اندھیرے میں ڈوبتی نظر آرہی ہے مرکزی حکومت کی ’نئی روشنی‘ اسکیم

اقلیتی سماج سے ہمدردی کا دعویٰ بے معنی۔ کاغذوں پر ہی ہیں تمام اسکیمیں

افروز عالم ساحل 

ماضی کی یو پی اے حکومت کے ذریعے اقلیتی خواتین کی لیڈرشپ ڈیولپمنٹ کے لیے شروع کی گئی ’اقلیتی خواتین لیڈرشپ ڈیولپمنٹ اسکیم‘، یعنی ’نئی روشنی‘ اندھیرے میں ڈوبتی نظر آرہی ہے۔

’نئی روشنی‘ پر مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اقلیتی سماج سے تعلق رکھنے والی خواتین کی زندگی میں امید کی نئی کرن پھیلا رہی ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کاغذوں پر ہی دم توڑتا نظر آرہا ہے۔

ہفت روزہ دعوت نے جب اس اسکیم کے بارے میں جانچ پڑتال کی تو معلوم ہوا کہ مالی سال 22-2021 میں اس اہم اسکیم کا بجٹ گھٹا دیا گیا ہے۔ اس بار اس اسکیم کے لئے محض 8 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ گزشتہ مالی سال میں اس اسکیم کے لیے 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔ حالانکہ مرکزی حکومت نے اس اسکیم کے لیے جتنا بجٹ رکھا اتنا نہ تو کبھی جاری کیا گیا اور نہ کبھی اتنا خرچ کیا جا سکا جتنا کہ جاری کیا گیا۔

ہفت روزہ دعوت کے نمائندے کے ہاتھ لگنے والے آر ٹی آئی کی اہم دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ سال 21-2020 میں اس اسکیم کے لیے 10 کروڑ روپے بجٹ طے کرنے کے باوجود صرف 6 کروڑ روپے ہی منظور کیے گئے اور 31 دسمبر 2020 تک محض 3.98 کروڑ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔ سال 20-2019 میں اس اسکیم کے لیے 15 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن صرف 10 کروڑ روپے ہی جاری کیے گئے اور جب خرچ کرنے کی بات آئی تو اس رقم میں صرف 7.10 کروڑ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔

مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس ’نئی روشنی‘ اسکیم کے تحت اب تک 4,02,215 خواتین کو ٹریننگ دی جا چکی ہے۔ اس معاملے میں اتر پردیش سب سے آگے ہے۔ یہاں اس اسکیم کے تحت اب تک 2,15,275 خواتین مستفید ہوئی ہیں۔ دوسرا مقام مدھیہ پردیش کا ہے۔ یہاں مستفید ہونے والی خواتین کی تعداد 41775 ہے۔

یہ ہے کاغذوں کی کہانی… لیکن جب ہم زمین پر ان اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان اقلیتی خواتین کی لیڈرشپ ڈیولپمنٹ کے نام پر ایسے ادارے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کا اقلیتوں کی ترقی سے شاید ہی کوئی تعلق ہو۔

ہفت روزہ دعوت نے جب اس اسکیم کے تحت ملک بھر میں چل رہے قریب 640 تربیتی مراکز (ٹریننگ سنٹر) پر غیر سرکاری تنظیموں (پروجکٹ امپلیمنٹنگ ایجسنی) کے ناموں کی فہرست کا جائزہ لیا تو اس میں انکشاف ہوا کہ زیادہ تر تنظیموں کا اقلیتی برادری سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں آن لائن ایسی کئی خبریں موجود ہیں، جس میں ’سرسوتی وندنا‘ سے اقلیتی خواتین کے اس تربیتی پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔

ہم نے اس اسکیم کے سلسلے میں اقلیتی خواتین لیڈرشپ ڈیولپمنٹ پر کام کر رہے متعدد سماجی کارکنوں سے بات کی تو زیادہ تر افراد کا کہنا تھا کہ حکومت کی یہ اسکیم کاغذوں پر کافی بہتر چل رہی ہے حقیقت میں اس کا کوئی کام یا اثر دور دور تک نظر نہیں آتا۔

سماجی کارکن شازیہ علی کہتی ہیں کہ حکومت کو خصوصاً اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی صاحب کو یہ بتانا چاہیے کہ ٹریننگ پا چکی یہ چار لاکھ خواتین کہاں ہیں۔ یہ حکومت تو خواتین سے ڈرنے والی حکومت ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ حکومت سے وابستہ لوگوں نے شاہین باغ تحریک میں خواتین پر کس طرح کا الزام لگایا۔ پھر اس حکومت سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی کہ وہ کبھی چاہے گی کہ اقلیتی خواتین میں قائدانہ صلاحیت پیدا ہو۔

