نئی اسرائیلی حکومت ۔۔ انتہا پسندوں کا اتحاد

فاشسٹ لیڈر نیتن یاہو کو چھٹی مرتبہ اقتدار۔ دورِابتلاء کا ایک نیا باب!

مسعود ابدالی

حکومتی بنچوں میں سے نصف پر یہودی علما اور ان کے نیاز مند براجمان
اسرائیل کے انتہاپسند رہنما بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی حکومت سازی میں کامیات ہو گئے۔ تا دم تحریر انہوں نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا، لیکن 13 دسمبر کو اسرائیلی کنیسہ (پارلیمنٹ) کے اسپیکر کا انتخاب میں حکم راں اتحاد کے امیدوار یاریف لیون Yariv Levinنے 64 ووٹ لے کر میدان مارلیا یا یوں کہیے کہ بی بی نے اپنی اکثریت ثابت کر دی۔ ایک سو بیس رکنی ایوان میں حکومت سازی کے لیے 61 ووٹوں کی ضرورت ہے۔ اسپیکر کے لیے متحدہ حزب اختلاف کے امیدوار نے 45 ووٹ لیے۔ اس موقع پر عرب اور مسلمان پارلیمانی وفود حزب اختلاف سے الگ رہے۔ عربوں کی جماعت حداش کے امیدوار نے پانچ ووٹ لیے جبکہ اخوانی فکر کی حامل رعم اپنے پانچ ارکان کے ساتھ ایوان سے غیر حاضر رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ عرب اور مسلمان جماعتیں اس بار کنیسہ میں حزب اختلاف سے الگ بیٹھیں گی۔ رعم گزشتہ بار حکومت کاحصہ تھی۔
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگاکے دیکھ لیا
دائیں بازو کے قوم پرست سیکیولر اتحاد لیکڈ، خوشنودیِ رب پارٹی (Noam) جماعت عزمِ یہود (Otzma Yehudit) دینِ صیہون پارٹی (Religious Zionism) شاس (پاسبانِ توریت) اور توریت پارٹی پر مشتمل اس اتحاد کو 120 رکنی کنیسہ میں 64 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ عزمِ یہود اور خوشنودیِ رب پارٹی اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے دینِ صیہون کا حصہ ہیں۔ جیسا کہ پارٹیوں کے نام سے ظاہر ہے، نئی حکومت انتہا پسند، عرب مخالف و فلسطین کش جنگجو ٹولے پر مشتمل ہے۔نامزد وزیر اعظم اگر 3 جنوری تک اعتماد کو ووٹ لے کر کابینہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے تو یہ بی بی کا چھٹا عہدِ حکمرانی ہو گا۔اب تک جو تفصیل سامنے آئی ہے اس کے مطابق آنے والی کابینہ میں کوئی خاتون شامل نہیں اور وزرا کی غالب اکثریت دائیں بازو کے انتہا پسندوں پر مشتمل ہے۔
حکومت سازی کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے بی بی نے کہا کہ یہ کام روشنیوں کے تہوار یا Hanukkah کی مبارک ساعتوں میں ہو رہا ہے۔ شادمانی و شکرکا یہ تہوار یروشلم کی پہلی عبادت گاہ کو حضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب کرنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ عبرانی کیلنڈر کے نویں مہینے کیشلیف (Kislev) کی 26 تاریخ سے دسویں مہینے تویت (Tevet) کی دو یا تین تاریخ کو ایامِ ہنوقہ کہا جاتا ہے۔ عبرانی کیلنڈر قمری ہے اس لیے ان کے مہینے بھی 29 یا 30 دن کے ہوتے ہیں چنانچہ ہنوقہ کا اختتام ماہ تویت کی رویت پر ہے۔ اس برس یہ تہوار 18 دسمبر کو غروب آفتاب سے شروع ہوا اور 26دسمبر کی رات کو اختتام پزیر ہو گا۔ ہنوقہ کے دوران گھر کے ہر فرد کے لیے مختص دیوں کے خوبصورت اسٹینڈ یا منوّرہ پر روزانہ شام کو ایک دیا روشن کیا جاتا ہے اور تہوار کے اختتام پر ہر اسٹینڈ 9 دیوں سے منور ہو جاتا ہے۔ اسی بنا پر اس تہوار کو ہنوقہِ منوّرہ بھی کہتے ہیں۔ یہودی عقیدے کی رو سے یہ 9 دن حد درجہ مبارک اور قبولیتِ دعا کے ہیں چنانچہ ان کے معبدوں میں ہر شام دعائیہ مجلسیں منعقد ہوتی ہیں اور اجتماعی استغفار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شاس پارٹی کے سربراہ اور توریت کے عالم اریہ مخلوف درعی Aryeh Makhlouf Deri نے ‘اہلِ ایمان’ کو ایامِ ہنوکا میں نئی حکومت کی کامیابی اور نفاذِ تلمود (یہودی شریعت) کے لیے دعا کرنے کی ہدایت کی ہے۔
