نظریۂ ارتقا و تصوّرِ تخلیق۔عصری مباحث کا جائزہ

ڈارون کی مقبول عام تھیوری کے مختلف پہلووں پر ڈاکٹر محمد رضوان کی ایک اہم تصنیف

عمر فاروق

سائنسی علوم کی تاریخ میں جن نظریات کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے ان میں ڈارون کے نظریۂ ارتقا کو بلاشبہ پہلی صف میں کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ مگر امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس نظریہ کے بارے میں لوگ عام طور پر دو انتہاؤں کا شکار ہو گئے۔ ایک گروہ نے اس کو من و عن تسلیم کر لیا اور اسے ہر خامی سے پاک و منزہ قرار دیا تو دوسرے گروہ نے اس کی شدید مخالفت کی اور اسے مطلقاً مذہب بیزار اور خالص ملحدانہ نظریہ قرار دے دیا۔ اصل میں یہ نظریہ نہ اس لائق تھا کہ اسے وحیِ الٰہی کی طرح مکمل طور پر قبول کر لیا جاتا اور نہ ہی اس کی ہر بات دیوار پر مارے جانے کے لائق تھی۔ ڈارون اور اس کے متبعین نے کائنات اور اس کے وجود کے متعلق ان سوالات کو حل کرنے کی کوشش کی جنہیں آج تک دنیا کے بڑے بڑے فلاسفہ حل کرنے کی کوشش کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان فلاسفہ میں سے جنہوں نے اس کائنات کو ایک خدا کی تخلیق مانا اور وحی الہی کی روشنی میں ان ہی سوالات کو حل کرنے کی کوشش کی وہ ان میں سے ہر سوال کا ایسا جواب تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے جو کم از کم خود ان کے دلوں کو مطمئن کر گیا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اس نورِ خداوندی کو استعمال میں لائے بغیر ہی ان کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی وہ یوں ہی در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور زندگی کی آخری سانسوں تک باہم متضاد نظریات ہی اگلتے رہے۔ گویا وہ ہر معلول کی علت تلاش کرنے کی کوشش میں علّة العلل اور ہر واقعے کا سبب ڈھونڈنے کی فکر میں مسبّب الاسباب کو جیسے بھول ہی گئے۔ حکیم الامت ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ نے اپنے الفاظ میں اس کی کیا ہی خوب ترجمانی کی ہے؎
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنيا ميں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پيچ ميں الجھا ايسا
آج تک فيصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کيا
زندگی کی شبِ تاريک سحر کر نہ سکا
ہر نظریہ کی طرح یہ نظریہ بھی جب خالص سائنسی، علمی اور تحقیقی نوعیت کی گفت و شنید کے دائرے سے باہر نکلا تو لوگوں نے اس کی عجیب و غریب تاویلیں کیں۔ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے متعلق مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے ایک مختصر مضمون میں لوگوں کے اسی رویے کی منظر کشی ان الفاظ میں کی ہے کہ:
’’ڈارون نے خود کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ حقیقت کو پا گیا ہے۔ اس کے نظریے کے قائلین میں سے جو لوگ فی الواقع سائنٹسٹ ہیں وہ بھی اپنے قیاس کو حقیقت اور واقعہ نہیں قرار دیتے۔ مگر جن لوگوں کو سائنس کی اڑتی ہوا لگ گئی ہے وہ اس زور و شور سے اس کا ذکر کرتے ہیں کہ گویا حقیقت بے نقاب ہو کر ان کے سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔‘‘ (تفہیمات، جلد دوم، ص:۲۴۴)
تو ضرورت اس بات کی تھی کہ اس نظریہ کو اپنی اصل شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے اور اس کے مسلّمہ ہونے کے دعوے کے کھوکھلے پن کو بھی آشکار کیا جائے۔ اسی ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے چند ماہ پہلے ڈاکٹر محمد رضوان کی کتاب ’’نظریۂ ارتقا و تصوّرِ تخلیق ۔ عصری مباحث کا جائزہ‘‘ منظر عام پر لائی گئی۔
