متاع دین ودانش لٹگئی اللہ والوں کی

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

ہمارا نصاب تعلیم اور نظام تعلیم دونوں عقیم ہیں اور وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے اور ابھی حکومت کے سروے کے جبر سے جو فیصلہ لیا گیاہے وہ بھی غلط ہے۔
دینی مدارس کے سروے کا کام زور وشور کے ساتھ شروع ہو گیا ہے اور یہ ہر جگہ موضوعِ گفتگو ہے۔ جب صبح ہوتی ہے جب شام کو سورج افق میں ڈوبنے لگتا ہے جب رات کو چاندنی اپنا شامیانہ پھیلاتی ہے مسلمان جو اپنے حال ومستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں، اس بارے میں بات کرتے نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کی تعلیم کے دو دھارے ہیں، عصری تعلیم گاہوں میں ساری توجہ فکر معاش کی طرف ہوتی ہے ایک بالشت بھر پیٹ زندگی کی ساری وسعتوں پر حاوی ہو جاتا ہے اور دوسرا دھارا دینی تعلیم کا ہے، اس کا مقصد دین کا علم اور دین کی دعوت ہے لیکن اس دھارے میں بہت سی خامیاں ہیں۔ وہ دل کی موت یہ اندیشہ ونظر کا فساد۔ قدیم دینی تعلیم گاہوں میں جو طریقہ تدریس وتعلیم رائج ہے وہ فرسودہ اور محتاج اصلاح ہے۔ دینی تعلیم گاہوں کے نصاب تعلیم کا مسئلہ سو سال سے زیر بحث ہے، اب تک ہمارے قدیم تعلیمی دینی ادارے کسی تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ مولانا ارشد مدنی جو مسلمانوں کے قائد بھی ہیں آج سے ربع صدی پہلے لکھنو کی ایک کانفرنس میں جو مدارس کے نصاب پر منعقد ہوئی تھی یہ کہہ چکے تھے کہ ہم نصاب تعلیم میں تبدیلی کے مخالف ہیں اور اب جب دینی مدارس کا حکومت کی طرف سے سروے شروع ہوا ہے تو وہ یہ فرماتے نظر آ رہے ہیں کہ ہم دارالعلوم میں آئندہ ان لڑکوں کو داخلہ دیں گے جو ہائی اسکول پاس کر کے آئیں گے۔ جب حکومت کے سروے کی برق آسمان سے گری تب یہ جمود ٹوٹا اور پھر جو فیصلہ سامنے آیا اور جس کا اعلان ہوا وہ بھی غلط تھا، قدیم نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کے بارے میں قدیم علماء کا جو موقف رہا تھا وہ افراط وتفریط کا شکار ہے یعنی پہلے بھی یہ موقف غلط تھا کہ نصاب میں اصلاح کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور اب یہ موقف بھی غلط ہے کہ ہم اب صرف ہائی اسکول سے فارغ ہونے والوں کو یعنی جدید تعیم یافتہ نوجوانوں کو دیوبند میں داخلہ دیں گے۔ دار العلوم دیوبند کے ایک اعلی ذمہ دار کی طرف سے یہ حیرت انگیز بیان آیا ہے۔ ’’متاع دین ودانش لٹ گئی اللہ والوں کی ‘‘۔یہ فکر ونظر کا انقلاب ہے اور یقیناً غیر صالح انقلاب ہے۔ اب حکومت اور حالات کے جبر کی وجہ سے اتنا بڑا انقلاب آگیا کہ دارالعلوم دیوبند جیسی درس گاہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ صرف ہائی اسکول پاس طلبہ کو اپنے یہاں داخلہ دے گا، جس طرح سے نصاب تعلیم کی تبدیلی کی ضرورت سے اہل مدارس کا انکار ایک غلط رویہ تھا اسی طرح سے اب یہ فیصلہ کہ صرف ہائی اسکول پاس طلبہ کے لیے داخلہ کا دروازہ کھولیں گے، غلط ہے۔ دینی مدارس کے یہاں تخلیقی قوتیں عرصہ دراز پہلے خشک ہو گئی تھیں اور اہل نظر مدرسہ وخانقاہ سے نمناک اٹھ رہے تھے اور انہیں یہ شکایت تھی کہ یہاں نہ زندگی ہے، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ۔ نصاب میں تبدیلی قبول کرنے سے انکار بھی بصیرت سے محرومی تھی اور اب یہ نئی تبدیلی بھی بصیرت سے محرومی کی علامت ہے ۔ کبھی کشتی نہیں ملتی کبھی ساحل نہیں ملتا۔
آج جب کہ تمام دینی مدارس کے حلقوں سے آہ وکراہ کی آوازیں اٹھ رہی ہیں، غم کی روشنائی میں قلم کو ڈبو کر دینی مدارس کے ذمہ داروں سے عرض گزار ہونے کو دل چاہتا ہے، اور یہ کہنے کے لیے دل چاہتا ہے کہ ہمارے دینی مدارس جن کا کام زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھنا تھا اور نسخہ شفا تجویز کرنا تھا وہ زمانے سے بالکل ہی بے خبر ہیں، مدارس کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہے ہندوستان میں کئی مدارس تھے جن کے فارغ التحصیل علماء کے تصنیفی کام میں جدت ہوتی تھی، تخلیقی قوت ہوتی تھی، فکر میں ندرت ہوتی تھی، ابداع واختراع کی شان ہوتی تھی، اب ہر سال کئی ہزار طلبہ دینی مدارس سے فارغ ہوکر نکلتے ہیں لیکن نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کی غلطیوں اور خامیوں کی وجہ سے فارغ ہونے والوں کی غالب ترین اکثریت بے شعوری کے اندھیروں کی اسیر ہوتی ہے، وہ عصری تقاضوں سے ناواقف ہوتی ہے، دینی مدارس کے فضلاء کے پاس غیر مسلموں سے گفتگو کی صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے، آخر یہ فارغین اسلام کی دعوت کا کام کیسے انجام دیں گے جب کہ سات آٹھ سال کی مسلسل تعلیم کے باوجود عربی نہیں آتی ہے، ان کی اردو میں بھی نہ شگفتگی ہوتی ہے نہ اس میں سلاست ہوتی ہے ، وہ دنیا سے بے خبر ہوتے ہیں اور مسلک کے بارے میں تنگ نظر ہوتے ہیں۔ اب جب کہ دینی مدارس کے محفوظ گھروں میں حکومت کی سروے ٹیم ہر جگہ داخل ہو رہی ہے انہیں صولت بزم کافری اور رقصِ بتانِ آزری کا منظر نظر آنے لگا ہے۔ یہ منظر ہے کہ اب سرکاری تعلیم پر زعفرانی رنگ چڑھایا جا رہا ہے، گیتا کو قومی کتاب قرار دینے کی کوشش ہورہی ہے، علماء مدارس بے بس ہیں مجبور ہیں اور جو کام نصاب میں تبدیلی کا انہیں بہت