جناب درعی نئی حکومت میں پہلے دو سال وزیر صحت اور وزیر داخلہ ہوں گے، جس کے بعد وزارت خزانہ کے ساتھ نائب وزارت عظمیٰ کا منصب انہیں عطا ہو گا۔ ان کی اخلاقی ساکھ کا یہ عالم کے موصوف کو بے ایمانی، رشوت ستانی، ٹیکس فراڈ اور منتخب نمائندے کی حیثیت سے عوام کا اعتماد پامال کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا ہو چکی ہے۔ یہ جرم 1999 میں ثابت ہوا لیکن پارلیمانی استثنیٰ کی بناپر یہ جیل سے باہر ہیں۔ اس بار بھی جب یہ سوال اٹھا کہ ایک ’مجرم‘ وزیر کیسے بن سکتا ہے تو اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا ’جب عوام نے منتخب کر لیا تو وزیر بننے میں کیا قباحت ہے‘؟ اشتراکِ اقتدار معاہدے کے تحت کنیسہ کے پہلے اجلاس میں ایک قانونی ترمیم کے ذریعے جناب درعی کے استثنیٰ کو قانونی تحفظ فراہم کر دیا جائے گا۔
اور تو اور خود بی بی پر بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی پر مقدمہ چل رہا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے دوران انہوں نے استثنیٰ کے سہارے پیشیوں سے جان چھڑائی اور جب حکومت ختم ہو گئی تو کورونا کے نام پر عدالت کا سامنا کرتے سے کتراتے رہے۔
کابینہ کے لیے ایک اور بڑا نام عزمِ یہود پارٹی کے قائد اتامر بن گوو Itamar Ben-Gvir کا ہے۔ چھالیس سال کے اتامر کے لیے قومی سلامتی کا خصوصی قلم دان تراشا گیا ہے۔ پولیس اور ملک کے خفیہ ادارے وزیرِ قومی سلامتی کے ماتحت ہوں گے۔ نفرت انگیز تقریر (hate speech)کے الزام میں کئی بار ان کے خلاف پرچے کٹے۔ انہوں نے سابق اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کو قتل کی دھمکی دی تھی جس کے ایک ہفتے بعد جناب رابن قتل کر دیے گئے۔ اتامار علی الاعلان امریکی دہشت گرد باروش گولڈاسٹائین (Baruch Goldstein) کو ہیرو اور اسرائیل کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی شہریت کے حامل گولڈاسٹائین نے فلسطینی شہر ہیبرون کی ایک مسجد میں نماز ادا کرتے 29 مسلمانوں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ اتامار کھلے عام کہتے ہیں کہ سلطنتِ اسرائیل کی سرحد دجلہ و فرات تک ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بنی قریظہ کے قتل کو نسل کشی قرار دیا جائے اور سعودی حکومت اس پر معافی مانگے۔ اتامار صاحب مسجدِ اقصیٰ کو تمام مذاہب والوں کے لیے کھولنا چاہتے ہیں حالانکہ 1967ء میں قبضے کے وقت اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے تحریری ضمانت دی تھی کہ الحرم الشریف المعروف Temple Mount مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے اور حرمِ کعبہ اور مسجد نبوی کی طرح یہاں غیر مسلموں کا داخلہ عرب محکمہ اوقاف کی اجازت سے مشروط ہو گا۔ اتامار ماضی میں انتہاپسندوں کے ان جلوسوں کی قیادت کر چکے ہیں جس نے حرم الشریف میں داخل ہونے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں وہاں خونریز تصادم ہوئے۔ پولیس انہیں مسجد اقصیٰ کے گرد اشتعال انگیز مظاہروں کی سرپرستی پر کئی بار ملزم نامزد کر چکی ہے۔