پٹنہ کی ایک مشہور سماجی کارکن نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس اسکیم کے تحت غیر سرکاری تنظیموں کے لیے جو شرائط و ضوابط مرتب کیے گئے ہیں اس معیار پر اقلیتی سماج کے درمیان کام کرنے والی شاید ہی کوئی تنظیم کھڑی ہو سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس اسکیم کا فائدہ ان بڑی این جی اوز یا ان لوگوں کو ملتا ہے جو کسی طرح حکومت سے جڑے ہوئے ہیں۔

آپ کو بتا دیں کہ ان کی تنظیم بہار میں اقلیتی خواتین میں قائدانہ معیار کو فروغ دینے کے لیے کام کرتی ہے اور پٹنہ کے لوگوں میں کافی مشہور ہے۔ ان کی تنظیم بھی اس اسکیم کے تحت ایک تربیتی مرکز کھولنے کی کوشش کرچکی ہے لیکن ان کی تنظیم حکومت کے طے کردہ قواعد و ضوابط پر کھری نہیں اترتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس اسکیم کے تحت وہی غیر سرکاری تنظیم ’ٹریننگ سنٹر‘ کھولنے کے اہل ہیں جن کا سالانہ ٹرن اوور کروڑوں میں ہے اور جہاں 70 سے زیادہ افراد ملازمت کرتے ہیں۔

ایک اور سماجی کارکن نے بھی نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’بیشتر ریاستوں میں مَیں نے خود دیکھا ہے کہ یہ پروگرام صرف خانہ پری کے لیے کیا جا رہا ہے۔ صرف کچھ خواتین کو جمع کر کے ان کی فوٹوگرافی کی جاتی ہے۔ اس طرح سے یہ ’نئی روشنی‘ ایک دکھاوا اور سرکاری خانہ پری کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔

وہیں رواں سال 5 فروری 2021 کو ہندی اخبار دینک جاگرن میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق آگرہ میں اس ’نئی روشنی‘ کے تحت تربیت دلانے والی تنظیم ’مسلم سیوا سمیتی‘ کے صدر کے خلاف خواتین نے سنگین الزام لگائے ہیں کہ ٹریننگ دینے والی خواتین کو دو ہزار روپے دینے کی بات کہی تھی لیکن پیسہ تو درکنار انہیں کھانا تک نہیں دیا گیا۔ ساتھ ہی تربیت حاصل کرنے والی خواتین کا الزام ہے کہ اس تنظیم کے صدر نے ان سے فحش گفتگو کی۔ بات نہیں ماننے پر ان خواتین کے ساتھ غلط زبان کا استعمال کیا گیا۔ اس سلسلے میں چھ خواتین نے آگرہ کے انچارج ڈسٹرکٹ اقلیتی فلاح و بہبود افسر کو تحریری طور پر شکایت کی ہے۔

اس کے علاوہ اسی مہینے بجنور کے رکن پارلیمنٹ ملوک ناگر لوک سبھا میں اس اسکیم پر سوال کھڑے کر چکے ہیں۔ میڈیا کو دیے گئے اپنے بیان میں وہ یہ الزام لگا چکے ہیں کہ انہوں نے اس اسکیم کے تحت ٹریننگ دے رہے سرگرم سرکاری تنظیموں کی تعداد طلب کی تھی جس کا حکومت نے گول مول جواب دیا۔

واضح رہے کہ اقلیتی خواتین کی لیڈرشپ ڈیولپمنٹ کی اس اسکیم کا آغاز سب سے پہلے وزارت برائے ترقی خواتین و اطفال نے سال 08-2007 میں اقلیتی طبقہ کی خواتین کی لیڈرشپ ڈیولپمنٹ، امپاورمنٹ، باروزگار و بااختیار بنانے کے مقصد سے کیا تھا۔ جنوری 2010 میں یہ اسکیم وزارت اقلیتی امور کے تحت چلی گئی۔ سال 13-2012 میں اس اسکیم کو ’نئی روشنی‘ کا نام دیا گیا لیکن 2014 میں جب مودی حکومت آئی تو میڈیا میں یہ بات عام کر دی گئی کہ مودی حکومت نے ’نئی روشنی‘ اسکیم کی شروعات کی ہے۔

اس ’نئی روشنی‘ اسکیم کا اصل مقصد معلومات، ٹولس اور تکنیک دستیاب کراکے اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بااختیار بنانا اور ان کے اندر اعتماد پیدا کرنا ہے تاکہ وہ سرکاری انتظامات، بینکوں اور دیگر اداروں سے ہر سطح پر جڑ سکیں۔ اس میں زیر تربیت خواتین کو بااختیار بنانا بھی شامل ہے تاکہ وہ خود اعتمادی کے ساتھ سماج کاحصہ بن سکیں۔ حالانکہ سال 2018 میں ہی وزارت اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ اس اسکیم کے تحت غیر اقلیتی خواتین کو شامل ہونے کی پوری آزادی ہے، لیکن ان کی تعداد کل تعداد کی 25 فیصد رہے گی۔ یعنی یہ اسکیم پوری طرح اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لئے نہیں ہے۔

