مسلم ووٹوں کو انتشار سے بچانا ایک بڑا چیلنج

پسماندہ مسلمانوں سے ہمدردی کی آڑ میں مسلم ووٹ کو بے وقعت کرنے کا منصوبہ !

نور اللہ جاوید، کولکاتا

مسلمانوں کو قومی سطح کے بجائے مقامی سطحوں پر حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت
گزشتہ ہفتے ہم نے چند اہم سوالات کے جوابات آئندہ کے لیے چھوڑ دیے تھے۔ ہم نے سوال کیا تھا کہ اگر سیاست میں شمولیت لازمی ہے تو مسلمانوں کو کن ایشوز پر توجہ دینی چاہیے؟ اگر سیاست میں نمائندگی کی اہمیت ہے تو پھر ایک ایسے وقت جب ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہندتو کے ایجنڈے کے تحت اکثریتی رائے دہندوں کی فرقہ وارانہ صف بندی (polarisation)کر رہی ہے تو پھر نمائندگی میں اضافے کا سوال اہم ہے یا سیکولر سیاسی جماعتوں کی کامیابی کو یقینی بنانا ضروری ہے؟ اور آخری سوال پولرائزیشن کو ناکام بنانےکے لیے مسلمانوں کوکن خطوط پر کام کرنے کی ضرورت ہے؟ بلاشبہ 2024 کے قومی انتخابات کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہیں۔گزشتہ دس برسوں میں جس طرح سے جمہوری اداروں پر بتدریج حملے کیے گئے اور مرکزی ایجنسیوں کے ذریعہ اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے اس کی نظیر آزاد بھارت کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔اس غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی سختیوں ، زیادتیوں، جمہوری و آئنینی اداروں پر حملوں اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف کھلے عام تعصب و نفرت کو ہوا دینے سے جو ماحول پیدا ہوگیا ہے وہ اعلانیہ ایمرجنسی کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ۔انتخابات سے عین قبل ملک کے دو وزرائے اعلیٰ کو جس انداز میں گرفتار کیا گیا ہے وہ ملک کی جمہوریت کے مستقبل کے اشاریے ہیں۔اس کا احساس ملک کی اپوزیشن جماعتوں کو بھی ہے ۔چناں چہ دلی کے رام لیلا میدان میں شوسینا کے سربراہ اودھو ٹھاکرے نے اپنے خطاب میں اس کا اشارہ بھی کیا کہ 2024کا انتخاب اقتدار کے حصول کے لیے نہیں بلکہ ملک کی جمہوریت کے تحفظ ، ایک شخص کے ڈکٹیٹرشپ سے ملک کو بچانے کے لیے لڑا جارہا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت اور سیکولر کردار کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ کیوں کہ جمہوریت کے زوال یا پھر ہندو راشٹر کے قیام کا سب سے بڑا خمیازہ مسلمانوں کو ہی بھگتنا کرنا پڑے گا۔چناں چہ اس پورے سیاسی منظرنامے سے مسلمانوں کے لا تعلق ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ تاہم قابل غور بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ کیا ملک بھر میں مسلم ووٹروں کا رجحان یکساں رہے گا؟
یہ دونوں سوالات اس لیے اہم ہیں کہ مسلم اشرافیہ کا ایک طبقہ جسے تمام مراعات حاصل رہے ہیں اور جسے وہ حالات اور مشکلات کا بھی سامنا نہیں رہا ہے جس کا عام طور پر ملک کے دیگر حصوں میں آباد مسلمانوں کو سامنا رہاہے۔اس طبقے کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی اور مودی کے تئیں مسلمانوں کے رجحان میں تبدیلی آئی ہے۔ایک انگریزی اخبار میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور بی جے پی کے قومی نائب صدر طارق منصور نے پانچ ایسی وجوہات بیان کی ہیں جن کی وجہ سے بی جے پی اور مودی کے تئیں مسلمانوں کے رجحان میں تبدیلی آئی ہے۔پہلی وجہ یہ ہے کہ مودی کے دور حکومت میں مسلم قوانین میں اصلاحات آئی ہیں، طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون کی وجہ سے مسلم خواتین کو فائدہ پہنچا ہے۔مسلم خواتین کا ایک بڑا طبقہ مودی حکومت کے ساتھ ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ پس ماندہ مسلمانوں کے تئیں مودی حکومت نے مثبت اشارے دیے ہیں اور ان کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے، چناں چہ اس کا اثر نظر آئے گا۔