انتہا پسندوں کی اس دیگ کا ایک اور چاول دینِ صیہون جماعت کے سربراہ بیزلیل اسموترش Bezalel Smotrich ہیں۔ بیالیس سالہ اسموترش پہلے دو سال وزیر خزانہ ہوں گے جس کے بعد یہ منصب جناب درعی کو دے کر ان سے وزارت داخلہ کا قلم دان اپنے نام کر لیں گے۔ موصوف پر اسرائیلی فوج نے الزام لگایا ہے کہ یہ عرب مہاجر کیمپوں میں زبانی اشتعال انگیزی کے ساتھ عملی تخریب کاری میں مصروف ہیں۔ نامزد وزیر خزانہ کے بارے میں تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اسرائیلی اسٹیٹ بینک نے مالیاتی صلاحیت کے ساتھ موصوف کی ساکھ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بی بی سے درخواست کی ہے کہ جناب اسموترش کو خزانے سے دور رکھا جائے۔ چنانچہ اتامر بن گوو کی طرح اِن کے لیے بھی ایک نئی وزارت قائم کی جا رہی ہے اور وہ سمندر پار یہودی، اسرائیلی بستیوں اور (مقبوضہ) مغربی کنارے کے وزیر ہوں گے۔
دلچسپ بات کہ اعلان ہونے ہی وزارت کے نام پر قدامت پسند سخت مشتعل ہیں۔ انتہا پسندوں کا کہنا ہے کہ ان کی مذہبی کتابوں میں یہ علاقہ یہودا والسامرہ درج ہے۔ مغربی کنارہ کہنے سے اس کی مقبوضہ حیثیت ظاہر ہوتی ہے، وزارت کا نام کچھ بھی ہو اسموترش کو یہ ذمہ داری دینے کا مطلب مقبوضہ عرب علاقوں کے اسرائیل سے ادغام کی تکمیل ہے۔ بی بی کے سابق عہدِ حکومت میں شامی مقبوضہ علاقے گولان کو اسرائیل کا اٹوٹ انگ بنایا جا چکا ہے اور اب مغربی کنارے کی باری ہے۔ معاملہ صرف ان انتہا پسند مذہبی جماعتوں تک محدود نہیں۔ بزعم خود لبرل و سیکیولر لیکڈ اتحاد کا منشور بھی یہی کہتا ہے۔ لیکڈ کا انگریزی ترجمہ نیشنل لبرل موومنٹ ہے لیکن جس تنظیم کو انتہاپسند مناہیم بیگن نے تشکیل دیا اس کے انتہا پسند ہونے میں کیا شک ہے۔ وزیر اعظم مناہیم بیگن نے ستمبر 1982 میں اپنے وزیر دفاع ایرل شیرون اور فوج کے سربراہ جنرل رافیل ایتان کی مدد سے مغربی بیروت کے صابرہ اور شاتیلہ مہاجر کیمپوں میں نہتے فلسطینی پناہ گزینوں کے خون سے جو ہولی کھیلی اس پر سلیم الفطرت یہودی بھی شرمندہ ہیں۔ سولہ سے اٹھارہ ستمبر تک جاری رہنے والے اس کارروائی میں خواتین اور بچوں سمیت 3500 معصوم شہری ذبح کر دیے گئے۔ یہی مناہیم بیگن، بی بی کے ہیرو ہیں۔
لیکڈ کے منشور میں بہت صراحت سے درج ہے کہ یہودا والسامرہ اور غزہ صیہونی اقدار کی نقیب ہپں۔ ان مقامات پر بستیوں کی تعمیر یہودی قوم کا حق ہے۔ یہ بستیاں مملکت کے دفاع کے لیے ریڑھ کی ہڈی اور کلیدی اثاثے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکڈ یہاں نئی بستیوں کی تعیمر اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے تاکہ ماضی کی طرح یہودی قوم دوبارہ کبھی نہ اجڑے۔ مغربی کنارے پر ملکیت کے دعوے کو صاف و غیر مبہم بنانے کے لیے منشور میں یہ بھی لکھ دیا گیا کہ ’دریائے اردن مملکتِ اسرائیل کی مشرقی سرحد ہے‘۔
منشور میں بہت دو ٹوک انداز میں درج ہے کہ لیکڈ اتحاد فلسطینی ریاست کے قیام کے امکان کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ فلسطینیوں کو مملکتِ اسرائیل کے اندر رہتے ہوئے آزادنہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے لیکن آزاد و مختار فلسطین کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