ڈاکٹر محمد رضوان اس وقت ڈیپارٹمنٹ آف مالیکیولر بائیولاجی اینڈ جینیٹک انجینرنگ (Department of Molecular Biology And Genetic Engineering) گیسٹ فیکلٹی ڈیپارٹمنٹ آف بائیوٹیکنالوجی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دلی میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ڈپٹی ڈائریکٹر سنٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ، نئی دہلی

بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ابتداء ہی میں اس کتاب کو لکھنے کے تین اہم مقاصد بیان کرتے ہیں جن کا خلاصہ یوں ہے:
۱) عوام کے سامنے آسان زبان میں نظریۂ ارتقا کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا جائے تاکہ ان پر یہ بات واضح ہو کہ نظریۂ ارتقا نے جتنے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے اتنے ہی نئے سوالات بھی پیدا کیے ہیں۔
۲) دوم یہ کہ مذاہبِ عالم (خصوصاً اسلام) اور نظریہ ارتقا کے باہمی تعلق اور مذہبی طبقات کی جانب سے اس نظریہ کے علمی رسپانس کی اجمالی تاریخ اور تاثرات کا جائزہ لیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کا ماننا ہے کہ مسلم علماء اور مفکرین نے نظریۂ ارتقا کے بالمقابل زیادہ تر عیسائی رسپانس کی ہی تقلید کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں قرآن کے تخلیقی بیانیے کا جائزہ بھی لیا جائے۔
۳) سوم یہ کہ مسلم طلبہ، محققین اور اساتذہ کے اذہان میں نظریۂ ارتقا اور مذہب کے حوالے سے اُٹھنے والے سوالات کا تسلی بخش جواب دیا جاسکے۔
یہ کتاب گیارہ ابواب اور ۲۰۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے موجودہ امیر اور کئی کتابوں کے مصنف جناب سید سعادت اللہ حسینی نے اس کتاب کا جامع اور عالمانہ مقدمہ تحریر کیا ہے۔ اس میں انہوں نے سائنسی علوم کے سلسلے میں افراط و تفریط سے بچنے کی تلقین کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فلکیات، ارضیات، علم الابدان اورعضویات وغیرہ کے ماہرین کو ابھی اپنے اپنے متعلقہ شعبہ جات میں اسلامی موقف کی ترجمانی کرنے پر ابھارا ہے۔
باب اول میں مصنف نے نظریۂ ارتقا کا تفصیلی تعارف پیش کیا ہے اور قارئین کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی ہے کہ کس طرح اس نظریے نے سائنس کے دائرے سے نکل کر زندگی کے دیگر شعبہ جات کو بھی متاثر کیا ہے۔
باب دوم بعنوان زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟‘‘ کے تحت مصنف نے زندگی کی ابتدا کے متعلق تقریباً آٹھ مختلف سائنسی تصورات اور تجربات کو بیان کیا ہے اور ساتھ ساتھ ان پر کئی جان دار سوالات بھی قائم کیے ہیں۔
باب سوم کو موصوف نے ’’ابتدائی حیاتیاتی سالمات سے ابتدائی خلیے تک‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ اس میں انہوں نے ابتدائی حیاتیاتی سالمات (Initial Biomolecules) سے ابتدائی خلیے (cell) بننے کے عمل کے متعلق مختلف سائنس دانوں کی آراء کو بنیاد بنا کر بحث کی ہے۔ اس بحث کے آخر پر مصنف خود اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’’ابتدائی حیاتیاتی سالمے سے ابتدائی خلیے تک کا سفر اب بھی مفروضوں پہ مبنی ہے اور کوئی ٹھوس ثبوت اس امر کا نہیں ہے کہ ان سالمات نے ابتدائی خلیے کی شکل حاصل کی۔‘‘( ص،۷۵)