80 فیصد مسلم آبادی پس ماندہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔تیسری وجہ یہ ہے کہ مودی کے دور حکومت میں مسلم دنیا بالخصوص عرب ممالک سے تاریخی تعلقات قائم ہوئے ہیں ۔بھارت اور عرب ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کا فائدہ عام مسلمانوں کو پہنچاہے ۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ مودی کی فلاحی اسکیموں سے مسلمانوں کو یکساں فائدہ پہنچا ہے۔آخری وجہ یہ ہے کہ ملک کے مسلمان سیاسی شعور کے اعتبار سے بالغ ہیں، انہیں معلوم ہے کہ ایک ایسے وقت جب دنیا عالمی جنگ کے دہانے پر ہے، یوکرین بمقابلہ روس اور اسرائیل مقابلہ فلسطین جنگ کے اس دور میں بھارت میں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو پوری دنیا کی رہنمائی کرسکے اور یہ مودی کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا ہے۔طارق منصور کے اس دعوے کو سرے سے خارج کرنے کے بجائے ماضی میں مسلم ووٹروں کے رجحانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔2019کے عام انتخابات میں بی جے پی کی تاریخی کامیابی کے بعد مسلمانوں کی فکر اور سوچ پر سیاسی تجزیہ نگاروں کے ایک گروپ باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ریاستی انتخابات میں مسلمانوں نے بڑی حد تک بی جے پی کے خلاف اور سب سے مضبوط چیلنجر پارٹی کے حق میں متحد ہوکر ووٹ دیا ہے۔تاہم حالیہ برسوں میں مسلم آبادی میں سماجی اور سیاسی اختلافات بھی بیک وقت کھل کر سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر، مسلم ذاتوں کی درجہ بندی اور دیگر ذیلی برادریوں میں شناخت کا مسئلہ اور مسلکی اختلافات سیاسی گفتگو کے اہم موضوعات بن چکے ہیں۔اس لیے سوال یہ پیدا ہواتا ہے کہ مودی نے پس ماندہ مسلمانوں کا جو سوال کھڑا کیا ہے کیا مسلمانوں کی سیکیورٹی کا سوال ذات پات کے اختلافات پر حاوی ہوجائے گا؟
سیاسی تجزیہ نگار بلال احمد اپنی تحقیق میں کہتے ہیں کہ ماضی کے انتخابات میں بھارت کے مسلمانوں نے شاذ و نادر ہی مربوط انداز میں کسی ایک سیاسی جماعت کے حق میں لام بند کی ہے۔ ہندوؤں کی طرح مسلمان بھی طبقے، فرقے، ذات پات اور علاقائی خطوط میں منقسم ہیں- 2019 کے عام انتخابات سے قبل تک مسلم ووٹروں کا رویہ نمایاں طور پر منتشر رہا ہے ۔کسی ایک سیاسی جماعت کی حمایت میں ہم آہنگی بہت ہی کم رہی ہے۔تاہم بی جے پی کی 2019 کی جیت کے بعد سے ووٹنگ کے رویے میں تبدیلی آئی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو اور اب اسسٹنٹ پروفیسر فیاض علی اپنی ایک تحقیق میں بتاتے ہیں کہ 2019 کے عام انتخابات کے بعد ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں سب سے مضبوط اپوزیشن جماعت کو ووٹ دینے کا رجحان مسلمانوں میں پیدا ہوا ہے۔سنٹر فار اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی کے لوک نیتی پروگرام کے تحت کیے گئے ایک سروے کے مطابق 2020 کے بہار انتخابات میں تقریباً 77 فیصد مسلمانوں نے مہاگٹھ بندھن (بی جے پی کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کا اتحاد) کو ووٹ دیا۔ 2021 مغربی بنگال کے انتخابات میں 75 فیصد مسلمانوں نےترنمول کانگریس کو ووٹ دیا ہے۔ اور 2022 کے اتر پردیش کے انتخابات میں 79 فیصد مسلمانوں نے بی جے پی مخالف سب سے مضبوط سماج وادی پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔تاہم فیاض علی اپنی تحقیق کے مطابق کہتے ہیں کہ اگر کسی حلقے سے کوئی مسلم نمائندہ میدان میں آجاتا ہے تو مسلمانوں کے رجحان میں تبدیلی آتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلمانوں میں ذات پات کی کوئی مذہبی اور نظریاتی بنیاد نہیں ہے لیکن سماجی اور پیشہ ورانہ اعتبار سے ہندو برادریوں کی طرح مسلمانوں میں بھی ذات پات کی درجہ بندی کی شکل میں موجود ہے۔ کئی سرویز میں دعویٰ کیا گیا کہ مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا ہے جو خود کو دلت مسلمان کہتا ہے ۔اتر پردیش میں مسلمانوں میں ذات پات کے بارے میں ایک سروے کے دوران، کچھ دلت مسلمانوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں ذات پات کی تفریق کا سامنا ہے۔اپنے مُردوں کو اسی قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جہاں اعلیٰ ذات کے مردے دفن ہوتے ہیں ۔مسلمانوں کی سماجی اور اقتصادی زندگی میں ذات پات کی سیاست اور گروہی تعلقات اس قدر اہم ہوگئے ہیں کہ گزشتہ چار برسوں میں گوگل پر ’’پس ماندہ مسلمانوں‘‘ کے سرچ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔یہ اضافہ شمالی ہندوستان میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔بہار میں ذات پات کی بنیاد پر سروے کے بعد مسلمانوں کے پس ماندہ گروپ کی قیادت کرتے ہوئے سابق ممبر پارلیمنٹ علی انور نے پس ماندہ مسلمانوں کی حصہ داری کے مسئلے کو ایک بار پھر پر زور انداز میں اٹھایا ہے مگر انتخابی حکمت عملی کے طور پر انہوں نے بی جے پی کے طرف رجحان پر متنبہ کیا۔2022میں بی جے پی کے اراکین عاملہ کی کمیٹی کے اجلاس میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم مودی نے پس ماندہ مسلمانوں کے ایشو کو اٹھایا اور پارٹی ورکروں کو ان تک پہنچنے کی تلقین کی۔
اب چوں کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات ہمارے سامنے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت جب کہ مسلمانوں کے سامنے مجموعی طور پر شناخت کا بحران موجود ہے، کیا بھارت کے مسلمان ذات پات کو مذہبی شناخت پر ترجیح دیں گے یا پھر مذہبی شناخت کی بنیاد پر ووٹنگ کریں گے؟ اس کے جواب میں فیاض علی اعداد و شمار کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ماضی میں کئی ریاستوں بالخصوص اتربپردیش اور بہار میں مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے ذات پات کی بنیاد پر ووٹنگ کی ہے ۔اس لیے میرا ماننا ہے کہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ 2024کے عام انتخابات میں مسلمانوں کا مجموعی رجحان مذہبی شناخت اور سیکیورٹی کے مسئلہ کی سمت رہے گا جیسا کہ طارق منصور دعویٰ کر رہے ہیں اور عام انتخابات میں مسلمانوں کا کوئی چھوٹا طبقہ بھی بی جے پی کے ذات پات کی سیاست کے جھانسے میں آجاتا ہے تو مسلم ووٹوں کو بے وقعت ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا ہے۔
لوک سبھا انتخابات میں مسلم فیکٹر
اہم سوال یہ ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں مسلم ووٹ کی شرح کسی بھی سیاسی جماعت کی شکست اور فتح میں کس طرح اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔چنئی میں مقیم صحافی سید علی مجتبیٰ کہتے ہیں کہ 543 لوک سبھا حلقوں میں 196سیٹوں پر مسلم ووٹرز اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق اتر پردیش کے 80 سیٹوں میں سے 54 سیٹوں پر مسلم ووٹروں کی اہمیت مسلم ہے۔ بہار کی 40 سیٹوں میں سے 29سیٹوں میں مسلم ووٹرز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔مغربی بنگال کی 42 سیٹوں میں سے 28حلقوں میں مسلم ووٹروں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔کرناٹک کی 28 سیٹوں میں سے 15سیٹوں پر مسلم ووٹرز کی موجودگی کافی اہم ہے۔کیرالا کی 20سیٹوں میں 14ایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلم ووٹرز اثر رکھتے ہیں۔ مہاراشٹر میں کل 48 سیٹیں ہیں جن میں سے 13سیٹوں پر مسلم ووٹرز کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔آندھرا اور تلنگانہ کے کل 42میں سے 12سیٹوں پر، آسام میں کل 14 سیٹوں میں سے 9 سیٹوں پر گجرات کی 26 سیٹوں میں سے 6 اور راجستھان کی 25سیٹوں میں سے 6 سیٹوں پر مسلم ووٹروں کی تعداد فیصلہ کن ہے۔ یعنی ملک کی کل 28 ریاستوں میں سے دس ریاستوں میں مسلم ووٹرز کی تعداد کافی اہم ہے۔اترپردیش، بہار اور بنگال کی کل 162 سیٹوں میں سے 111سیٹیں ایسی ہیں جن میں مسلم ووٹ کسی بھی سیاسی جماعت کی فتح و شکست میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اسی طرح کیرالا، تلنگانہ، آندھرا پردیش، کرناٹک،مہاراشٹر اور آسام میں بھی مسلم ووٹروں میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کرنے کی صلاحیت ہے۔ صحافی سید علی مجتبیٰ مزید کہتے ہیں کہ جن حلقوں میں مسلم ووٹروں کی تعداد 10 فیصد یا اس سے کچھ زائد ہے ان حلقوں میں مسلم ووٹرز کافی اہم رول ادا کرتے ہیں اور جن حلقوں میں مسلم ووٹروں کی تعداد 20 فیصد سے زائد ہے عام طور پر ان حلقوں میں مسلم ووٹ منقسم ہونے کی وجہ سے بے اثر ہوجاتے ہیں۔ چوں کہ ایسے حلقوں میں کئی مسلم امیدوار کھڑے کردیے جاتے ہیں اور ایسے حلقوں میں عام طور پر ہندو ووٹ پولرائز ہوجاتے ہیں اس کی وجہ سے بی جے پی یا پھر اس کی حلیف جماعتیں جیت جاتی ہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال کچھ انتخابات میں شمالی بنگال کی کئی ایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلم ووٹروں کی تعداد 25 فیصد سے 47 فیصد کے درمیان ہونے کے باوجود بی جے پی کے امیدوار نے جیت حاصل کی تھی۔اسی طرح ایسی چند ہی سیٹیں ہیں جہاں مسلم ووٹروں کو واضح اکثریت حاصل ہے۔چناں چہ کسی بھی مسلم امیدوار یا سیکولر سیاسی جماعتوں کے امیدوار کو جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ پولرائزیشن سے گریز کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
فیاض علی اور دیگر سیاسی تجزیہ نگار جس طرح سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ عام انتخابات میں مسلم ووٹرس ذات پات کی بنیاد پر ووٹنگ کرسکتے ہیں تو ایک بڑا چیلنج مسلم ووٹ کو متحد رکھنا ہو جائے گا۔ ظاہر ہے کہ ووٹ کے انتشار کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ملے گا۔ اگرچہ نیتی پروگرام کے سروے میں یہ کہا گیا ہے کہ اتر پردیش میں 2017کے مقابلے میں 2022 کے اترپردیش کے انتخاب میں مسلمانوں میں ذات پات کی بنیاد پر بی جے پی کو ووٹ دینے کے رجحان میں گراوٹ آئی ہے۔2017 میں 9 فیصد مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ دیے تھے جب کہ 2022 میں محض 6 فیصد مسلمانوں نے ووٹ دیے تھے۔ تاہم، اوبی سی مسلمانوں نے بی جے پی کو زیادہ ووٹ دیے۔
مشہور سماجی کارکن اور سنٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم کے صدر رام پنیانی مسلمانوں کے پاس الیکٹرولر متبادل کیا ہیں؟ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ بی جے پی خوش فہمی میں مبتلا ہے ۔دراصل مودی کے تئیں مسلمانوں کی سوچ میں تبدیلی کے دعوے آدھے ادھورے سچ پر مبنی ہیں اور مسلمانوں کی زندگی کو تشکیل دینے والے بنیادی مسائل کو انداز کردیا گیا ہے ۔یہ دعویٰ کہ 2014 کے بعد مسلمانوں کے خلاف کوئی بڑا تشدد کا واقعہ رونما نہیں ہوا ہے، سراسر جھوٹ ہے۔ شاہین باغ کی زبردست تحریک کے نتیجے میں دہلی کے خوف ناک فرقہ وارانہ فسادات جسے بی جے پی کے مقامی لیڈروں اور ورکروں نے بھڑکایا تھا، اس میں 51 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 37 مسلمان تھے۔ آئے دن کسی نہ کسی بہانے سے مسلمانوں کی املاک کو بلڈوزر کے ذریعہ نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں تو مسلمانوں کے املاک کو نقصان پہنچانے کی مقابلہ آرائی جاری ہے۔اسلامو فوبیا کے واقعات نئی بلندیوں پر پہنچ گئے ہیں۔اس خوفناک ماحول نے شہروں میں مسلمانوں کی آبادی کو محدود کردیا ہے۔مسلمانوں کو زیادہ تر مخلوط علاقوں میں رہائش دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔مولانا آزاد فیلوشپ کو ختم کیے جانے کا اثر مسلمانوں کی تعلیم پر منتج ہوگا۔ حالیہ برسوں میں کمیونٹی کی اقتصادی ترقی کا سلسلہ رک سا گیا ہے ۔گیلپ کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں اور ہندوؤں کے معیار زندگی2018 اور 2019 کے درمیان خراب ہو رہا ہے، کیوں کہ ہندوستانی معیشت ایک گہری سست روی میں داخل ہوئی ہے۔ مسلم ہندوستانیوں میں فیصد 2019 میں 45 فیصد تک بڑھ گیا۔رام پنیانی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کی کم امید ہے کہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں مسلمان زیادہ ووٹ بی جے پی کو دیں گے۔رام پنیانی کے دعوے اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ کئی مقامات پر ذات پات کی بنیاد پر مسلم ووٹوں کے انتشار کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ مسلم ووٹوں میں انتشار کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے اور مذہبی شناخت اور سیکیورٹی کے سوالات کس طرح اہم بنائے جاسکتے ہیں؟
اس سلسلے میں کئی قابل توجہ پہلو ہیں جن پر توجہ دینی ہوگی۔یہ حقیقت ہے کہ علاقائی طور پر مسلمانوں کے اپنے اپنے مفادات رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ آسام کے مسلمانوں کو جو مشکلات در پیش ہیں، ویسی ہی مشکلات دیگر ریاستوں کے مسلمانوں کو بھی درپیش ہوں۔ جیسے کیرالا کا سیاسی منظر نامہ آسام سے بالکل مختلف ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو قومی سطح پر کوئی سیاسی حکمت عملی مرتب کرنے کے بجائے علاقائی سیاسی پس منظرکو مدنظر رکھتے ہوئے ہی اپنی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ بلکہ مزید ’مائیکرو سطح‘ پر منصوبہ سازی کار گر ثابت ہوگی۔جہاں تک سوال مسلمانوں کی نمائندگی اور مسلم ایشوز پر سیکولر سیاسی جماعتوں کے رویے کا ہے تو اس وقت صرف ایک ہدف ہونا چاہیے کہ مودی حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔جیسا کہ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر انجینئر محمد سلیم کہتے ہیں مسلم نمائندگی اور مسلم ایشوز کے سوال کو کسی اور موقع کے لیے پس پشت ڈال دینا چاہیے۔
کئی ایسی ریاستیں ہیں جہاں سیکولر سیاسی جماعتیں آمنے سامنے ہیں جن میں بنگال نمایاں ہے جہاں انڈیا اتحاد عملی شکل میں سامنے نہیں آیا ۔ممتا بنرجی نے کانگریس سے اتحاد کی کوئی کوشش نہیں کی ۔چناں اس کی وجہ سے کئی ایسے علاقے ہیں جہاں مسلم ووٹروں کے انتشار کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہوسکتا ہے۔ایسے حلقوں میں مسلمانوں کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔ صورت حال کا تقاضا تو یہ ہے کہ انتخابی موسم میں بڑے بڑے اعلانات کرنے کے بجائے خاموشی سے علاقائی سطح پر منصوبہ سازی اور اسی کے مطابق سیاسی اقدامات کیے جائیں۔انجینئر محمد سلیم صاحب کی یہ بات درست ہے کہ جہاں سیاسی جماعتیں اتحاد کرنے میں ناکام ہیں وہاں عوام اپنے اتحاد سے بی جے کو شکست دے سکتے ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیں

***

 یہ حقیقت ہے کہ علاقائی طور پر مسلمانوں کے اپنے اپنے مفادات رہے ہیں ۔ضروری نہیں ہے کہ آسام کے مسلمانوں کو جو مشکلات در پیش ہیں، ویسی ہی مشکلات دیگر ریاستوں کے مسلمانوں کو بھی درپیش ہوں۔ جیسے کیرالا کاسیاسی منظرنامہ آسام سے بالکل مختلف ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو قومی سطح پر کوئی سیاسی حکمت عملی مرتب کرنے کے بجائے علاقائی سیاسی پس منظرکو مدنظر رکھتے ہوئے ہی اپنی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ بلکہ مزید ’مائیکرو سطح‘ پر منصوبہ سازی کار گر ثابت ہوگی۔جہاں تک سوال مسلمانوں کی نمائندگی اور مسلم ایشوز پر سیکولر سیاسی جماعتوں کے رویے کا ہے تو اس وقت صرف ایک ہدف ہونا چاہیے کہ مودی حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024