بی بی کی نئی حکومت فلسطینیوں کے خلاف جس جارحانہ عزم کا اظہار کر رہی ہے اس سے مقبوضہ عرب علاقوں میں غیر متوقع طور پر کوئی خاص پریشانی نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ موجودہ اعتدال پسند حکومت میں بھی فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رہی۔ ابھی چند دن پہلے یروشلم میں جنم لینے والے فرانسیسی وکیل صلاح الحموری کو جلا وطن کر دیا گیا۔ جناب الحموری مارچ سے جیل میں تھے۔ اسرائیلی وزیر داخلہ محترمہ آئلہ شیکڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’دہشت گرد صلاح الحموری کو فرانس واپس بھجوادیاگیا‘‘۔ فرانسیسی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں جناب الحموری کی جلا وطنی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسرائیلی حکومت کی اس قدم کی شدید مذمت کی ہے۔
دس دن پہلے فلسطینی علاقے جنین کے ایک محلے میں بچیاں اپنے گھر کی چھتوں پر فلسطینی پرچم لیے مزاحمتی گیت گا رہی تھیں کہ فوج کی گولی سولہ سالہ لڑکی جانا ماجدی عاصم ذکرنا کے سر پر لگی اور وہ وہیں دم توڑ گئی۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان پر گلی سے مظاہرین فائرنگ کر رہے تھے کہ گولی لگنے سے یہ بچی ماری گئی۔ گویا اس معصوم کو اپنے ہی بھائیوں نے قتل کیا۔ ظلم کی انتہا یہ کہ جانا کی میت اس کے وارثین کو اب تک نہیں دی گئی۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس واقع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شفاف عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا جسے اسرائیل نے مسترد کر دیا۔
اس کے دو دن بعد رملہ کی ایک شاہراہ سے گزرنے والی فوجی گاڑیوں پر بچوں نے رنگ اور پتھر پھینکے۔ جواب میں آنے والی گولی 16 سال کے ضیا محمد شفیق کو چاٹ گئی۔ اسرائیلی سپاہی ضیا کی لاش بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اس ایک دن میں چوبیس گھنٹوں کے دوران فوج کی فائرنگ سے پانچ نوجوان جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔
فلسطینی رہنماوں کا کہنا ہے کہ بی بی اگر فرعون صفت ہیں تو رعم کے اتحادیوں نے ہم پر کونسے پھول برسائے ہیں۔ فلسطینی خاتون صحافی شیریں ابو عاقلہ اسی نام نہاد اعتدال پسند حکومت کے دوران نہ صرف قتل ہوئی بلکہ بیت اللحم جیسے محترم علاقے میں اس کے جنازے پر فوج نے حملہ کیا۔ مسیحیوں کے مطابق بیت اللحم حضرت عیسٰیؑ کی جائے پیدائش ہے اور اس کے قبرستان میں حضرت مسیح کے بہت سے پاکباز حواری آرام فرما رہے ہیں۔
سات دہائیوں سے ظلم سہنے اور اس کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والے فلسطینی تو نئی حکومت سے بہت زیادہ پریشان نہیں لیکن ملک کے آزاد خیال اور لبرل یہودی شہری آزادیوں کے حوالے سے فکر مند نظر آتے ہیں۔
اسرائیل میں ہم جنس پرستی بہت تیزی سے مقبول ہو رہی اور ساری دنیا کی طرح ہر سال مارچ میں ہزاروں ہم جنس یروشلم کی سڑکوں پر جلوس نکالتے ہیں جسے LGBT پرائڈ مارچ کہا جاتا ہے۔ ماضی میں اس جلوس پر چھروں سے حملے ہو چکے ہیں۔ دینِ صیہون کے جناب اسمترش کا کہنا ہے کہ پرائڈ مارچ ،اللہ کے غضب کی دعوت دینے کے مترادف ہے اسے ہر قیمت پر بند ہونا چاہیے۔ خوشنودیِ رب یا Naom پارٹی کے سربراہ ایوی معوذ Avi Maoz خود کو ہم جنس پرستی سے خوفزدہ یا homophobe کہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ پرائڈ مارچ نہ رکوا سکے تو حکومت سے الگ ہوجائیں گے۔ ان کی جماعت کے پاس صرف ایک نشست ہے لیکن جب برتری صرف تین کی ہو تو ایک ووٹ بھی بہت بھاری ہے۔
ایوی معوذ صاحب وزارت تعلیم کا قلم دان لینا چاہتے ہیں اور وہ صاف صاف کہہ چکے ہیں وہ وزارت، پرچم یا چوب و دربان کے لیے نہیں بلکہ نصاب میں نظریاتی تبدیلی کے لیے لینا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لبرل ماہرین تعلیم اسرائیلی بچوں کو سیکیولر بنا رہے ہیں اور اگر نئی نسل صیہونی اقدار سے ناآشنا ہو گئی تو اسرائیل کا وجود مٹ جائے گا۔
