نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس کیرالا کو دیکھیں تو وہاں جملہ چودہ ضلعوں میں سے غربت ایک فیصد سے کم ہے اور کوٹایم میں تو ایک بھی فرد غریب نہیں ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر عوام کو فرقہ وارانہ مسائل میں الجھا کر نااہل لوگ اقتدار پر قابض ہو جائیں تو عوام کو اس کی کیا قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ہر صوبے کا سیاستداں یکساں عیش کرتا ہے بلکہ بدحال ریاستوں کے رہنماوں کے پاس ممکن ہے دھن دولت کی ریل پیل زیادہ ہوتی ہو لیکن عوام کو غربت کی چکی میں پِسنا پڑتا ہے۔ ملک کے عوام کو جب یہ کھیل سمجھ میں آجائے گا ان کی قسمت کا ستارہ چمکنے لگے گا ورنہ بعید نہیں کہ کیرالا جیسے ترقی یافتہ صوبے کو بھی یہ زعفرانی انقلاب تاریکی کے اندھیرے میں دھکیل دے اور کیرالا کے لوگوں سے یہ کہتے ہوئے اقتدار پر قابض ہو جائے کہ؎
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
***
نیتی آیوگ نے مذکورہ بالا خطوط کی روشنی میں نہایت معروضی طریقہ پر حقیقت حال کا جائزہ لے کر یہ رپورٹ تیار کی مگر اس کو ایسے وقت میں پیش کر دیا گیا جس سے حقیقت حال کھل کر سامنے آگئی اور جھوٹ پھیلانے کا سرکاری منصوبہ زمین بوس ہو گیا۔ اس کے نتیجے میں قوم کے سامنے تو آئینہ آگیا لیکن اس میں یوگی اور مودی کے کریہہ عکس دیکھ کر ان دونوں کو بہت غصہ آیا ہو گا۔ نیتی آیوگ سے یہ غلطی دوسری بار ہوئی ہے۔ پچھلے سال بہار اسمبلی انتخاب سے قبل اس نے رپورٹ شائع کرکے بی جے پی کے لیے مشکلات کھڑی کر دی تھیں۔ اس بار یوپی الیکشن کی تیاری کے دوران یہ رپورٹ آگئی ہے۔ مودی جی نے اس وقت سوچا بھی نہیں ہو گا کہ یہ نیا ادارہ کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے گا جو ان کے سیاسی مفادات سے متصادم ہو گا لیکن ایسا ہو رہا ہے ۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 05 تا 11 دسمبر 2021