نفسِ قیس کہ ’تھا ‘ چشم وچراغ صحرا

مولانا مرحوم علمی میدان کے شہ سواراور اخلاص وللہیت کے پیکر تھے

ابوفہد ندوی، نئی دہلی

مسلمانان ہند عام طورپر اور جماعت اسلامی ہند کے افراد وکارکنان خاص طور پر ابھی گزشتہ سال ہی ایک بڑے صدمے سے دوچار ہوئے تھے،جب جماعت اسلامی ہند کے بزرگ عالم دین،داعیِ اسلام اور معروف مصنف مولانا محمدیوسف اصلاحی اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ ابھی تو اس صدمۂ جانکاہ پر پورا ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ جماعت کے ایک اور بزرگ عالم دین مولانا سید جلال الدین انصر عمری کا وقت موعود بھی آپہنچا۔اور امت ایک بار پھر گہرےصدمات سے دوچار ہوگئی۔خاص طورپر جماعت کے ارکان وذمہ داران کے لیے یہ ایک مشکل وقت ہے۔ایسے وقت میں جب امت کے مجموعی حالات اچھے نہ ہوں اور دینِ حنیفی اور ملتِ حنیفیہ اسلام دشمن طاقتوں کے نت نئے حملوں کی زد میں ہوں ،دین اسلام کے کسی داعی وشیدائی ، مصنف ومقرر اور مدبر ومتکلم کے دنیا سے چلے جانے کا درد وغم اور بھی شررانگیز ہوجاتا ہے۔
عام مسلمانوں کو اپنے علماءکی ان کی حیات میں بھلے ہی قدروعزت افزائی کرنی نہ آتی ہو مگر جب کوئی ذی علم ، صلاح وتقویٰ کا پیکر، علم وتحقیق کے میدان کا شہ سوار اور ’’نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو ‘‘ کا مصداق عالم دین دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو عام وخاص سبھی مسلمانوں کو غم اور تکلیف کادونا احساس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ان سے کوئی چیز چھن گئی ہے اور وہ کسی چیز سے محروم ہوگئے ہیں۔ایک طرح کی یتیمی کاسا احساس ان کے دل ودماغ پر حاوی رہتاہے ۔گزشتہ برس مولانا محمد یوسف اصلاحی مرحوم کے انتقال پر ان کے اہل خانہ سے ملک وبیرونِ ملک سے کئی احباب نے اس طرح تعزیت کی کہ تعزیت تو آپ کو ہماری کرنی چاہیے کہ ہم بھی تویتیم ہوئے ہیں۔مولانا سراج الدین ندوی صاحب نے اپنے مضمون میں مولانا جلا ل الدین عمری مرحوم کے حوالے سے اسی قسم کی ذاتی نوعیت کی یتمی کا حوالہ دیا ہے۔اللہ اپنے نیک بندوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں عزت وتکریم کے جو جذبات پیدا فرمادیتا ہے، یہ انہی جذبات کے سبب سے ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان میں سے کسی کے رخصت ہوجانے پر یتیمی کا احساس ستاتاہے۔
مرحوم ومغفورمولانا سید جلال الدین عمریؒ نے گزشتہ برس خود بھی دو بڑے صدمات سہے تھے، ایک تو ان کی شریک حیات انہیں داغ مفارقت دے گئیں اور ان سے پہلے ہی سفرِآخرت پر روانہ ہوگئیں اور دوسرے ان کے داماد، ماہنامہ ’زندگی نو‘ کے مدیرڈاکٹر محمد رفعت بھی دار فانی سے داربقا کو سدھارگئے۔ ان دونوں بہت ہی ذاتی نوعیت کے صدمات نے مولانا مرحوم کو کیا کیا نہ سوگوار کیا ہوگا۔ مگر طرفہ تو ہے کہ اب خود انہوں نے بھی اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کرلیں اوراپنے رفقاء ، متعلقین اور شناساؤں کو یتیمی کا گہرا احساس دےگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون، کہ موت سے کسی کو مفرنہیں اور صبر کے بنا چارہ نہیں۔ إِنَّ لِلّٰہِ مَا أَخَذَ وَلَہٗ مَا أَعْطٰی وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہُ بِأَجَلٍ مُسَمًّی (بخاری ومسلم)
مولانا مرحوم نے اپنی ساری زندگی علم وتحقیق ، تصنیف وتالیف اور دعوت وارشاد کی مصروفیات میں گزاری، عمر بھی اللہ نے انہیں خاصی طویل عطا فرمائی اور ان کے وقت اور کام میں برکتیں بھی خوب رکھیں۔وہ اسلام کے ایک سرگرم اور فعال رکن تھے۔ ان کی فکر ، گفتگو اور تحریروتقریرخوف سے بھرے ہوئے حالات میں بھی امید ورجاکی روشن مشعل کی طرح ہیں۔ اگر آپ ان کی کتابیں پڑھیں اور بیانات سنیں تو آپ خوشگوارامید اوروالہانہ جذبوں سے بھر جائیں گے۔آپ کو محسوس ہوگا کہ آندھیاں چل رہی ہیں اور پوری شدتوں کے ساتھ چل رہی ہیں اور چراغ جل رہے ہیں اورپوری شان بان کے ساتھ جل رہے ہیں۔