شاس کو معبدوں، خاص طور سے دیوارِ گریہ کے قریب اختلاط مرد وزن پر بڑی تشویش ہے۔ شاس کو یہ شکایت بھی ہے کہ ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور سرکاری ریستورانوں میں کوشر (یہودی حلال) کا خیال نہیں کیا جاتا اور دھڑلے سے غیر کوشر خوراک پیش کی جا رہی ہے۔ شاید قارئین کو کوشر و غیر کوشر کی بات مضحکہ خیز لگ رہی ہو، لیکن سابق حکومت صرف اسی وجہ سے اکثریت کھو بیٹھی تھی کہ ‘عبورِ عظیم یا Passover تہوار کے موقع پر مریضوں میں بطور تبرک جو حمص (Chametz) تقسیم کیا گیا وہ کوشر نہ تھا اور اس میں خمیر اٹھ چکا تھا۔ خمیری حمص یہودیوں کے یہاں حرام ہے۔ برسر اقتدار جماعت یمینیہ (دایاں) کی رکن پارلیمان ایدت سلیمان اس ‘جسارت’ پر برہم ہو کر حکومتی بنچوں سے اُٹھ آئیں اور ایک ووٹ کی برتری سے قائم وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ کی حکومت ڈگمگا گئی۔
نئی حکومت کی ہئیت دیکھ کر فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھی چینی نظر آرہی ہے۔ گرشتہ دنوں یہ خبر آئی کہ جناب استیمرش وزیر دفاع ہوں گے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جانے لگا کہ اسمیترچ صاحب فوج کا نیا سربراہ خود نامزد کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات پر فوج کے سپہ سالار جنرل عفیف کوہاوی Aviv Kohavi نے صاف صاف کہ دیا کہ وہ عسکری امور میں جناب اسمیترچ کی مداخلت برادشت نہیں کریں گے اور نہ عسکری قیادت کی تقرری میں وزیر موصوف کو اپنی مرضی مسلط کرنے دی جائے گی۔ نئے سربراہ کے لیے فوج نے جنرل ہرزی حلاوی کو نامزد کیا ہے۔ یہ تقرری جنوری میں ہونی ہے۔ اپنے باس کی شہہ پر جنرل حلاوی بھی بول اٹھے کہ فوج میں تقرری میرٹ، ضابطے اور اصولوں پر ہوگی۔ وزارت دفاع کو ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔
دوسری طرف خواتین کو ڈر ہے کہ قدامت پسند حکومت ان کی شہری آزادیوں پر قدغنیں لگائے گی۔ حکومتی بنچوں میں سے نصف پر ربانی (یہودی علما) اور ان کے نیاز مند براجمان ہیں۔ دائیں بازو کے انتہا پسند تو اس سے پہلے بھی حکومت میں آتے رہے ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں ربائیوں نے پہلی بار کامیابی حاصل کی ہے اور یہ لوگ عوامی مینڈیٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے منشور کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ جیسا کہ ہم نے اس پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا کہ بی بی کے لیے اتنے سارے ملاوں (ربائیوں) کو ساتھ لے کر چلنا آسان نہ ہو گا اور گزشتہ پانچ حکومتوں کی طرح یہ بندوبست بھی بہت دن چلنے والا نہیں لگتا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 دائیں بازو کے انتہا پسند تو اس سے پہلے بھی حکومت میں آتے رہے ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں ربائیوں نے پہلی بار کامیابی حاصل کی ہے اور یہ لوگ عوامی مینڈیٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے منشور کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ جیسا کہ ہم نے اس پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھاکہ بی بی کے لیے اتنے سارے ملاوں (ربائیوں) کو ساتھ لے کر چلنا آسان نہ ہو گا اور گزشتہ پانچ حکومتوں کی طرح یہ بندوبست بھی بہت دن چلنے والا نہیں لگتا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 جنوری تا 07 جنوری 2023