پہلے کرنا چاہیے تھا، اب بغرض مجبوری کر رہے ہیں بہت سے درس نظامی میں تبدیلی کے لیے اب بھی تیار نہیں ہیں، ہر سال ان مدارس سے علماء کی ایک ایسی ٹیم فارغ ہو کر نکلتی ہے جس نے ہندو مذہب کا گہرائی کے ساتھ تنقیدی مطالعہ نہیں کیا ہے، طلبہ کے ذہنی افق کو وسیع کرنے کے لیے ایسا نصاب تعلیم ہونا چاہیے جس کو پڑھ کر مدرسے کا ایک فارغ دینی علوم میں واقفیت کے ساتھ ساتھ ہندی اور انگریزی سے بھی واقف ہو اور ضروری حدتک دوسرے عصری علوم سے بھی۔ اسے زمانے کا فہم وادراک ہو، تاکہ وہ مستقبل میں دین اسلام کے نشر واشاعت کی منصوبہ بندی کر سکے۔ اگر دینی مدارس کے طلبہ حالات زمانہ سے پورے طور پر واقف نہیں ہوں گے، نئے افکار ونظریات کا انہیں علم نہیں ہو گا اور ’’لسان قوم‘‘ میں اپنی بات کہنے کی ان میں صلاحیت نہیں ہوگی تو وہ بالکل غیر مفید اور غیر نفع بخش ثابت ہوں گے۔ اس بات کی کوشش تو ہونی چاہیے کہ دینی مدارس کے فضلاء عصری تعلیم گاہوں میں بھی داخلہ لے سکیں لیکن یہ تجویز صحیح نہیں ہے کہ دینی مدارس میں صرف ہائی اسکول پاس طلبہ کا داخلہ ہو گا، جس طرح سے درس نظامی کے نصاب تعلیم کو نہ بدلنے پر اصرار غلط ہے، اسی طرح اب یہ اصرار بھی غلط اور افسوسناک ہے کہ صرف ہائی اسکول کی سند رکھنے والوں کا ہی داخلہ ہو گا۔ دینی مدارس میں بہت سی خامیاں ہیں، طلبہ کے خارجی مطالعہ کی ہمت افزائی نہیں کئی جاتی ہے۔ طلبہ کی ذہنی افق کو وسیع کرنے کے لیے ہر درجے میں خارجی مطالعے کا کورس ہونا چاہیے تاکہ طلبہ کے اندر علمی استعداد اور ذہنی وسعت اور فکر کی آفاقیت پیدا ہو سکے۔
سیارگانِ چرخ درس نظامی یہ سننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ہمارے دینی مدارس میں تدریس کا انداز وطریقہ فرسودہ ہے، اساتذہ جدید وسائل تدریس سے واقف نہیں، تحقیق اور مطالعے کا شوق ناپید، لائبریری انتہائی غیر منظم اور مطالعہ کرنے والوں سے خالی، وہ کارڈ سسٹم جو آج ہر لائبریری میں نظر آتا ہے، یہاں مفقود، رجسٹر کا طریقہ جو غیر سائنٹفک ہے موجود، کتابوں کی کمپیوٹرائزیشن سے وہ ناواقف، ایسا لگتا ہے کہ اہل مدرسہ سائنس اور ٹکنالوجی کے عہد میں داخل ہی نہیں ہوئے، حالانکہ اب دنیا بھر کی اطلاعات اور سارے علوم انگلیوں کی ایک خفیف جنبش سے کمپیوٹر کے اسکرین پر ہم پڑھ سکتے ہیں اور ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ ہمارے چاروں طرف انفارمیشن کا جو دریا بہہ رہا ہے، اس کو علمی اور دعوتی مقصد کے لیے استعمال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وسائل کی کمی کا عذر صحیح نہیں ہے، اگر وسائل کی کمی ہے تو مدرسوں میں عالیشان عمارتیں کیسے وجود میں آجاتی ہیں؟ نصاب تعلیم کی اصلاح کے ساتھ نظام تعلیم کو بھی درست کرنا ضروری ہے۔مدارس کے ذمہ داروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمیں ہندو جارحیت کا چیلنج درپیش ہے اسی کے ساتھ مغربی تہذیب کی فکر کی یلغار بھی جاری ہے امت کو ایسا نصاب تعلیم درکار ہے جسے پڑھ کر ایسے علماء نکلیں جو یاتو انگریزی میں اتنے اچھے ہوں کہ یورپ کی علمی تحقیقات کا مطالعہ کر سکیں اور اس زبان میں اسلام کی ترجمانی کر سکیں یا ہندی اور انگریزی میں اتنے اچھے ہوں کہ ہندوستانی مذاہب کا علمی اور تنقیدی مطالعہ کر سکیں اور اسلام کے بارے میں غیر مسلم سوسائٹی میں لکچر دے سکیں کم ازکم اردو زبان میں ان کا قلم گوہر بار ہو۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ہمارا نصاب تعلیم اور نظام تعلیم دونوں عقیم ہیں اور وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے اور ابھی حکومت کے سروے کے جبر سے جو فیصلہ لیا گیا ہے وہ بھی غلط ہے اور بصیرت سے محرومی کی علامت ہے۔
افسوس کہ اب ہمارے مدارس رشد وہدایت کا سنگم بھی نہیں رہے حالانکہ ہمارے دینی مدرسے پہلے صرف تعلیم کی جگہ نہیں بلکہ ’’ پرورش آہ ونالہ‘‘ کی جگہ بھی ہوا کرتے تھے یعنی ان میں وہ رنگ بھی ہوتا تھا جو خانقاہوں کا امتیاز رہا ہے۔