’’انواع اور انواع پذیری‘‘ کے عنوان کے تحت باب چہارم میں ڈارون کے تصورِ نوع (Concept of Species) پہ بحث کرتے ہوئے وہ رقمطراز ہیں کہ ’’پر لطف بات یہ ہے کہ سائنسی حلقوں میں انواع کی تعریف ہی پر اتفاق نہیں ہے اور یہ اختلاف محض فروعی نوعیت کا نہیں بلکہ اصولی اور جوہری نوعیت کا بھی ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب آگے لکھتے ہیں کہ ’’اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈارون کا تمام تر نظریہ ارتقائے انواع اور اس کے ظہور سے بحث کرتا ہے اور موجودہ حالت یہ ہے کہ نوع کی تعریف ہی متعین نہ ہوسکی۔‘‘(ص،۷۸)
انواع پذیری کے متعلق ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ’’اصل مسئلہ خوردبینی جان دار (Micro Organisms) جیسے بیکٹیریا کی انواع پذیری کے سلسلے میں پیش آیا۔ خورد بینی جان داروں میں انواع پذیری کی توجیہ کلاسیکل ڈاروینی تصور سے کرنا نا ممکن ہے کیوں کہ یہاں انواع پذیری کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے‘‘ (ص،۸۲ )
باب پنجم بعنوان ’’تصورِ ارتقا اور ساخیاتی پیچیدگی‘‘ میں مصنف پیچیدگی کے ظہور پر بحث کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ’’انسانی دماغ اور اس کے سیکڑوں تعاملات فطری انتخاب اور تصورِ ارتقا کے بیانیے کے ذریعے سمجھائے نہیں جاسکتے۔ خاص طور پر اعلی ادراکی تفاعل (Higher Cognitive function) کی توجیہ چمپانزی میں موجود ابتدائی ادراکی تفاعل سے کرنا ایسے ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا ۔‘‘
(ص،۹٦)
اسی طرح وہ صفحہ ۱۰۴ پہ لکھتے ہیں کہ ’’جنسیت جیسی ساختی پیچیدگی کو جو یکسر ایک جدا قسم کا جان دار بناتی ہے محض فطری انتخاب کے تصور سے سمجھنا مشکل ہے‘‘
باب ششم بعنوان ’’تصورِ ارتقا، نظریہ ارتقا اور موجودہ انسان‘‘ میں فاضل مصنف نے انسانی ارتقا کے متعلق کافی دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ وہ انسان کے متعلق نظریہ ارتقا پر تنقید کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ’’ماں کی ممتا کو محض ایک ہارمون (Oxytocin ) کے کم یا زیادہ رساؤ سے نہیں سمجھا جاسکتا۔ باپ کی شفقت کے ہزاروں مظاہر محض اضافی فٹنس کے ماڈل سے نہیں سمجھائے جا سکتے۔ اخلاق کے اجتماعی مظاہر کی توجیہ محض حیاتیاتی ایثار پسندی (Biological Altruism) سے نہیں کی جا سکتی۔ یہ لا یعنی تسہیل (Over Simplification) کے زمرے میں آجائے گا جس سے توجیہ خبط ہو جائے گی۔
اسی طرح مستقبل کی فکر اور ذخیرہ اندوزی کو بھی محض حیوانی جبلیات نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ حالاں کہ اس کی ڈاروینی توجیہات موجود ہیں لیکن وہ لا یعنی تسہیل ہیں۔(ص،۱۱۰)
باب ہفتم کو ڈاکٹر صاحب نے ’’جدید انسان، رکازات اور نظریہ ارتقا‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ اس میں وہ ارتقائی سائنس میں رکازات (Fossils) کی اہمیت اور اس کے مختلف شعبہ جات سے بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ رکازات جنہیں انسانی نظریہ ارتقا کا سب سے اہم ذریعہ معلومات سمجھا گیا، ان سے حاصل ہونے والے جوابات مزید نئے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ارتقا اور رکازات اور اس سے جڑی مختلف جہات پر تقریبًا ۱۲ ہزار سائنسی تحقیقات شائع ہو چکی ہیں۔ تاہم اب بھی رکازاتی سائنس رکازاتی ارتقائی مشاہدے کی کڑیاں جوڑنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی ہے۔‘‘( ص،۱۲۳ )
باب ہشتم بعنوان ’’نظریہ ارتقا اور الحاد‘‘ میں موصوف نے اس سوال سے بحث کی ہے کہ کیا نظریہ ارتقا کو ماننا الحاد کو قبول کرنے کے مترادف ہے؟ اس بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے نزدیک مذہبی ہونے اور ڈاروینیت کا قائل ہونے میں کوئی تقابل نہیں ہے، تا وقتیکہ آپ ڈارون کے نظریہ ارتقا کو ہی اپنا مذہب نہ ماننے لگ جائیں۔‘‘( ص،۱۳۹)