مولانا مرحوم ۱۹۳۵ میں جنوبی ہندوستان کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور ۱۹۵۴ میں یعنی کل انیس سال کی عمر میں علوم دینیہ میں فضیلت تک کی تعلیم مکمل کرلی۔ اس کے بعد انہوں نے یونیورسٹیز کا رخ کیا اور کئی طرح کے امتحانات پاس کیے۔۱۹۵۶ میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے اور پھر تاعمراسی کے ہوکر رہے۔اور اس طرح ہوکر رہے کہ جماعت کے اعلیٰ ترین عہدوں تک رسائی ملی اور نہ صرف رسائی ملی بلکہ اس قدر ہردل عزیزی اور مقبولیت کے ساتھ ملی کہ تین بار جماعت کے امیر منتخب کیے گئے۔مولانا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر بھی رہے۔اس کے علاوہ کئی اور اداروں اور تنظیموں کی سرپرستی کی اہم ذمہ داریاں بھی نبھا رہے تھے۔کئی رسائل وجرائد کے مدیر بھی رہے۔ان کی ادارت میں جنوری ۱۹۸۲ء سے شائع ہونے والا سہ ماہی مجلہ ’تحقیقات اسلامی‘ ملک وبیرون ملک کے علمی ودینی حلقوں میں انتہائی معروف ومقبول مجلہ ہے۔
مولانا مرحوم نہ صرف علمی میدان کے شہ سوارتھے بلکہ اخلاص وللہیت کے پیکر جمیل بھی تھے۔مولانا کو پڑھ کر، دیکھ کر اور سن کر قرن اول کے مسلمانوں کے اخلاق وکردار کی یاد تازہ ہوتی تھی۔مولانا کی علمی، ایمانی اور روحانی زندگی بیاباں کی شب تاریک میں روشن قندیل کی مانند تھی، جس سے بے شمار لوگوں نے رہنمائی حاصل کی، کمزور یقین والوں نے یقین کی دولت پائی اور علم وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے شیدائیوں نے ان کی صحبتِ بافیض سے خوب خوب کسب فیض کیا۔آپ نے اپنے پیچھے پچاس کے قریب اہم تصنیفات چھوڑی ہیں،ان میں سے اکثر بے حد مقبول ہیں، بعض کتابوں کے دیگر زبانوں میں تراجم بھی ہوئے ہیں۔ یہ کتابیں یوں تو متنوع موضوعات پر ہیں تاہم اسلام کا عائلی نظام آپ کا پسندیدہ موضوع رہا،پھر آپ نے خواتین اسلام کے حقوق اوران کے عملی دائرہ کار کو بھی موضوع بنایا۔اور اس طرح خامہ فرسائی کی کہ ان موضوعات کا حق ادا کردیا۔آپ متعدد زبانوں میں دست گاہ رکھتے تھے،اردو، عربی، فارسی ، ہندی اور انگریزی کے علاوہ علاقائی زبان کی بھی اچھی استعداد رکھتے تھے۔ آپ کی استعداد اتنی تھی کہ اصل دینی وعلمی مآخذ سے براہ راست استفادہ کرتے تھے ۔
آپ ایک جماعت سے وابستہ ضرور تھے بلکہ اس کی قیادت بھی سنبھالے ہوئے تھے تاہم آپ کے فکر و ذہن اور مشن میں دینِ اسلام ہی ترجیح اوّل تھااور دین اسلام کی سربلندی ہی آخری ہدف تھا۔ بے شک یہ ادارے اور جماعتیں وجمعیتیں، سب ثانوی درجے کی چیزیں ہیں، یہ تو بنتی بگڑتی اور بگڑتی بنتی رہتی ہیں ۔ جس چیز کو باقی رہنا ہے وہ تو بس اللہ کا دین ہے۔ آپ نے بیرونی ممالک کے اسفار بھی کیے اور ملک کے باہر بھی دعوت وارشاد اور فکر ودانش کے چراغ جلائے۔ آپ اسلامی فکر ودعوت نیز قرآن وسنت کے بہترین شارح اور فقہ اسلامی کے اچھے جانکار تھے۔ فقہی مسائل میں آپ اعتدال پسندی کی طرف مائل تھے، آپ کا مطالعہ وسیع اور متنوع تھا، ذہن کشادہ اور غور و فکر کا عادی تھا، اعتدال پسندی اور نرم مزاجی آپ کی شان تھی، آپ کا مطمح نظر امت کی شیرازہ بندی کی فکر سے عبارت تھا۔ آپ نئے زمانے کے تقاضوں سے بھی بخوبی واقف تھے اور بطور خا ص وطن عزیز میں مسلمانوں کے مسائل اور وسائل سے بھی پوری واقفیت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر اکرم ندوی صاحب نے اپنے تعزیتی مضمون میں مولانا کے علم ومطالعہ ،فکر ونظر اور فقہ وفتاویٰ میں اجتہادی شان وامتیاز کی بالکل درست ترجمانی کی ہے:
’’.. آپ كى تقرير وتحرير قرآن، سنت، فقہ اور اسلامى تاريخ كے عمیق مطالعہ پر مبنى ہوتى، اسى طرح آپ تقليد پرستى سے بہت دورتھے، آپ كى تحريريں مولانا مودودى رحمۃ الله عليہ كى صدائے باز گشت نہيں تهيں، بلكہ ذاتى مطالعہ اور تدبر كا نچوڑ تهيں، حالات كے تقاضوں كے مطابق آپ نے جماعت اسلامى كى ترجيحات ميں تبديلياں كيں….‘‘
مولانا کا نام ’جلال الدین ‘ ضرور تھا مگر مزاج سنجر و طغرل اور بابر واکبر کا سا نہیں تھا بلکہ رازی وغزالی اورشبلی ورومی کی سی شان بے نیازی، ادائے دلبری اور عالمانہ وقار و نیازمندی کا حامل تھا۔ مولانا ایک عرصے سے علیل چل رہے تھے او رآخر کار ۲۶؍ اگست ۲۰۲۲ء بروز جمعہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔اللہ انہیں غریق رحمت کرے، ان کے درجات بلند فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔ آمین۔

 

***

 مولانا سید جلال الدین عمری ایک جماعت سے وابستہ ضرور تھے بلکہ اس کی قیادت بھی سنبھالے ہوئے تھے تاہم آپ کے فکر و ذہن اور مشن میں دینِ اسلام ہی ترجیح اوّل تھااور دین اسلام کی سربلندی ہی آخری ہدف تھا۔ بے شک یہ ادارے اور جماعتیں وجمعیتیں، سب ثانوی درجے کی چیزیں ہیں، یہ تو بنتی بگڑتی اور بگڑتی بنتی رہتی ہیں ۔ جس چیز کو باقی رہنا ہے وہ تو بس اللہ کا دین ہے۔ آپ نے بیرونی ممالک کے اسفار بھی کیے اور ملک کے باہر بھی دعوت وارشاد اور فکر ودانش کے چراغ جلائے۔ آپ اسلامی فکر ودعوت نیز قرآن وسنت کے بہترین شارح اور فقہ اسلامی کے اچھے جانکار تھے۔ فقہی مسائل میں آپ اعتدال پسندی کی طرف مائل تھے، آپ کا مطالعہ وسیع اور متنوع تھا، ذہن کشادہ اور غور و فکر کا عادی تھا، اعتدال پسندی اور نرم مزاجی آپ کی شان تھی، آپ کا مطمح نظر امت کی شیرازہ بندی کی فکر سے عبارت تھا۔ آپ نئے زمانے کے تقاضوں سے بھی بخوبی واقف تھے اور بطور خا ص وطن عزیز میں مسلمانوں کے مسائل اور وسائل سے بھی پوری واقفیت رکھتے تھے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022