وزارت اقلیتی امور کے مطابق اس اسکیم کا بحیثیت مجموعی مقصد اقلیتی خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ وہ گھر اور برادری کی حدود سے باہر نکل سکیں اور سماج میں قائدانہ کردار ادا کر سکیں۔ اس اسکیم کے تحت 6 دن کی ٹریننگ دی جاتی ہے جس کے بعد ایک سال کی مدت تک ہینڈ ہولڈنگ کی جاتی ہے یعنی انہیں کچھ کرنے کے لیے سہارا دیا جاتا ہے۔ یہ ٹریننگ پہلے سے تیار ٹریننگ ماڈیولس پر دی جاتی ہے جس میں خواتین سے متعلق مسائل یعنی فیصلہ سازی میں شراکت داری کے توسط سے خواتین کی قیادت، خواتین کے لئے تعلیمی پروگرام، صحت و صفائی، خواتین کے قانونی حقوق، ڈیجیٹل خواندگی، سوچھ بھارت، لائف اسکلس اور سماجی برتاؤ سے متعلق تبدیلی کی وکالت کا احاطہ کیا جاتا ہے۔

’سائیکل یوجنا‘ چلنے سے پہلے ہی پنکچر

مرکزی حکومت اقلیتی طبقہ کے لیے کتنی ایماندار ہے اس کا اندازہ آپ اسی بات سے لگا سکتے ہیں کہ نویں کلاس میں جانے والی اقلیتی طبقے کی لڑکیوں کو تعلیم میں بڑھاوا دینے کے مقصد سے شروع کی گئی ’سائیکل یوجنا‘ اب دور دور تک نظر نہیں آتی۔

واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے نویں جماعت میں پڑھنے والی اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے لیے ’سائیکل یوجنا‘ سال 2012 میں شروع کی تھی۔ اس اسکیم کا اصل مقصد ان غریب اقلیتی طالبات کی مدد کرنا تھا جو اسکول سے دور ہونے کی وجہ سے پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں۔ یعنی وہ مسلم لڑکیاں جو آٹھویں کے بعد گھر بیٹھ جاتی ہیں ان کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھانے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کرانے کے لیے اس اسکیم کی شروعات کی گئی تھی۔ اس كا مقصد لڑكيوں کے ڈراپ آؤٹ کو کم کرنا بھی تھا۔

لیکن سچائی یہ ہے کہ مرکزی حکومت کی یہ ’سائیکل یوجنا‘ چلنے سے پہلے ہی پنکچر ہو گئی۔ ہفت روزہ دعوت کے نمائندے کے پاس موجود دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ وزارت اقلیتی امور کی یہ اہم اسکیم کاغذوں پر بنی اور وہیں ختم بھی ہو گئی۔ یعنی مرکزی حکومت کے ذریعہ اقلیتی طبقے کی بچیوں کو مفت سائیکل دینے کی یہ سوغات محض ایک اعلان سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مرکزی حکومت نے سال 13-2012 میں نویں جماعت کی اقلیتی طبقے کی طالبات کو مفت سائیکل دینے کی اس اہم اسکیم کے لیے 5 کروڑ کا بجٹ رکھا تھا، لیکن جب ریلیز کرنے کی باری آئی تو محض چار لاکھ روپے ہی جاری کیے گیے اور اس چار لاکھ روپے میں سے بھی ایک پیسہ خرچ نہیں ہوا۔ اس کے اگلے سال بھی یہ اسکیم کاغذوں پر ہی رہی۔ اس اسکیم پر کوئی فنڈ مختص نہیں کیا گیا۔ لیکن سال 2014 کے بعد یہ اسکیم پوری طرح سے غائب ہے۔ جبکہ سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی معاشرتی، معاشی اور تعلیمی حیثیت سے متعلق اپنی رپورٹ میں لڑکیوں کی صورتحال کو لڑکوں سے بدتر قرار دیا ہے۔ ڈراپ آؤٹ کے معاملے میں مسلم لڑکیوں کی صورتحال مزید خراب ہے۔ ایسے میں ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا دعویٰ کرنے والی مودی حکومت سی یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ وہ اس اسکیم کو آگے بڑھائے گی لیکن حکومت نے اس منصوبے پر کوئی توجہ نہیں دی۔

اس کے علاوہ اقلیتی طبقے کے نوجوانوں کے لیے شروع کی گئی بعض دوسری اسکیموں کا حشر بھی برا ہے۔

وزارت اقلیتی امور کے مطابق اس اسکیم کا بحیثیت مجموعی مقصد اقلیتی خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ وہ گھر اور برادری کی حدود سے باہر نکل سکیں اور سماج میں قائدانہ کردار ادا کر سکیں۔ اس اسکیم کے تحت 6دن کی ٹریننگ دی جاتی ہے جس کے بعد ایک سال کی مدت تک ہینڈ ہولڈنگ کی جاتی ہے یعنی انہیں کچھ کرنے کے لیے سہارا دیا جاتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 21 مارچ تا  70 مارچ 2021