وہ آگے رقمطراز ہیں کہ ’’نظریہ ارتقا کا قائل لازمی طور پر الحاد کا علم بردار بنے، یہ اس کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے، کیوں کہ نظریہ ارتقا میں موجود سیکڑوں اسقام مذاہب میں موجود سیکڑوں اسقام جیسے ہی ہیں، جن کی توضیح و تشریح ممکن نہیں۔‘‘(ص،۱۴۲)
باب نہم ’’خدا آشنا ارتقا _ عیسائی نقطہ نظر‘‘ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ادھر گزشتہ چند دہائیوں سے عیسائی دنیا کے بعض اہم محققین نے نظریہ ارتقا اور بائبل کے تخلیقی بیانیے میں تطبیق کی کوشش کی ہے۔ یہ تمام محققین بائبل کے تخلیقی بیانیے پر مکمل اعتقاد رکھتے ہیں اور نظریہ ارتقا کو بھی جزوی طور پر یا بعض صورتوں میں مکمل طور پر صحیح مانتے ہیں۔ ایسے محققین خدا آشنا ارتقا پر یقین رکھتے ہیں۔(ص،۱۵۲)
وہ آگے لکھتے ہیں کہ ’’تاہم خدا آشنا ارتقا کا تصور اپنے اندر غیر معمولی اپیل رکھتا ہے۔وہ اس لیے بھی کہ سائنسی تحقیقات کی صحت پر جتنا اطمینان بڑھتا جائے گا اتنا ہی نظریہ ارتقا کے رد و قبول کی دوئی (Binary) کے درمیان کے راستے کی تلاش شدت اختیار کرتی جائے گی۔ (ص،۱۵۹)
باب دہم کو فاضل مصنف نے ’’نظریہ ارتقا۔ مسلم علماء و مفکرین کی نظر میں‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ اس میں انہوں نے ما قبل ڈارون مسلم فلاسفہ و محققین کے ساتھ ساتھ ماضیِ قریب کے مسلم علماء و دانشوران کی ارتقا کے متعلق مباحث کا اجمالاً تذکرہ کیا ہے۔ ڈارون سے قبل وہ زندگی کی ابتداء کے متعلق ابن مسکویہ، البیرونی اور ابن سینا کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے نظریہ ارتقا کے متعلق جمال الدین افغانی، سرسید احمد خان، مولانا سید ابو الاعلی مودودی، عبدالعزیز بن باز، علامہ اقبال اور ڈاکٹر حمید اللہ وغیرہ کی آراء بھی نقل کی ہیں۔
گیارہویں اور آخری باب میں فاضل مصنف نے قرآن کے تخلیقی بیانیہ کو پیش کیا ہے۔وہ قرآن کے تخلیقی بیانیے کو درج ذیل نِکات کی روشنی میں بالتفصیل بیان کرتے ہیں:
۱) تخلیق کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔۲) تخلیق حق کے ساتھ ہے۔۳) تخلیق انسان مرکوز ہے۔۴) تخلیقی بیانیہ میں استعارہ (allegory) بہرحال موجود ہے۔۵) تخلیق مقصدیت کے ساتھ ہے۔٦) تمام تر انواع کی تخلیق کا مادہ ’’مصدر‘‘ ایک ہے۔۷) تخلیق مرحلہ وار ہے۔
اس کتاب کے آخر پر ڈاکٹر صاحب قرآن کے تخلیقی بیانیہ اور نظریہ ارتقا کے مابین مماثلت اور جوہری فرق کو نمایاں کرتے ہیں۔
اس شان دار اور جان دار تصنیف کے لیے ڈاکٹر محمد رضوان صاحب مبارک بادی کے مستحق ہیں جنہوں نے ایک اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو ایک ترتیب سے بیان کر کے مسلم طلبہ کے لیے اس مشکل موضوع کو سمجھنا آسان کر دیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازے۔آمین
آخر میں ڈاکٹر صاحب کی توجہ چند نکات کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا جن پر اگر دھیان دیا جائے تو کتاب کی اہمیںت و افادیت میں اور اضافہ ہو گا۔
۱) کتاب کی زبان قدرے مشکل ہے، اس کو ممکنہ حد تک آسان بنانے کی کوشش کی جائے۔
۲) نظریہ ارتقا کی اہم اصطلاحات اور تجربات کو الگ سے آسان الفاظ میں سمجھا کر کتاب میں شامل کیا جائے۔
۳) ان ابواب پر یوٹیوب کے ذریعے ویڈیو لیکچرز دیے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ خصوصًا طلبہ اس کتاب کے مباحث کو بآسانی سمجھ سکیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 ڈسمبر تا 10 ڈسمبر 2022