ملک و ملت کے لیے مولانا جلا ل الدین عمریؒ نے غیر معمولی خدمات انجام دیں

مولانا کی کتابوں سے روشنی ملتی رہے گی۔ نئی نسل کو استفادہ کرنے کی ضرورت

نئی دہلی: (دعوت نیوز ڈیسک)

مرکز جماعت اسلامی ہند میں تعزیتی اجلاس۔ علماء و دانشوروں کے تاثرات
مولانا سید جلال الدین عمریؒ کی خصوصیات میں ایک بڑی خصوصیت ان کی جامعیت ہے۔ وہ ایک بلند پایہ مصنف تھے۔ ان کی تصنیفات کے مختلف زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے عام طور پر ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جو سلگتے ہوئے ہوتے تھے اور جن پر بہت کم لکھا گیا۔ انہوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس میں قرآن و حدیث، متقدمین، سلف صالحین کی کتابوں اور جدید علوم سے بھرپور استفادہ کیا۔ جدید علوم سے استفادہ کے لیے انہوں نے باقاعدہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں گریجویشن مکمل کیا۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے تھے، انتہائی سلاست اور عام فہم انداز میں لکھتے۔ انہوں نے یہ سارا کام دعوتی مصروفیات، تحریک اسلامی کی قیادت کی مصروفیات اور دیگر مصروفیات کے درمیان انجام دیا“۔ یہ باتیں امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے مسجد اشاعت اسلام، مرکز جماعت اسلامی ہند میں منعقدہ ایک تعزیتی اجلاس میں کہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”مولانا مرحوم نوجوانی کی عمر ہی سے جماعت کی مرکزی قیادت سے وابستہ ہو گئے تھے اور اس عرصے میں جماعت کی مختلف ذمہ داریاں انہوں نے ادا کیں۔ صرف جماعت اسلامی ہند ہی ان کا میدان عمل نہیں تھی بلکہ ملک و ملت کے کئی میدانوں میں غیر معمولی خدمات دینا مولانا مرحوم کا منفرد خاصہ تھا۔ آپ کے جانے سے کئی خلا پیدا ہو گئے ہیں۔ اب نئی نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے آگے بڑھے ۔ان کی وفات سے ہم سب کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ مولانا نے جو غیر معمولی کام انجام دیا ہے اس میں جہاں ان کی ذہانت و فطانت اور غیر معمولی محنتوں کا دخل ہے وہیں ان کی مقصدیت کا بھی دخل ہے۔ انہوں نے اپنے مقصد اور اپنی زندگی کے مشن کے لیے بھرپور یکسوئی کا مظاہرہ کیا۔ مولانا نے بالکل نو عمری یعنی محض 19 سال کی عمر میں فیصلہ کیا تھا کہ انہیں اپنی زندگی کو تحریک اسلامی کے لیے لگانی ہے، خاص طور پر علمی زندگی کے لیے وقف کرنی ہے اور وہ اپنے اس فیصلے پر 87 سال کی عمر تک پہاڑ کی استقامت کے ساتھ قائم رہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنا وطن تک چھوڑ دیا۔ اپنے اس فیصلے کے نٖفاذ کے لیے پوری یکسوئی کے ساتھ لگے رہے۔ یہ ہمارے لیے ایک بڑا سبق ہے۔ ہم کوئی بڑا کام کرنا چاہتے ہیں تو یہی وصف پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت اور جنت میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے اور اپنے محبوب ترین بندوں شہداء اور صالحین کے جوار میں جگہ عطا کرے اور ان کی عظیم خدمات کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے اسے اللہ اپنے فضل خاص سے پُر فرمائے“۔
اس موقع پر جمعیت علماء ہند کے مفتی عبد الرازق نے کہا کہ مولانا میں قوم و ملت کی اور پورے عالم کی فکر تھی، ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہےاس کا پُر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر علی امام اصغر سلفی مہدی نے کہا کہ مولانا مرحوم کی کتابیں ان کا عظیم کارنامہ ہیں۔ نوجوان نسل ان کی کتابوں سے استفادہ کریں۔ مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے سابق چیئرمین پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ ایک عالِم کی موت ایک عالَم کی موت ہے۔ ان کی وفات کا درد پوری دنیا میں محسوس کیا جا رہا ہے۔ مولانا کی وفات ہو چکی ہے مگر ان کی کتابوں سے روشنی ملتی رہے گی۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہا کہ مولانا غیر معمولی شخص تھے۔ ان میں حد درجہ تواضع اور انکساری پائی جاتی تھی۔ دیگر علوم کے علاوہ ان میں قانون دانی کی زبردست صلاحیت تھی۔ سکریٹری آل انڈیا شیعہ کونسل مولانا آغا جلال حیدر نقوی نے کہا کہ میں نے ملی مسائل پر ان سے بہت سے فیوض حاصل کیے ہیں۔ انڈین نیشنل لیگ کے صدر پروفیسر محمد سلمان نے کہا کہ مولانا اپنے چھوٹوں سے بڑی شفقت اور محبت سے ملتے تھے اور ناموافق حالات میں بالکل نہیں گھبراتے تھے۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ان کی وفات امت کے لیے بڑا سانحہ ہے۔ ان سے ہر کس و ناکس بلا روک ٹوک مل سکتا تھا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ میں مدلل اور واضح بات پیش کرتے تھے۔ مولانا مرحوم کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر سید صفی اطہر نے کہا کہ مولانا کی پوری زندگی جہادی تھی، ان کے عادات و اطوار اور خاندان کے لیے طریقہ اصلاح مشفقانہ تھا۔ وہ ہم لوگوں کو کسی بات کی نصیحت کرتے تو نرم روی اختیار کرتے۔ وائس آف امریکہ کے نمائندہ سہیل انجم نے مولانا کی زندگی کا مختصر خاکہ اس طرح پیش کیا گویا کہ وہ ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ روزنامہ خبریں کے ایڈیٹر قاسم سید نے کہا کہ مولانا نے امت مسلمہ کے مابین مسلکی اختلافات کو دور کرنے میںاہم رول ادا کیا۔ شعبہ اسلامی معاشرہ، جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے کہا کہ مولانا کی وفات کے درد کو میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں۔ وہ میرے لیے ٹھنڈی چھاؤں کی طرح تھے۔ میں نے چالیس برسوں تک ان کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھا ہے۔ اجلاس کے دوران دنیا بھر سے جماعت کو موصول ہونے والے تعزیتی پیغامات میں سے کچھ اہم صوتی پیغامات اسکرین کے ذریعے پیش کیے گئے۔جمعیت اہل حدیث کے صدر مولانا اصغر امام سلفی نے مولانا عمری کوایک صاحب الرائے شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ مولانا میں امت کو جوڑنے کی خاصیت تھی۔مولانا کی زندگی روشن تھی اس کو راہ عمل بناکر اپنی جماعتی اورملی زندگی میں رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس موقع پر شیعہ عالم دین مولانا علی محمد نقوی، پروفیسر مرشدخان،پروفیسر سلیمان اور دیگر شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔دنیا بھر سے مولانا عمری کے انتقال پرجماعت اسلامی ہند کو تعزیتی پیغامات موصول ہوئے ہیں جس میں امام ڈاکٹر عبد الرحمن سدیس، امام مسجد اقصی، ڈاکٹر یوسف القرضاوی قطر، ڈاکٹر عبد العزیز احمد، ڈاکٹر اسماعیل ہانیہ، مولا نا رابع حسنی ندوی،مولانا سفیان قاسمی، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی،پروفیسر خورشید احمد اور دیگر شخصیات شامل ہیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022