 

***

 علماء مدارس بے بس ہیں مجبور ہیں اور جو کام نصاب میں تبدیلی کا انہیں بہت پہلے کرنا چاہیے تھا، اب بغرض مجبوری کر رہے ہیں بہت سے درس نظامی میں تبدیلی کے لیے اب بھی تیار نہیں ہیں، ہر سال ان مدارس سے علماء کی ایک ایسی ٹیم فارغ ہو کر نکلتی ہے جس نے ہندو مذہب کا گہرائی کے ساتھ تنقیدی مطالعہ نہیں کیا ہے، طلبہ کے ذہنی افق کو وسیع کرنے کے لیے ایسا نصاب تعلیم ہونا چاہیے جس کو پڑھ کر مدرسے کا ایک فارغ دینی علوم میں واقفیت کے ساتھ ساتھ ہندی اور انگریزی سے بھی واقف ہو اور ضروری حدتک دوسرے عصری علوم سے بھی۔ اسے زمانے کا فہم وادراک ہو، تاکہ وہ مستقبل میں دین اسلام کے نشر واشاعت کی منصوبہ بندی کر سکے۔ اگر دینی مدارس کے طلبہ حالات زمانہ سے پورے طور پر واقف نہیں ہوں گے، نئے افکار ونظریات کا انہیں علم نہیں ہو گا اور ’’لسان قوم‘‘ میں اپنی بات کہنے کی ان میں صلاحیت نہیں ہو گی تو وہ بالکل غیر مفید اور غیر نفع بخش ثابت ہوں گے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  2 اکتوبر تا 8 اکتوبر 2022